روس، چین، ایران اور شمالی کوریا فلسطین کے مسئلہ پر امریکہ اور اسرائیل کے لئے چیلنج، عرب حکمران مخمصہ میں گرفتار...عبید اللہ ناصر

فلسطین کے مسئلہ کو لے کر ساری دنیا میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ غزہ پر قریب نو ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت میں پچاس ہزار سے زائد فلسطینیوں کے شہید ہونے کی اطلاعات پوری انسانیت کو بے چین کر رہی ہے

فائر بندی کوششیں، بلنکن کا غزہ کی جنگ کے دوران خطے کا چھٹا دورہ
فائر بندی کوششیں، بلنکن کا غزہ کی جنگ کے دوران خطے کا چھٹا دورہ
user

عبیداللہ ناصر

گزشتہ ہفتہ اسرائیل فلسطین تنازعہ میں کھل کر فلسطین کی حمایت کرتے ہوئے چین نے ایک بڑا اور دورس نتائج کا حامل قدم اٹھایا اس نے فلسطین کی آزادی کی جدو جہد کرنے والی سبھی چھوٹی بڑی تنظیموں کے سربراہوں کی بیجنگ میں ایک اجلاس طلب کیا جہاں ان سبھی نے فلسطین کی آزادی کی جنگ ایک مشترکہ پلیٹ فارم تیار کر کے لڑنے کا عہد کیا۔ اس طرح چین ایران روس شمالی کوریا اور فلسطین پر مشتمل ایک مضبوط محاذ اسرائیل کے خلاف بنتا دکھائی دے رہا ہے دوسری جانب امریکہ برطانیہ اسرائیل اور دیگر عرب ملک ہو سکتے ہیں کیونکہ بدنصیبی سے عرب حکمرانوں کی اولین تشویش خطہ میں ایران کا بڑھتا اثر ہے قبلہ اول کی آزادی فلسطینیوں سے انصاف اور ان کے حقوق کی بازیابی نہیں -مگر کیا چین اس حد تک فلسطینیوں کی مدد کو جا سکتا ہے جس حد تک امریکہ اسرائیل کی حمایت میں جاتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو مغربی ایشیا تیسری جنگ عظیم نہیں لیکن عالمی چپقلش کا مرکز ضرور بن جائے گا۔

ادھر، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکہ کے دورے پر گئے ہیں جہاں انہوں نے امریکی کانگریس کو چوتھی بار خطاب کیا لیکن ان کو وہاں نہ صرف عوام بلکہ کانگریس اور سینیٹ کے ممبروں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ایوان میں ان کا خطاب شروع ہوتے ہے حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبران نے واک آؤٹ کر دیا اور اور ایوان کے باہر ہزاروں لوگ فلسطین کا پرچم لے کر انکے خلاف نعرے لگا رہے تھے جن کو بڑی دیدہ دلیری اور تکبر سے نیتن یاہو نے پاگل (ایڈیکٹ) قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری میں خاص کر یورپ اور امریکہ میں فلسطین کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں وعدہ خلافیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے اب انسانیت نواز انصاف پسند عناصر اسرائیل سے چڑھنے لگے ہیں مضبوط یہودی لابی کی وجہ سے امریکی حکمران اسرائیل کی حمایت کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں مگر عوام کی ناراضگی کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ رشی سنک اور بائیڈن کے ساتھ ہوا ہے۔


فلسطین کے مسئلہ کو لے کر ساری دنیا میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ غزہ پر قریب نو ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت میں پچاس ہزار سے زائد فلسطینیوں کے شہید ہونے کی اطلاعات پوری انسانیت کو بے چین کر رہی ہے لیکن اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور امریکہ کے صدر بائیڈن کی انسانی خون کی پیاس بجھنے کا نام لے رہی ہے ادھر فلسطینی بھی نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں قربانی پر قربانی دیتے چلے جا رہے ہیں لیکن جھکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں غزہ کو اسرائیل نے کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اسپتال سڑکیں اسکول بجلی پانی کا نظام سب درہم برہم ہو چکا ہے ریڈ کراس کو راحت رسانی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اسرائیل ابھی تک اپنا مقصد نہیں حاصل کر سکا ہے یہاں تک کہ نو ماہ قبل حماس کے جنگجوؤں نے جن اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا تھا انہیں بھی نہیں رہا کرا سکا ہے پھر اس بہیمانہ انسانیت سوز فوجی کارروائی سے اس نے کیا حاصل کیا اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح نسل کشی کر کے وہ فلسطینیوں کا وجود ختم کر دے گا تو اسے ہٹلر سے سبق لینا چاہئے جس نے انھیں کے ساٹھ لاکھ لوگوں کو تو مروا دیا لیکن کیا وہ یہودی نسل ختم کر پایا اسی طرح حماس اگر محض ایک تنظیم ہوتا تو شا ید اس کا قلع قمع کر دیا جاتا لیکن حماس ایک تحریک ہے اور تحریکیں ختم نہیں کی جا سکتیں۔

اسرائیل کے مظالم کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں فلسطینیوں کے لئے ہمدردی بڑھتی جا رہی ہے خود ان ملکوں میں فلسطینیوں کو زبردست حمایت مل رہے ہے جہاں کی حکومتیں اسرائیل کی حمایت کر رہی ہیں امریکہ برطانیہ کینیڈا جرمنی سمیت دنیا خاص کر یورپ کے ہر ملک میں روز اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں یہ اسرائیل کی اندھی حمایت کا ہی شاخسانہ ہے کہ برطانیہ میں رشی سنک کی کرسی چلی گئی اور امریکہ میں بائیڈن اپنی ہی پارٹی کی صدارتی ریس ہار گئے اور انکی جگہ پارٹی نے نائب صدر کملا ہیرس کو اپنا صدارتی امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ پارٹی دیکھ رہی تھی کہ انکی اندھی اسرائیل نوازی کی وجہ سے عام امریکی ان سے سخت متنفر ہے اور نیتن یاہو کے ساتھ ساتھ بائیڈن کو بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور اگر انہیں صدارتی امیدوار بنا دیا گیا تو شرمناک شکست انکا مقدر ہوگی جرمنی میں بائیں بازو کے اتحاد کی کامیابی سابقہ دائیں بازو کی حکومت کی اسرائیل نوازی کی وجہ سے ممکن ہو سکی -مگر عرب اور مسلم ملکوں میں حسب دستور قبرستان جیسا سناٹا ہے لگتا ہی نہیں کہ انکے پڑوس میں لاشوں کا جو ڈھیر پڑا ہوا ہے اس کی بدبو انکے ناکوں تک نہیں جا رہی ہے -عرب حکمرانوں کی اپنی اپنی مصلحت ہے اور عرب عوام کی مجبوریاں ہیں کہ وہ بیچارے یورپیوں کی طرح فلسطینیوں کے اس قتل عام اور نسل کشی پر احتجاج تک نہیں کر سکتے -تاریخ کے کسی دور میں عربوں نے ایسی بزدلی بے حمیتی اور بے غیرتی کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے کر رہے ہیں 1975 تک وہ کم سے کم اسرائیل سے لڑتے تو تھے مارتے بھی تھے مار کھاتے بھی تھے لیکن بزدلی اور بے حمیتی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے اب تو لگتا ہے جیسے عرب ماؤں نے صلاح الدین ایوبی کو چھوڑئیے ناصر عرفات اور فیصل کو بھی جنم دینا بند کر دیا ہے۔


دراصل سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد عالمی منظر نامہ یکسر بدل گیا تھا طویل عرصہ تک دنیا یک قطبی رہی صرف امریکہ کی طوطی بول رہی تھی ان حالات میں سبھی ملکوں نے خاص کر جو ناوابستہ تھے یا جن کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب تھا ان سب نے اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کر لیں مثال کے طور فلسطین کی ابتدائی دنوں سے ہی حمایت کرنے والے ہندوستان نے اسرائیل سے مکمل دوری بنا رکھی تھی لیکن نئے عالمی تقاضوں کے تحت اس نے بھی اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات بحال کر لئے- مصر اور اردن جو کبھی اسرائیل کے خلاف صف اول کے لڑنے والے تھے وہ اور بھی کئی عرب ملک تو امریکہ اور اسرائیل کی گود میں ہی بیٹھ گئے جن عرب اور مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی رشتہ نہیں بھی قائم کیا وہ بھی اسرائیل کے تئیں نرم ہو گئے -اسلامی انقلاب کے بعد ایران جو شہنشاہ کے دور میں اسرائیل کا قریبی دوست تھا اس کا دشمن نمبر ایک بن گیا اور آج فلسطینی مزاحمت کو سب سے زیادہ حمایت ایران سے ہی مل رہی ہے جس کی وجہ سے ایران پوری دنیا کے مسلمانوں میں مقبول ہے اور عرب حکمرانوں سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو سخت شکایتیں ہیں جو نفرت کی جد تک پہنچ رہی ہیں کیونکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور قبلہ اول پر اسرائیل کا قبضہ ان کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔

لیکن عالمی منظر نامہ کبھی جامد تو رہتا نہیں ہے حالات بدلتے رہتے ہیں پہلے یورپی یونین کی تشکیل ہوئی جس نے امریکہ کی معاشی برتری کو چیلنج کیا یہاں تک کہ ڈالر کے مقابلہ یورو زیادہ مضبوط کرنسی بن گیا پھر پوتن کی قیادت میں روس نے بھی کروٹ بدلی اور عالمی معاملات میں اس نے بھی دخل اندازی شروع کر دی یہاں تک کہ جب امریکہ نے ناٹو کی توسیع کرنے اور روس کی گردن پر ہاتھ رکھنے کے لئے یوکرین کو اس میں شامل کرنا چاہا تو پوتن نے یوکرین پر حملہ ہی کر دیا یوکرین کا الزام ہے کہ پوتن آرمینیا کی طرح یوکرین کو بھی روس کا ایک صوبہ بنانا چاہتے تھے تو اس لئے اس نے اپنی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کے لئے ناٹو میں شامل ہونا ضروری سمجھا جبکہ پوتن کا الزام ہے کہ امریکہ روس کی گردن پر ہاتھ رکھنے کے لئے یوکرین کو استعمال کر رہا ہے اور اپنی دفاع میں روس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ناٹو کو اپنی سرحدوں سے دور رکھے -یوکرین اور روس دونوں کے اپنے اپنے دعوے ہیں اور دونوں میں دم ہے لیکن اس جنگ میں دونوں ملکوں کے عوام پس رہے ہیں اور عالمی معیشت پر اس کے بہت منفی اثرات پڑ رہے ہیں -ادھر دہائیوں تک آہنی پردہ میں رہنے والا چین بھی عالمی معاملات میں دلچسپی لینے لگا ہے دنیا کے سبھی ملکوں میں اس نے سرمایہ کاری بڑھا دی ہے اور اس کا مال ہر ملک کی ضرورت بن گیا ہے - روس اس کا فطری حلیف ا امریکہ دائمی دشمن ہے اس لئے روس اور چین مل کر عالمی معاملات میں امریکہ کو قدم قدم پر چیلنج کر رہے ہیں ان کے ساتھ شمالی کوریا بھی شامل ہو گیا ہے اس مثلث نے فلسطین کے معاملہ میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دیا ہے اس طرح اب فلسطین کو ایران روس چین اور شمالی کوریا کی مضبوط حمایت حاصل ہو رہی ہے جو امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لئے ایک بد شگون ثابت ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔