عراقی نیشنل میوزیم: میسوپوٹیمیا کی تاریخ کا سب سے بڑا خزانہ
عراقی نیشنل میوزیم انسانی تاریخ کے ہزاروں سال پرانے عظیم ترین نوادرات پر مشتمل خزانے کا امین ادارہ ہے۔ وہاں میسوپوٹیمیا کی پانچ ہزار سال پرانی ثقافت کی انتہائی گراں قیمت باقیات دیکھی جا سکتی ہیں۔
دارالحکومت بغداد میں عراق کے اس قومی عجائب گھر میں محفوظ نوادرات کو دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد اور بڑا خزانہ قرار دیا جاتا ہے لیکن مشرق وسطیٰ کی اس عرب ریاست میں کئی سالہ جنگ سے اس خزانے کا بہت نقصان بھی پہنچا ہے۔ انسانی تہذیب کی اس گراں قدر میراث کی حال ہی میں سیر کرنے والوں میں ڈوئچے ویلے کے کارسٹن کیُوہن ٹوپ بھی تھے، جو عراقی نیشنل میوزیم کی سیر کے بعد اس بارے میں اپنے ایک مراسلے میں لکھتے ہیں:
اس میوزیم میں بابل اور اسوریہ کے تہذیبی ادوار کی بے شمار باقیات موجود ہیں۔ مجسمے، قدیم اشیاء اور ہزاروں سال پہلے کے طرز زندگی کے نمونے جو بہت سے بڑے بڑے نمائشی ہالوں میں شیشے کی نئی پرانی اور گرد آلود یا چمکتی ہوئی الماریوں میں رکھے گئے ہیں۔ اس میوزیم میں مجموعی طور پر 24 ایسی گیلریاں ہیں، جہاں تک عام شائقین اور مہمانوں کو رسائی کی اجازت ہے۔
تقریباﹰ ایک صدی پرانا میوزیم
عراقی نیشنل میوزیم میں رکھے گئے ہزارہا نوادرات میں سے زیادہ تر کا تعلق میسوپوٹیمیا کی تہذیب سے ہے اور اس عجائب گھر کی بنیاد تقریباﹰ ایک صدی قبل ایک برطانوی خاتون ماہر آثار قدیمہ گَیرٹرُوڈ بَیل نے رکھی تھی، جو اس عجائب گھر کی بانی ڈائریکٹر بھی تھیں۔
اس عجائب گھر کی شروع میں بنائی گئی پہلی عمارت جلد ہی بھر گئی تھی۔ پھر جرمن ماہر تعمیرات وَیرنر مارچ کی ڈیزائن کردہ ایک نئی عمارت تعمیر کی گئی، جس کا افتتاح 1966ء میں ہوا تھا اور جو آج تک استعمال ہو رہی ہے۔ اس عجائب گھر میں مجموعی طور پر ایک لاکھ چالیس ہزار نوادرات موجود ہیں، جن کے اب تک بھی صرف ایک چھوٹے سے حصے ہی کی نمائش کی جا سکتی ہے۔
عراق میں تمام عجائب گھروں کے ڈائریکٹر عباس عابد مندیل کہتے ہیں، ''یہ عجائب گھر دنیا کی عظیم ترین ثقافت کا آئینہ ہے، میسوپوٹیمیا یا 'دو دریاؤں کی سرزمین‘ کی ثقافت کا۔ اس میوزیم کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کی اس میراث کو پوری دنیا کو دکھائے کیونکہ یہ ورثہ صرف عراقی عوام کا ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔‘‘
بغداد کے اس میوزیم نے اپنی تاریخ کا سیاہ ترین دور اس وقت دیکھا، جب 2003ء میں امریکا نے صدام دور کے عراق پر فوجی چڑھائی کی۔ المیہ یہ ہے کہ تب امریکی عسکری اور سیاسی قیادت کے پاس عراق کی تیل کی صنعت کے تحفظ کے لیے باقاعدہ منصوبے تو موجود تھے لیکن عراقی عجائب گھروں کی حفاظت کے لیے کچھ بھی نہیں۔
عباس مندیل کا کہنا ہے، ''تب اس عجائب گھر کو اس کی تاریخ کی سب سے بڑی اور مسلح لوٹ مار کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا صدر صدام حسین کی حکومت کو زوال سے دوچار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن امریکی فوجیوں کے پاس ایسا کوئی منصوبہ یا طریقہ کار تھا ہی نہیں، جس کی مدد سے وہ اس میوزیم میں موجود خزانے کی لوٹ مار کو روک سکتے۔‘‘
ہزاروں نوادرات کی چوری
تب اس عجائب گھر سے کم از کم بھی 15 ہزار انتہائی بیش قیمت نوادرات چرا لیے گئے تھے۔ آج تک ان نوادرات میں سے اس عجائب گھر کو صرف 4300 چوری شدہ قدیم نموے ہی واپس ملے ہیں۔ جہاں تک جنگ کے مہینوں اور اس کے بعد کے کئی برسوں تک مسلسل بند رہنے والے اس میوزیم کے دوبارہ کھولے جانے کا تعلق ہے، تو آج اسے دوبارہ کھلے ہوئے صرف چار سال ہوئے ہیں۔
بغداد کا یہ قومی عجائب گھر اپنے خزانے کے لیے کافی جگہ کے حوالے سے اب ایک بار پھر چھوٹا پڑ چکا ہے۔ عباس عابد مندیل کا ارادہ ہے کہ اب اس میوزیم کے لیے ایک اور نئی عمارت تعمیر کی جانا چاہیے۔ لیکن ایسا تب ہی ہو سکے گا جب گزشتہ کئی عشروں کے دوران بار بار کی جنگوں سے بدحالی کے شکار عراق کے قومی خزانے میں اتنے مالی وسائل بھی ہوں گے کہ اس توسیع کے لیے بھاری رقوم مہیا کی جا سکیں۔
اجداد کی ہزاروں برس پرانی تاریخ
عراقی نیشنل میوزیم کی انسانیت کی ثقافتی میراث کے حوالے سے اہمیت کیا ہے، اس بارے میں عباس عابد مندیل کا موقف بہت واضح ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''انتہائی قدیم لیکن بہت شاندار تہذیب کی باقیات کا سب سے بڑا خزانہ، جس میں قدیم فنون سے لے کر تاریخ تک سب کچھ شامل ہے۔ کسی بھی ملک یا قوم کے لیے اس کی تاریخ فنون لطیفہ انتہائی اہم ہوتی ہے۔ لیکن یہاں تو بات کسی ایک قوم سے بڑھ کر پوری انسانیت کی ہے۔ اپنے اجداد کی تاریخ کا علم و شعور کسی بھی انسان کے لیے ایک بیش قیمت اثاثہ ہوتا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔