وراٹ کوہلی 3.0: اس کھلاڑی کے جگر میں بہت آگ ہے... گوتم بھٹاچاریہ
وراٹ کوہلی کے ’3.0 اَوتار‘ کے آخر کیا معنی ہیں! اگر پہلا مرحلہ ایک ابھرتے کھلاڑی کا تھا، تو دوسرا عالمی کرکٹ کے ایک اہم استاد اور بے حد سمجھدار کپتان کا، اور اب کھیل کی ایک باشعور شخصیت کا۔
ہندوستانی کرکٹ پر ’وراٹ کوہلی افیکٹ‘ ایک بار پھر حاوی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حالانکہ ایشیز سیریز میں کہیں زیادہ شاندار مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے، لیکن جمعہ کو پورٹ آف اسپین، ترینداد میں ہندوستانی کرکٹ کے اس شخص نے ایشیز سیریز کے مزہ کو پھیکا کر دیا۔ نے کوہلی اپنے بین الاقومای کرکٹ کیریر کے 500ویں میچ میں شاندار سنچری لگا کر ہندوستانی کرکٹ کے نئے جذبہ کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
کوہلی کی یہ 29ویں ٹیسٹ سنچری ہے، جس کے ساتھ ہی وہ سر ڈان بریڈمین کی سنچری کی برابری کر چکے ہیں۔ ویسے بین الاقوامی کرکٹ کے سبھی فارمیٹ میں یہ ان کی 76ویں سنچری ہے۔ ایک سال سے بھی کم وقفے میں کوہلی نے 1021 دن کی سنچری کی خشک سالی کو ختم کر دیا۔ آخری بار انھوں نے افغانستان کے خلاف ایشیا کپ میں سنچری لگائی تھی۔ کنگ کوہلی نے اس کے بعد بین الاقوامی کرکٹ میں 6 سنچری لگائی، اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ گزشتہ آئی پی ایل میں بھی انھوں نے تین سنچری لگائی ہے۔
کیا کہا جا سکتا ہے کہ وراٹ کوہلی وقت کے پہیہ کو گھما کر واپس 17-2016 کی طرف لے گئے ہیں، جب ان کا ایک قدم بھی غلط نہیں ہوتا تھا؟ ایسا کہنا کیا مبالغہ آرائی ہوگی کہ جیسے جیسے عمر ڈھلتی جاتی ہے تو ہر عظیم بلے باز کو دیکھنے کا نظریہ بدلتا جاتا ہے۔ لیکن یہ کہنا شاید کافی ہوگا کہ سابق ہندوستانی کپتان اپنی خامیوں پر فتح پانے میں کامیاب رہے ہیں اور اپنی لَے میں واپس آ کر وہ کام کرنے لگے ہیں جسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں، اور وہ ہے ٹیم کے لیے رن بنانا۔
گزشتہ آئی پی ایل میں براڈکاسٹرس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کوہلی نے اپنی جدوجہد اور خراب فارم کے بارے میں کھل کر بات کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایک وقت آ گیا تھا جب انھیں لگنے لگا تھا کہ شاید کرکٹ میں ان کا آخری وقت آ گیا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے 2022 کے ایشیا کپ سے پہلے طویل بریک لیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ کوئی تکنیکی دقت نہیں ہے، کیونکہ یہ کام تو میں گزشتہ 15 سال سے کر رہا ہوں۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ سب کچھ ٹھہر گیا ہو اور تکنیکی ایشو سر اٹھا کر سامنے آ گئے ہوں۔ جب میں واپس آیا اور نئے جوش سے گیند کو مارنا شروع کیا تو لوگ پھر کہنے لگے کہ دیکھو تم نے واقعی کچھ سنجیدگی سے اپنے کھیل میں تبدیلی کی ہے۔ لیکن 6 ہفتہ تک میں نے بلّے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
اگر مانا جائے کہ گزشتہ سال کے وسط میں طویل بریک نے کوہلی کو نئے جوش کے ساتھ واپسی میں مدد کی ہے، تو اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے مختلف حالات میں کھیل کے سبھی فارمیٹ کی کپتانی سے بھی خود کو الگ کر لیا تھا۔ اور اسے افسوسناک ہی کہیں گے کہ کھیل کے سب سے طویل فارمیٹ میں کوہلی کے جوش و جنون اور کھیل کو لے کر تیاری کا ڈسپلن سامنے آنے کے بعد ایک بار مطالبہ اٹھ رہا ہے کہ انھیں ٹیسٹ میں کپتانی کا ذمہ دیا جائے۔
کیریبیائی دورے پر اب تک کھیلی گئی ان کی گزشتہ دو پاریوں کو دیکھیں تو ہندوستانی بلے بازوں کی تنقید کرنے والوں کی کمی نہیں ملے گی جو یہ کہتے نہیں تھک رہے کہ مقابلہ کمزور ٹیم سے ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کوئی بھی ویسٹ انڈیز گیندباز اس پر سوال نہیں اٹھا سکا، لیکن 121 رنوں کی بڑی اننگ ایک الگ کہانی بیان کرتی ہے۔ اس میں 77 رن تو صرف سنگلز، ڈبلز اور تین رنوں سے ہیں، وہ بھی ایسے حالات میں جس میں زیادہ توانائی لگانی پڑتی ہے۔
کوہلی اب 35 سال کے ہیں اور 15 سال سے بین الاقوامی کرکٹ کھیل رہے ہیں، اور ایسا کچھ نہیں بچا ہے جو انھیں ثابت کرنا ہے، لیکن کامیابی کو لے کر ان کی بھوک ہی ہے جو اعلیٰ سطح پر کوہلی کو باقی سے الگ کرتی ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب کوہلی کھیل کے سبھی تینوں فارمیٹ میں آئی سی سی کی رینکنگ میں اعلیٰ مقام پر ہوتے تھے، لیکن اب نہیں ہیں۔ لیکن وہ جس پختگی اور صبر کے ساتھ کھیل رہے ہیں، ایسے میں ان رینکنگ کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ ٹیسٹ میں وہ ٹاپ 10 میں ہیں، ٹی-20 میں بھی وہ 14ویں نمبر پر ہیں، اور یک روزہ کرکٹ میں وہ 8ویں مقام پر ہیں۔ یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ کوہلی اور روہت شرما دونوں ہی ٹی-20 میں کتنے دن تک بنے رہتے ہیں۔
بالکل اسی طرح جیسے اپنے کیریر کے آخری دور میں سچن تندولکر تھے، اسی طرح کوہلی بھی لوگوں کو حیران کرتے ہیں اور ان کے مخالفین بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔ یہ کہانی خوب بحث میں ہے کہ کس طرح ویسٹ انڈیز کے نوجوان کھلاڑی جوشوا ڈی سلوا ان کے کتنے بڑے شیدائی ہیں۔ جب انھوں نے کہا کہ وکٹ کے پیچھے رہتے ہوئے وہ کس طرح کوہلی کو 29ویں سنچری لگانے کے لیے ترغیب دے رہے تھے۔ وہ یہیں نہیں رکے اور انھوں نے دن کا کھیل ختم ہونے کے بعد اپنی ماں کو بھی کوہلی سے ملوایا تھا اور وہ لمحہ بے حد آنکھیں نم کرنے والا تھا۔
اسی میں پوشیدہ ہے وِراٹ کوہلی 3.0 کی حقیقی تشریح...! اگر پہلا مرحلہ ایک ابھرتے ہوئے کھلاڑی کا تھا، تو دوسرا عالمی کرکٹ کے ایک اہم استاد اور بے حد سمجھدار کپتان کا، اور اب کھیل کی ایک باشعور شخصیت کا۔ ظاہر ہے اس کے جگر میں اب بھی بہت آگ ہے...۔
لگے رہو کنگ کوہلی...
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔