پاکستانی فلم انڈسٹری اور فیمینزم

شیکسپیئر ہیملٹ میں ایک جگہ لکھتا ہے، ’’کمزوری، تمہارا نام عورت ہے۔‘‘ ‎اور یہ درست ہے کہ مجموعی طور پہ زیادہ تر فنون لطیفہ سے جڑے لوگوں نے صدیوں سے اسی خیال کو بڑھاوا دیا ہے۔

پاکستانی فلم انڈسٹری اور فیمینزم
پاکستانی فلم انڈسٹری اور فیمینزم
user

Dw

خواہ وہ ادیب ہوں یا شاعر، فلم ساز ہوں یا پینٹر۔ عورت کو ہمیشہ کمزور، ناقابل اعتبار اور جذباتی مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اب وقت کے ساتھ چیزیں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ بھارتی فلم ساز وشال بھردواج مشہور زمانہ فلم 'حیدر‘ بناتے ہیں تو اس تاثر کو اپنے طور پر زائل کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ عرشی کا کردار ہو یا غزالہ کا، وشال یہ ثابت کرتے ہیں کہ عورت قوت کا دوسرا نام ہے۔ جب کسی عورت کو اپنی طاقت کا ادراک ہو جائے تو وہ پہاڑ سے ٹکڑا کر اسے ریزہ ریزہ کرنے کی قوت رکھتی ہے۔

پاکستان میں بننے والی حالیہ فلموں میں 'پنجاب نہیں جاؤں گی‘ ایک ایسی فلم ہے، جس میں عورت کا مستحکم چہرہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، مگر یہ ایک کوشش ہی رہی۔ امل دستور (مہوش حیات) پر جسمانی تشدد ہوا اور اس تشدد کو ٹھنڈے پیٹوں گوارا کیا گیا۔ سو پیغام یہ بنا کہ جسمانی تشدد عام معمول کی ایک بات ہے، جسے سہہ لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیا یہ پدر شاہی کا فروغ نہیں ہے؟


یہی حال دیگر فلموں کا بھی ہے۔ کہانی میں عورتوں کے حقوق والا تڑکا تو لگا دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس کے حصول کے لیے سیڑھی کہاں سے لائیں، کہاں لگائیں اور کیسے لگائیں؟ شعیب منصور کی 'بول‘ اور 'ورنہ‘ جیسی کاوشیں اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔ مگر کہانی اور سکرپٹ کے اعتبار سے وہ بھی گھمبیر تھیں، جو پاکستانی شائقین کے فلمی ذوق کے لیے کچھ خاص سامان نہ کر سکیں۔

اس عیدالفطر پہ ریلیز ہونے والی فلموں میں ایک ڈائریکٹر ثاقب خان کی 'گھبرانا نہیں ہے‘ بھی تھی۔ پہلے پہل یہ اپنے ٹریلر سے کمرشل فلم والے فارمولے کے مطابق بنی ہوئی فلموں میں ایک اضافہ لگی۔ اس تاثر کو ذہن میں رکھا جائے تو بھی 'گھبرانا نہیں ہے‘ کے پہلے دس منٹ یہ واضح کر دینے کو کافی ہوتے ہیں کہ یہ فلم ایک عام رومینٹک کامیڈی سے بڑھ کر ہے۔ حیرت انگیز طور پر دوسری فلموں کی طرح مشرقی رومانس کے نام پہ پدر شاہی سوچ کو مزید بڑھاوا دینے اور کامیڈی کی آڑ میں پھکڑ پن کرنے کی بجائے یہ فلم حقیقی معنوں میں ایک اہم سماجی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ مسئلے کی نشاندہی بہت ہلکے پھلکے انداز میں کرتی ہے بلکہ حل بھی اس سلیقے سے بتاتی ہے کہ معاشرتی اقدار پر گراں نہ گزرے۔


دراصل لاشعور میں کچھ ایسی باتیں بیٹھ گئی ہیں، جو پدر شاہی کی نہ صرف بنیاد ہیں بلکہ اس کے فروغ کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔ ان بنیادی باتوں کی نشاندہی کے ساتھ کے ساتھ، معاشرے میں internalization of values جیسے گھمبیر موضوع کو بہت ہی لطیف پیرائے میں نبھایا گیا ہے۔ فلم دیکھنے والے کی آنکھ میں پانی کم ہی کیوں نہ ہو ایک بار گریبان میں ضرور جھانکتا ہے کہ عورتوں کے استحصال میں کہیں میں بھی تو شریک نہیں ہوں۔

  • ’بیٹا بازو بنے گا، بیٹی عزت‘

  • ’میں کمزور ہوں کیونکہ یہ دنیا والے جانتے ہیں مجھے عزت کی حفاظت کرنی ہے۔


یہ دو ڈائیلاگ مشرقی معاشروں میں موجود تعفن زدہ سوچ اور زہریلے رویے کی جڑ کا پتا دیتے ہیں۔ اولاد کی جنس سے اس کا مقام طے کیا جاتا ہے۔ اولاد لڑکا ہے یا لڑکی، یہ بات والدین کے معاشرتی مقام کا تعین کرتی ہے۔ سچ پوچھیے تو رویے کا تعین بھی اسی بات سے ہوتا ہے۔ لڑکا ابھی کمسن ہوتا ہے کہ والدین خود کو طاقتور محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لڑکیوں کے کاندھوں پر چونکہ عزت کا بوجھ لادھا ہوا ہوتا ہے، اس لیے لڑکیوں سے 'غیر انسانی توقعات‘ باندھ لی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ خود پر جھک جھک کر زندگی گزارنے کا فیصلہ بھی مسلط کر لیا جاتا ہے۔

بیٹی کی پیدائش پہ خواہ والدین نے شادیانے بجائے ہوں مگر ان کے بڑا ہوتے ہی والدین اپنے مزاج میں وہ عاجزی پیدا کر لیتے ہیں، جو بیٹیوں کے والدین کے مزاج کی روایتی علامت ہے۔ کوشش کر کے والدین خود کو کمزور جگہ پہ رکھتے ہیں کیونکہ ان سے مضبوط ہونے کی توقع نہیں کی جاتی۔ انہیں کمزور ہی رہنا ہے کیونکہ ان کا احساسِ تفاخر پہ کوئی حق نہیں خواہ اولاد کتنی ہی کامیابیاں سمیٹ کر نہ لے آئے۔ ایسی 'تعفن زدہ اور بیمار سوچ‘، جہاں مجموعی طور پہ خواتین کے استحصال کا باعث بنتی ہے، وہیں ان خاندانوں کے لیے وبال جان بن جاتی ہے، جہاں خواتین (بیٹیاں) موجود ہوں۔


فلم ’گھبرانا نہیں ہے‘ اپنے پہلے منظر سے ہی اس معاشرتی رویے کی حوصلہ شکنی کرتی نظر آتی ہے۔ گرل پاور کے الفاظ والا مگ اٹھائے زبیدہ کا کردار نہ صرف پدرشاہی سوچ کی نفی کرتا ہے بلکہ خواتین کو اپنی قوت پہچاننے اور اس پہ انحصار کرنے پر بھی ابھارتا ہے۔ گویا خواتین اپنی ذات میں ہی بے انتہا قوت کے خزانے رکھتی ہیں۔

فلم میں مرکزی کردار زبیدہ اپنے حوصلے اور ہمت سے ہندوستانی ہدایت کار شیام بینگال کی فلم زبیدہ کے مرکزی کردار کی یاد دلاتا ہے، جو ہزار معاشرتی بیڑیوں اور پابندیوں کے باوجود اپنی قوت پہ بھروسہ کرتے ہوئے معاشرے سے لڑ بِھڑ جاتی ہے۔ اس ضمن میں زبیدہ نام کا انتخاب اور گرل پاور کا تذکرہ ہندوستانی فلمکار کی کاوش کے لیے بلاشبہ تحسین ہی بنتی ہے۔ گرل پاور پہ انحصار کے ساتھ ساتھ ثاقب خان نے اس بات کا بھی خوب دھیان رکھا ہے کہ یہ پیغام مرد سے نفرت پر ابھارنے کا سبب نہ بنے۔


دنیا میں خواتین کے حقوق کی تحریکوں کا ایک نتیجہ toxic feminism کے باعث مرد سے نفرت کی شکل میں واضح طور پہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسی toxic feminism کا اثر زائل کرنے کو اقوام متحدہ نے HeForShe نامی ایک مہم کا آغاز کیا، جس کا مقصد اس تحریک میں مردوں کے لیے گنجائش پیدا کرنا تھا۔ بونو کہتے ہیں: خواتین کے حقوق کی جنگ صحیح معنوں میں جیتنے کے لیے مردوں کو ان کا ساتھ دینا ہو گا۔ اس حساب سے ہماری انڈسٹری کے ثاقب خان صف اول میں نطر آئے۔

سوال یہ ہے کہ کہانی کیا ہے؟ بنیادی کہانی کچھ یوں ہے کہ فلم میں زبیدہ (صبا قمر) کے والد کی عمر بھر کی کمائی پہ ایک قبضہ گروپ غیر قانونی طور قبضہ کر لیتا ہے، جسے چھڑوانے کا عہد زبیدہ کرتی ہے۔ اس کی اس جنگ میں وکی (سید جبران) اور سکندر (زاہد احمد) اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ فلم کے مکالمے جاندار ہیں، سکرین پلے عمدہ ہے، اداکاری کی بات کریں تو صبا قمر نے زبیدہ کے کردار میں جان ڈال دی ہے۔


زاہد احمد نے اپنا کردار خوب نبھایا، تو جبران بھی کم نہیں تھے۔ بھائی جان کے کردارمیں نہایت منجھے اداکار نیئر اعجاز تھے تو سہیل احمد نے بھی سکرین پر ہر لمحے سے انصاف کیا۔ ڈائریکشن کی بات کی جائے تو کہیں سے یہ معلوم نہیں پڑتا کہ ثاقب خان کی بطور ہدایت کار بڑے پردے کی یہ پہلی کاوش ہے۔

گو کہ تکنیکی اعتبار سے یہ فلم ناقدین کا موضوع بننے سے قاصر ہے مگر اپنے پیغام کے لحاظ سے اس فلم نے خواتین کے حقوق کے لیے وہ کاوش کی ہے، جو بہت کم فلمیں یا فنکار کر پائے ہیں۔ ثاقب خان کو سراہنے کے لیے یہ ایک کاوش ہی بہت ہے کہ ایک ہاتھ سے سے وہ کمرشل فلم کے تقاضوں کو نبھاتے گئے اور دوسرے ہاتھ سے ایک اہم مسئلے کی پیچیدگیوں کو سہولت سے ہموار کرتے گئے۔ اس فلم کی کمرشل کامیابی نے اس امید کو بڑھایا ہے کہ باقی فلم ساز اور ہدایت کار بھی اپنے کام میں تنوع پیدا کریں گے۔

(نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔