’ڈیجیٹل بینن‘ نوآبادیاتی دور میں لوٹے گئے نوادرات کی فہرست
سابق افریقی سلطنت بینن سے نوآبادیاتی دور میں لوٹے گئے نوادرات کی تفصیل پر مشتمل ایک ڈیجیٹل فہرست مرتب کی گئی ہے۔ اس فہرست میں 20 ممالک کی پانچ ہزار اشیاء شامل ہیں۔
''ڈیجیٹل بینن‘‘ بینن کی سابق سلطنت کے فن پاروں پر مشتمل ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے۔ یہ پلیٹ فارم دنیا کے 20 ممالک کے 131 عجائب گھروں میں موجود بینن کی قدیمی اشیاء کا احاطہ کرتا ہے۔ اس اقدام کو ثقافتی ورثے کی بحالی کی طرف ایک فیصلہ کن قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ دو سال قبل باضابطہ طور پر شروع ہونے والے اس منصوبے میں پہلی بار سرکاری اداروں کی طرف سے شناخت کردہ تمام اشیاء کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
پیرس کی سوربون یونیورسٹی میں لیکچرر اور''ڈیجیٹل بینن‘‘ منصوبے کی منیجر فیلیسیٹی بوڈنسٹین نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ اگرچہ ان ثقافتی اثاثوں کی ان کے آبائی ممالک میں واپسی کے بارے میں بحث کبھی بھی آسان نہیں رہی تاہم بقول ان کے عجائب گھروں کے ساتھ تعاون کھلا اور تعمیری تھا۔
اس منصوبے کا خیال چار سال پہلے اس وقت آیا جب بوڈنسٹین برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں فرانسیسی آرٹ مورخ بینیڈکٹ سیوائے کی ٹیم میں کام کر رہی تھیں۔ سن 2018 میں سیوائے اور سینیگال کے ایک مصنف اور ماہر اقتصادیات فیل وائن سار نے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکراں کے لیے افریقی ثقافتی اثاثوں کی بحالی پر ایک رپورٹ لکھی تھی۔ بوڈنسٹین نے اس منصوبے کے لیے یورپ اور امریکہ میں بکھرے ہوئے ''بینن کانسی‘‘ کی تاریخ پر تحقیق کی۔
ڈیجیٹل بینن پروجیکٹ ارنسٹ وون سیمنز آرٹ فاؤنڈیشن کی جناب سے دی گئی ڈیڑھ ملین ڈالر سے زیادہ کی فنڈنگ سے حقیقت کا روپ دھار سکا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیمبرگ کے عجائب گھر ایم روتھنبام - کلچرن اینڈ کنسٹی دیر ویلٹ کی چھتری کے نیچے سائنسی مشیروں کی ایک بین الاقوامی ٹیم تشکیل دی گئی۔ تفتیش کاروں نے دنیا بھر کے عجائب گھروں سے رابطہ کیا تاکہ ان کے مجموعوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکے اور متعلقہ اشیاء کو ایک پلیٹ فارم پر درج کیا جا سکے۔
فیلیسیٹی بوڈنسٹین کے مطابق مجموعی طور پر، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکہ ، کینیڈا اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ 14 یورپی ممالک میں موجود 5,246 اشیاء کو پلیٹ فارم کے آغاز کے موقع پر فہرست میں درج کیا گیا۔ تاہم ان کے بقول دنیا بھر میں بکھری ہوئی اشیاء کی صحیح تعداد کا تعین کرنا اور ایک حتمی فہرست کی امید کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ بہت سے نوادرات کھو چکے ہیں یا اب لوگوں کی نجی ملکیت میں ہیں اور خاص طور پر جب اس طرح کے کام میں بلیک مارکیٹ یا غیر قانونی کاروبار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ان نوادرات کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔
برطانوی استعمار کے ہاتھوں لوٹ
1897ء میں برطانوی فوجیوں نے بینن شہر کو فتح کیا، جو اس وقت بینن کی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ نوآبادیاتی حکمرانوں نے اس کے بعد سلطنت کو اس وقت کے برطانوی محافظوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے شاہی محل سمیت ثقافتی طور پر اہم دیگر مقامات کو بھی لوٹ لیا اور پھر ان اشیاء کو پوری دنیا میں پہنچایا۔
چند سال قبل عوامی سطح پر بحث شروع ہوئی کہ نوآبادیاتی میراث سے کیسے نمٹا جائے اور اس طرح کے ثقافتی اثاثوں کوان کے حقیقی مالک افریقی ممالک کو کیسے واپس کیا جائے۔ ا ن تاریخی اشیا ء میں کانسی، ہاتھی دانت اور لکڑی سے بنے فن پاروں کا ذخیرہ شامل ہے جو کہ ''بینن کانسی‘‘کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس منصوبے کی منیجر فیلیسیٹی بوڈنسٹین کے لیے یہ منصوبہ بحالی کے اہداف سے بڑھ کر ہے،''اس میں اور بھی بہت کچھ ہے، بشمول ثقافتی اثاثوں سے متعلق علم کو محفوظ رکھنا۔‘‘ انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ معاملات میں، مثال کے طور پر، فوجیوں کی ڈائریوں یا نیلام گھروں سے پرانے کیٹلاگ کے ذریعے اشیاء کے موجودہ مقام تک کے سفر کا تعین کرنا ممکن تھا۔
فن پاروں کی نوآبادیاتی تاریخ سے ہٹ کر ''بینن ڈیجیٹل‘‘ پروجیکٹ مینیجر کا کہنا ہے کہ نائیجیریا میں ان کے ساتھی اشیاء کی اصل تاریخی قدر کا تعین کرنا چاہتے ہیں جو ان فن پاروں کو تشکیل دینے والے معاشروں کی ثقافتی شناخت کو مظبوط کرتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔