بلوچستان کے شہر خموشاں: چوکنڈی قبرستان اور مقبرے
بلوچستان میں حب، جھل مگسی، لسبیلہ، اوستہ محمد، سونمیانی اور دیگر علاقوں میں تاریخی چوکنڈی قبرستان دریافت ہوئے ہیں۔ جن میں اس دور کے اہم بلوچ سرداروں کے مقبرے بھی شامل ہیں جو فن تعمیرات کا شاہکار ہیں۔
صدیوں پہلے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز محل کی یاد میں عظیم الشان ’’’تاج محل‘‘ تعمیر کروایا تھا جو آج بھی دنیا بھر میں محبت کا استعارہ مانا جاتا ہے۔ بچھڑے ہوئے پیاروں کی یاد میں عمارتیں یا خوبصورت مقبرے تعمیر کروانے کا رواج زمانۂ قدیم سے رائج ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں اب تک ایسے سینکڑوں مقبرے اور قبرستان دریافت ہو چکے ہیں جو نا صرف فن تعمیرات کا شاہکار ہیں بلکہ اس دور کی ثقافت اور تاریخ کے الم بردار بھی ہیں۔ سندھ میں ''مکلی‘‘ اور چوکنڈی کے قبرستانوں کو باقاعدہ تاریخی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے مگر بلوچستان میں قریہ قریہ بکھرے چوکنڈی مقبرے انتہائی ابتر حالت میں ہیں۔
چوکنڈی کا مطلب کیا ہے؟
لفظ چوکنڈی کے بارے میں سندھ کے معروف تاریخ دان نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان کی قدیم تاریخی روایات کے مطابق کسی معزز شخص کی قبر کے گرد جو چار دیواری کا احاطہ بنایا جاتا اسے ’’چوکنڈی‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس پر باقاعدہ تحقیق کر کے ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری نے بھی اس کی کم و بیش یہی تعریف کی ہے کہ ایسی قبر جس کے اوپر کنوپی یا چھتری نما چھت بنی ہوئی ہو اسے چوکنڈی کہا جاتا تھا جس کے چار، چھ یا اس سے زیادہ ستون بھی ہوتے تھے۔
چوکنڈی مقبروں کی تاریخ ساڑھے چھ سو برس پرانی ہے جب سندھ و بلوچستان کے ان علاقوں میں کلمتی، جوکھیو اور دیگر بلوچی قبائل آباد تھے۔اس حوالے سے بلوچستان میں انھیں ’’کلمتی بلوچ مقابر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کلمت بلوچوں کا ایک ذیلی قبیلہ ہے جو زیادہ تر اورماڑہ اور پسنی کے علاقوں میں آباد تھے یہ سندھ و بلوچستان میں آمدرورفت کا ایک اہم راستہ ہے۔
چوکنڈی مقابر بلوچستان میں کہاں کہاں ہیں؟
جین فلپ ووگل نے 1901ء میں سب سے پہلے بلوچستان میں چوکنڈی قبرستان دریافت کیے تھے۔ ووگل ایک معروف اپیگرافسٹ تھے تو سنسکرت پر غیر معمولی عبور رکھتے تھے اور قبروں کے کتبوں کی تحریروں کو پڑھنے کے ماہر تھے۔ جے پی ووگل نے پولیٹیکل ایجنٹ قلات کیپٹن شاورز کی دریافت کردہ قبروں کی نشاندہی بھی کی جو حب ندی اور سونمیانی کے درمیان واقع ہیں اور اسلامی طرز پر بنائی گئی ہیں اور ان پر عربی میں عبارات کندہ ہیں۔ اسی دور میں ایم اے ٹیگ نے بھی بلوچستان کے علاقے ہنی وان میں کچھ چوکنڈی قبریں دریافت کیں۔
معروف اینتھروپولوجسٹ (ماہر بشریات) ذولفقار علی کلہوڑو بتاتے ہیں کہ 17 ویں صدی میں جھل مگسی اور لسبیلہ میں کلہوڑو قبائل کی حکومت تھی۔ اس دور میں یہاں جو قبریں تعمیر کی گئیں وہ تعمیرات کا شاہکار ہیں۔ ان میں گندھاوا میں واقع تین گنبد والا عبد القادر جونیجو کا مقبرہ اور دریائے مولا کے قریب واقع محمد علی شاہ التزئی کا مقبرہ خاصے کی چیزیں ہیں۔ لسبیلہ میں بلوچوں کےجام قبیلے کے اہم سرداروں کے مقبرے بھی ہیں جنھیں ’’کوریجا جام ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان پر معروف آرکیولوجسٹ ہینری کزنس نے کافی تحقیق کی تھی۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں اوستہ محمد، ہنگول ندی، حب اور گڈانی میں بھی ایسے مقابر دریافت ہوئے ہیں جن کی اکثریت انتہائی ابتر حالت میں ہے۔
چوکنڈی مقبروں کا طرز تعمیر
تاریخ بتاتی ہے کہ کسی دور میں کراچی کے ساحل سے حب ندی اور اس سے آگے بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں جوکھیو،کلمتی بلوچ اور برفت قبائل آباد تھے۔ اگرچہ ان قبائل کی آپس میں بالکل نہیں بنتی تھی مگر ثقافتیں مماثل تھیں۔ شاید اسی لیے ان علاقوں میں مقبرے ایک ہی طرز پر بنائے گئے ہیں جن کی لمبائی پانچ فٹ، چوڑائی ڈھائی فٹ اور انچائی چار سے چھ فٹ تک تھی۔ ان کی تعمیرمیں اینٹیں اور زرد رنگ کے پتھر استعمال کیے گئے اور بلوچی لباس کی طرح ان پر خوبصورت نقش و نگار بھی بنائے گئے۔
چوکنڈی قبروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قبر میں کون مدفن ہے۔ مثلاً خواتین کی قبروں پر زیورات، جنگجوؤں کے مقبروں پر ہتھیار جیسے تیر کمان وغیرہ بنائے گئے ہیں ۔ اسی طرح وزراء اور مشیروں کی قبروں کے گرد جالی دار دیوار اور سرداروں کے مقبرے اہرامِ مصر کی طرز پر ہیں۔ ان میں ہر قبر کو چار یا پانچ افقی صلیبوں سے ڈھانپ کر اس طرح جوڑا گیا ہے کہ ان کا شمالی حصہ کسی تاج یا دستار کی شکل میں نظر آتا ہے۔
بعض قبریں ساتھ ساتھ ایک پلیٹ فارم کے نیچے بھی بنائی گئی ہیں جو یقیناً ایک ہی خاندان کی قبریں ہیں۔ حب اور سونمیانی میں کلمتی قبائل کی اسلامی طرز کی قبروں کا رخ جنوب مغرب کی جانب ہے تاکہ مردے کے چہرے کا رخ کعبہ کی طرف رہے۔
بلوچستان میں چوکنڈی قبرستان کس حال میں ہیں؟
اوستہ محمد کے رہائشی ببرک کارمل جمالی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا ان کے علاقے میں واقع عظیم بلوچ سپوت لہڑاں خان کا مقبرہ آہستہ آہستہ زمین بوس ہو رہا ہے جبکہ چند برس قبل آنے والے شدید سیلاب کے باعث سخی صوبیدار خان کا مقبرہ تباہ ہوگیا تھا۔ نصیر آباد میں واقع شیر خان کا چوکنڈی مقبرہ بھی گرنے کے قریب ہے۔
ببرک کارمل کہتے ہیں کہ سندھ میں یونیسکو کے تعاون سے مکلی اور چوکنڈی کے قبرستانوں کی مرمت اور تزئین و آرائش کی جارہی ہے۔ اسی طرز پر بلوچستان کے چوکنڈی مقبروں کو فوری دیکھ بھال کی ضرورت ہے مگر صوبائی حکومت اس سے مکمل غفلت برتے ہوئے ہے۔ اگر یہی حال رہا تو چند سالوں میں یہ تاریخی مقبرے مکمل تباہ ہو جائیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔