پاکستان میں ڈیجیٹل آزادی پر ’ایک اور قدغن‘

پاکستان کی کابینہ ڈویژن کی جانب سے بھارت کی اسٹریمنگ ایپ ذی فائیو کو ادائیگی روکنے پر پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل آزادی پر ’ایک اور قدغن‘
پاکستان میں ڈیجیٹل آزادی پر ’ایک اور قدغن‘
user

ڈی. ڈبلیو

گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں واضع الفاظ میں متنبہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان کے کابینہ ڈویژن کی جانب سے انہیں ایک خط موصول ہوا ہے جس میں بھارتی مواد کی حامل ذی فائیو کی اسٹریمنگ سروس کو ادائیگی کے تمام تر ذرائع بشمول کریڈٹ کارڈ منقطع کردیے جائیں۔

ذی فائیو ایک اسٹریمنگ ایپ سروس ہے جس کی پاکستان میں سالانہ سبسکرپشن اس وقت 1500 پاکستانی روپے ہے۔ پاکستان کے لیے ذی فائیو گلوبل اسٹریمنگ ایپ کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کیونکہ گزشتہ سال ذی فائیو نے پانچ نامور پاکستانی ہدایت کاروں کی خدمات خصوصی ویب سیریز بنانے کی خاطر حاصل کی تھیں۔


ان پانچ ہدایت کاروں میں عاصم عباسی، مہرین جبار، کاشف نثار، انجم شہزاد اور حسیب حسن شامل ہیں۔ ذی فائیو گلوبل ایپ پر پہلی پاکستانی ویب سیریز 'چڑیلز‘ رواں برس اگست میں نشر کی گئی جو عاصم عباسی کی ہدایات میں بنائی گئی اور یہ چار خواتین کی کہانی ہے جس میں معاشرے میں پھیلی ہوئی زن بیزاری کے ماحول سے بغاوت کا اظہار کیا گیا۔ بعد ازاں رواں سال اکتوبر کے آخر میں مہرین جبار کی ہدایات میں بنائی گی 'ایک جھوٹی لو اسٹوری‘ نشر ہوئی جس کے مرکزی اداکاروں میں مدیحہ امام اور بلال عباس شامل ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ دنوں 'چڑیلز‘ کا ایک سین سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوا تھا جس میں ایک اداکارہ ایک جنسی عمل کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔ اس کے بعد اگرچہ حکومتِ پاکستان نے کوئی ردِ عمل نہیں دیا تھا، مگر ذی فائیو نے اسے اپنی ایپ سے پاکستان کے لیے ہٹا لیا تھا، پھر 36 گھنٹوں کے بعد یہ دوبارہ بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے نشر ہوئی۔


اس وقت جو تین ویب سیریز نشر ہونا باقی ہیں ان میں کاشف نثار کی تیار کردہ ویب سیریز 'من جوگی‘ ہے، جس میں صبا قمر اور نعمان اعجاز جیسے منجھے ہوئے اور معروف اداکار شامل ہیں۔ دوسری حسیب حسن کی تخلیق 'دھوپ کی دیوار‘ہے، جس میں پاکستان کا نیا شادی شدہ جوڑا سجل علی اور احد رضا میر مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔

تیسری ویب سیریز ہدایت کار انجم شہزاد کی جانب سے بنائی ہوئی 'عبداللہ پور کا دیوداس‘ ہے جس میں مقبول پاکستانی اداکارہ سارہ خان کے ساتھ انوشے عباسی اور سویرا ندیم بھی شامل ہیں۔


ڈی ڈبلیو نے اس ضمن میں حسیب حسن سے پوچھا کہ ان کی ویب سیریز آنے سے قبل یہ پابندی ان کے لیے کیا معنٰی رکھتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی افسوس ناک صورتِ حال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو ویسے بھی فن کو سرحدوں سے ماورا دیکھتے ہیں اور دیکھا جائے تو یہ ہمارے ملک کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ یہاں کی تخلیق کردہ کہانیاں دنیا کے 190 ممالک میں دیکھی جا رہی ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ذی فائیو کو انڈین نہیں بلکہ گلوبل پلیٹ فارم کے طور پر دیکھنا چاہیے اور ویسے بھی انڈین مواد تو یوٹیوب، نیٹ فلکس اور امیزون پر بھرا پڑا ہے۔


حسیب حسن نے بتایا کہ وہ تو ذی فائیو کو پاکستان کی جانب سے نیٹ فلکس اور امیزون کے لیے راستے کے طور پر دیکھ رہے تھے اور اگر سمجھا جائے تو جدید دور میں ڈرامے اور فلمیں ایک طرح کا ہتھیار بھی ہوتے ہیں اور پاکستان تو اپنے یہ ہتھیار خود بنا رہا ہے۔ انہوں نے مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس قدم سے بیرونی سرمایہ کاری کا بھی نقصان ہوگا کیونکہ پابندی لگانا کوئی حل نہیں ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن نگہت داد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کو ہر چیز کو سینسر کرنے کا شوق ہے اور یہ سب سے بڑا تضاد ہے کہ یہ سب اس حکومت کے دور میں ہورہا ہے جس نے سوشل میڈیا کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا۔


ان کا مزید کہنا تھا، ''حکومت کی جانب سے ذی فائیو یا دیگر آن لائن کمپنیز کو پاکستان میں دفتر کھولنے کی ترغیب تو دی جا رہی ہے مگر اس کے لیے ضروری ماحول تیار نہیں کیا جارہا۔ اب پاکستان میں تو فیس بک کے بانی مارک زکر برگ پر بھی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے تو ایسے میں عالمی ادارے یہاں اپنے دفاتر کیونکر کھولنے کا سوچیں گے۔‘‘ نگہت داد کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان میں آج تک کسی قسم کا ڈیٹا پروٹیکشن لاء موجود نہیں ہے، کیونکہ یہاں پہلے مختلف آن لائن ایکٹیویٹی کو جرم کی فہرست میں ڈالا جاتا ہے اور بعد میں حفاظت پر بات ہوتی ہے۔‘‘

نگہت داد کا کہنا تھا کہ عام آدمی کو اکثر معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ آپ لائن کسی جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ نگہت داد نے بتایا کہ ماضی میں بھی پیمرا کی جانب سے ویب چینلز اور یوٹیوب کو اپنے زیر تسلط لانے کی کوشش کی جا چکی ہے مگر یہ پی ٹی اے کا دائرہ اختیار ہے جس کی وجہ سے دونوں اداروں میں کھچاؤ رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو اس حکومت کی آن لائن آزادیوں کے ضمن میں پالیسی ہے، کوئی عالمی کمپنی یا سوشل میڈیا پورٹل پاکستان میں اپنا دفتر کھولنے کا سوچے گا بھی نہیں۔


سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور پاکستان میں میڈیا سے متعلق کتابوں کے مصنف جاوید جبار نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ پاکستان کو تنگ نظری کا ثبوت نہیں دینا چاہیے: ''یہ قدم انتہائی نامناسب ہے کیونکہ یہ بہت ہی محدود قسم کی سوچ ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ذی فائیو پر اب تک دو پاکستانی ویب سیریز آچکی ہیں اور اس پلیٹ فارم کے ذریعے یہ موقع مل رہا ہے کہ پاکستان اپنی ثقافت پوری دنیا میں پیش کرے، ایسے میں عوام کو اس سے محروم کرنا کافی زیادتی کی بات ہے۔

جاوید جبار کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کو ذمے داری سے کام لینا ہوگا اور یہ عمل اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن کے زمرے میں آتا ہے جس کی وہ مذمت کرتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا، ''حالیہ تاریخ میں بھارت کی جانب سے بارہا تنگ نظری کا ثبوت دیا گیا ہے جیسے پاکستانی فنکاروں پر پابندی وغیرہ لیکن بھارت نے پاکستان کی کسی اسٹریمنگ ایپ پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اگر لگائی ہوتی تو ایسے میں ردِ عمل کے طور پر اس پابندی کا کوئی جواز بن بھی سکتا تھا۔‘‘


دوسری جانب پاکستان کی وفاقی کابینہ کے رکن اور وفاقی وزیرِ سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ذی فائیو اگر پاکستان میں اپنا دفتر کھولتا ہے اور ٹیکس ادا کرتا ہے تو حکومت کو اس پر اعتراض نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے اس کی سبسکرپشن کی رقم باہر منتقل ہو رہی ہے مگر حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کیا جا رہا ہے۔

تاہم انہوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ جب نیٹ فلکس اور امیزون پرائم کے پاکستان میں دفاتر نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں تو پھر انہیں وفاقی کابینہ نے ادائیگیوں سے کیونکہ نہیں روکا۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر نے گزشتہ دنوں پاکستان کا نیٹ فلکس کی طرز پر اپنا آن لائن پورٹل شروع کرنے کی بات بھی کی تھی لیکن اس کی تفصیلات ابھی نہیں بتائی گئیں۔


معروف صحافی مہوش اعجاز نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فنکار اور ڈرامہ نویس بہت اچھا کام کر رہے ہیں اس لیے انہیں ذی فائیو کی جگہ نیٹ فلکس اور امیزون پرائم پر اپنا کام دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی نہ کہ ایک بھارتی اسٹریمنگ ایپ ذی فائیو پر۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کسی بھی پاکستانی اداکار یا ہدایتکار کے ملک سے باہر کام کرنے کے خلاف نہیں البتہ اس بات پہ دلبرداشتہ ضرور ہیں کہ بھارت سے پاکستانی فنکاروں کو جس طرح نکالا گیا تھا اس کے بعد پاکستانیوں کو وہاں ہندوستان جانے کی چاہت نہیں ہونی چاہیے۔

مہوش اعجاز کے مطابق: ''نیٹ فلکس اور ایمیزون بین الاقوامی پلیٹ فارم ہیں جبکہ ذی فائیو خاص کر ہندوستانی مواد پیش کرتا ہے۔ ذی فائیو بھارتی پلیٹ فارم ہے اور جہاں کوئی بھی پاکستانی اداکار، مصنف، یا ہدایتکار وہاں نہیں جاسکتا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔