’’پھر فوج کے بوٹ تلے ہے بنگال کی گھائل دھرتی‘‘
فہمیدہ ریاض اردو شاعری کے ان نام ور شعراء میں سے ایک تھیں، جو اپنے پیچھے ایک غیرمعمولی خلا چھوڑ گئے۔ اس بلاگ میں فہمیدہ ریاض کی شاعری، افکار اور تعمیری کردار کو حسن مجتبیٰ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یہ تو بحث ہی عبث ہے کہ کس کے جنازے میں ہزاروں لوگ آئے کہ دو چار۔ بڑے بڑے مہان اور مشہور لوگ لاوارث یا گمنامی میں دفنائے گئے ہیں۔ کسے یاد ہے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ مقبول اور متنازع مگر معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے جنازے میں کتنے لوگ تھے؟ وہ تو پھر بھی شاعرہ تھی۔ شاعرہ فہمیدہ ریاض جس نے کہا تھا:
یارو بس اتنا کرم کرنا ، پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا
مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دین داری کی
مت کہنا جوشِ خطابت میں ، دراصل یہ عورت مومن تھی
مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری
مت کوشش کرنا اپنا لیں حکام کم ازکم نعش مری
یاراں ، یاراں ، کم ظرفوں کے دشنام تو ہیں اعزاز مرے
منبر تک خواہ وہ آ نہ سکیں، کچھ کم تو نہیں دلبر میرے
ہے سرِ حقیقت جاں میں نہاں اور خاک و صبا ہمراز مرے
توہین نہ ان کی کر جانا خوشنودیِ محتسباں کے لیے
میت سے نہ معافی منگوانا دمساز مرے
تکفین مری گر ہو نہ سکے
داراصل مندرجہ بالا نظم میں ہی فہمیدہ اپنا زندگی نامہ اور تعزیت نامہ آپ ہی بقلم خود لکھ گئی ہے۔
ویسے بھی اس ملک میں اب تک شاعر، موسیقار، مصور کہاں وہ مقام پا سکے ہیں۔ یاد ہے بڑے غلام علی خان کے جنازے میں بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لالا نہرو ننگے پاؤں آکر شریک ہوئے تھے؟ ادھر پاکستان ہے کہ جہاں ایسی صورت احوال ’’تو کہ نہ واقف آداب غلامی ہے ابھی‘‘ بنی ہوئی ہے۔ فہمیدہ ان کو یا کسی بھی شکل کی غلامی کے آداب کو خاطر میں کب لائیں؟۔
انہوں قید خانے میں ایک طلاطم بپا کر دیا تھا، جب ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’پتھر کی زبان” شائع ہوئی تھی۔ اس سے پہلے برصغیر میں ایسی بغاوت فقط ایک عورت نثر میں کر چکی تھیں اور وہ خاتون تھیں عصمت چغتائی۔
فہمیدہ اپنے دوسرے شعری مجموعے “بدن دریدہ” میں یوں اٹھ کر آئی:
زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے
یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی صہبا کی اڑتی ہے خوشبو
یہ بدمست خوشبو جو گہرا غنودہ نشہ لا رہی ہے
یہ کیسا نشہ ہے!
اور سنگسار ہوتے ہوئے جوڑوں کو ملنے والی “رجم” کی سزا پر اس نے لکھا:
“ پاگل تن میں کیوں بستی ہے
یہ وحشی تاریک آرزو
بہت قدیم اداس آرزو
تاریکی میں چھپ جانے کی۔”
اور پھر اسی نظم کے شروع مٰیں ابن عمر کی اس روایت کو نقل بھی کیا کہ جب “بدکاری” کرنے والے جوڑے کو سنگسار کیا گیا تو مرد عورت پر جھک جاتا اور اسے پتھروں سے بچاتا۔”
اک اور نظم میں اس نے کہا:
ماں جائی
مگر مختلف
مختلف بیچ میں رانوں کے
اور پستانوں کے اُبھار میں
اور اپنے پیٹ کے اندر
اپنی کوکھ میں
ان سب کی قسمت کیوں ہے
ایک فربہ بھیڑ کے بچے کی قربانی
وہ اپنے بدن کی قیدی
فہمیدہ اسی نظم کے آخر میں کہتی ہیں:
“وہ اپنے بدن کی قیدی
تپتی ہوئی دھوپ میں جلتے ٹیلے پر کھڑی ہوئی ہے
پتھر پر نقش بنی ہے
اس نقش کو غور سے دیکھو
لمبی ران سے اوپر
ابھرے پستان سے اوپر
پیچیدہ کوکھ سے اوپر
اقلیما کا سر بھی ہے
اللہ کبھی اقلیما سے بھی کلام کرے
اور اس سے کچھ پوچھے۔”
برصغیر کے بٹوارے کے وقت اتر پردیش (یوپی) سے پاکستان نقل مکانی کر کے سندھ کے شہر حیدرآباد میں بسنے والے استاد ریاض الدین کے کنبے کی اس برقعہ پوش لڑکی کا مترنم مشاعرے پڑھنے سے لے کر فیمینسٹ اور ترقی پسند سیاسی تحریک سے جڑجانے کے سفر کو میں ان کا ’’بہشتی زیور‘‘ سے ’’سیکنڈ سیکس‘‘ تک کا سفر اور پھر اس سے آگے مارکسیت تک کا سفر پھر جلاوطنی پھر اندوہناک غمناکی جیسا کہ بدھ نے کہا سروم دکھم دکھم کہ ہر جگہ دکھ ہی دکھ ہیں۔ نیز پھر رومی شمس تبریز کی شاعری یا صوفی ہونے تک کا سفر در سفر کہوں گا۔ آدمی ایک اورکھیل ہزاروں۔
آنکھ اور دل کیا کیا سموئے۔ کیا کیا لکھے۔ لیکن بہ قول ان کے انہوں نے زندگی کے ایک ایک منٹ خود کو محظوظ کیا اور انہیں کوئی پچھتاوا نہ رہا۔ ہاں البتہ جوان سال بیٹے کبیر کی موت نے اسے مار ڈالا۔ وہ عورت جو بہت بہادر شاعرہ تھی۔ سابقہ مشرقی پاکستان پر اس نے لکھا تھا:
“پھر فوج کے بوٹ تلے ہے بنگال کی گھائل دھرتی
مسجد مسجد یہ نمازی سجدوں میں پڑے یہ غازی
گردن تو گھما کر دیکھیں نظریں تو بچاکر دیکھیں
فہمیدہ ریاض نے شاعری میں کبھی نعرے بازی کا سہارا نہیں لیا۔ جب افغانستان میں کمیونسٹوں کی حکومت قائم ہوئی اور ان کے بہت سے ساتھیوں نے اس تبدیلی کو “ثور انقلاب” کا نام دیا۔ لیکن فہمیدہ نے اس کمیونسٹ مارشل لا کی کوئی مدح سرائی نہیں کی۔ انہوں نے کہا تھا دیکھو ہوتا کیا ہے۔ وہی ہوا کہ غیر ملکی مداخلت پر انقلابات کتنے پائیدار رہ سکتے ہیں۔ لیکن وہ مایوس بھی نہ ہوئیں۔ وہ محنت کش اور پچھاڑے لوگوں کی دوست تادم آخر تک رہیں۔ یہاں تک کہ ہم جیسے سندھی دوستوں کو انہوں نے ناراض کر لیا جب انہوں نے بنگلہ دیش میں پھنسے بہاریوں کی بات کی۔ انہوں نے ہر مسئلے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھا اور ہم نے اپنے تعصبات کی عینک سے۔
بینظیر بھٹو کا پہلا دور فمہمدہ کی خوب پذیرائی کا دور رہا جب وہ نیشنل بک فائونڈیشن کی سربراہ بنائی گئی۔ فہمیدہ نے نیشنل بک کونسل کی طرف سے حبیب جالب کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا جس کی صدارت بیگم نصرت بھٹو نے کی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو کی موجودگی میں ہی حبیب جالب نے اپنی وہ مشہور نظم پڑہی تھی:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے
فمہیدہ ریاض نے لاہور سے پنجابی زبان میں حسین نقی کی زیر ادارت نکلنے والے پہلے اخبار “سجن” کی بھی اپنے ادارے کی طرف سے مالی معاونت کی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔