ہندوستان کے وہ کھلاڑی جنہوں نے سیاست کی پچ پر بھی اپنے جوہر دکھائے

لوک سبھا کی انتخابی تاریخ میں جیت کی ’تکڑی‘ بنانے والے کھلاڑیوں میں سابق کرکٹر کیرتی آزاد اور نوجوت سنگھ سدھو کے نام اہم ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

کھیل کے میدان پر اپنی کارکردگی سے ملک کا نام روشن کرنے والے کھلاڑیوں نے سیاست کی پچ پر بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں اور اس بار بھی وہ اپنی قسمت آزمانے کے لیے انتخابی جنگ میں موجود ہیں۔

کھیل کے میدان سے سیاست کی پچ پر اترنے والے کھلاڑی اس بار کے لوک سبھا انتخابات میں امیدوار کے طور پر زور آزمائی میں مصروف ہیں۔ ملک کی راجدھانی دہلی سے دو مشہور کھلاڑی اس بار انتخابی میدان میں ہیں- بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جہاں مشرقی دہلی لوک سبھا سیٹ سے ارجن ایوارڈیافتہ اور پدم شری سے سرفراز سابق کرکٹر گوتم گمبھیر کو الیکشن کا بلا تھمایا ہے وہیں ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس نے اولمپکس میڈلسٹ باکسر وجندر سنگھ کو جنوبی دہلی سے رنگ میں اتارا ہے۔ دہلی میں 12 مئی کو انتخابات ہوں گے۔ نشانہ بازی میں اولمپک تمغہ جیتنے والے راجیہ وردھن سنگھ راٹھور اور ڈسکس تھرو کی میڈلسٹ کرشنا پونيہ جے پور دیہی میں آمنے سامنے ہیں۔

لوک سبھا کی انتخابی تاریخ میں جیت کی ’تکڑی‘ بنانے والے کھلاڑیوں میں سابق کرکٹر کیرتی آزاد اور نوجوت سنگھ سدھو کے نام اہم ہیں، سات ٹسٹ میچ اور 25 ونڈے میچ کھیل چکے اور 1983 ورلڈ کپ کرکٹ میں فاتح ہندوستانی ٹیم کے رکن رہے کیرتی آزاد کو سیاست ایک طرح سے وراثت میں ملی ہے۔ ان کے والد بھاگوت جھا آزاد بہار کے سابق وزیر اعلی تھے۔ کیرتی آزاد بی جے پی امیدوار کے طور پر 1999، 2009 اور 2014 میں بہار کی دربھنگہ نشست سے ایم پی منتخب ہوئے تھے۔

دہلی اور ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن (ڈی ڈی سی اے) میں مبینہ بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کے معاملہ کو لے کر مرکزی وزیر ارون جیٹلی کے خلاف آواز بلند کرنے کا خمیازہ آزاد کو بھگتنا پڑا تھا۔ سال 2015 میں بی جے پی نے کیرتی آزاد کو پارٹی مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے پارٹی سے نکال دیا تھا۔ فروری 2019 میں آزاد کانگریس میں شامل ہو گئے تھے۔ اس سال کے لوک سبھا انتخابات میں مهاگٹھ بندھن میں شامل جماعتوں کے ساتھ سیٹوں کی شراکت کے تحت ان کو دربھنگہ سے ٹکٹ نہیں مل سکا، یہ سیٹ راشٹریہ جنتا دل کے حصے میں چلی گئی۔ کانگریس نے ان کو جھارکھنڈ کی دھنباد لوک سبھا سیٹ سے امیدوار بنایا ہے۔

کرکٹ کے علاوہ ٹیلی ویژن پروگراموں کے ذریعے خاصی مقبولیت حاصل کرنے والے سدھو نے لوک سبھا انتخابات میں جیت کی ’تکڑی‘ لگانے کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات میں بھی جیت کا سکہ جمایا ہے۔


سال 2007 میں وہ پنجاب کی امرتسر نشست سے بی جے پی کی جانب سے انتخابات لڑے اور جیت حاصل کی۔ بعد میں 2007 میں ایک کیس میں تین سال کی سزا ہونے کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور نچلی عدالت کے فیصلے کا عدالت میں چیلنج کیا، جہاں سے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔

فروری 2007 میں ہی امرتسر سیٹ کے لئے ضمنی انتخابات ہوا اور سدھو نے یہاں اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ سال 2009 کے عام انتخابات میں بھی انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ انہیں اپریل 2016 میں راجیہ سبھا رکن نامزد کیا گیا، لیکن چند ماہ بعد 18 جولائی کو انهوں نے راجیہ سبھا کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ وہ جنوری 2017 میں کانگریس میں شامل ہو گئے اور امرتسر سابق حلقہ سے رکن اسمبلی بنے۔ فی الحال وہ پنجاب حکومت میں مقامی انتظامیہ، سیاحت اور ثقافتی امور کے وزیر ہیں۔

رنجی ٹرافی میں اترپردیش کی نمائندگی کرنے والے محسن رضا کو بھی اقتدار کا ذائقہ چکھنے کا موقع ملا ہے، رضا 2014 میں بی جے پی میں شامل ہوئے اور دوسرے ہی سال پارٹی کے ترجمان بنائے گئے۔ سال 2017 میں ریاست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی اور وہ وزیر بنے۔ انہیں سائنس، ٹیکنالوجی، انفارمیشن اور مسلم وقف وزارت دی گئی۔

مغربی بنگال کے مشہور کرکٹر لکشمی رتن شکلا نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز ترنمول کانگریس سے کیا۔ شکلا نے 2016 میں ریاست کے ہوڑہ (شمالی) حلقہ سے الیکشن لڑا اور بی جے پی کی امیدوار روپا گنگولی کو شکست دی۔ وہ ممتا بنرجی حکومت کے دوسرے دور میں کھیل اور نوجوانوں کے امور کے وزیر ہیں۔

کرکٹ دنیا کی مشہور شخصیات میں الیکشن جیتنے والوں میں چیتن چوہان اور محمد اظہر الدین بھی شامل ہیں۔ چوہان نے دو بار 1991 اور 1998 میں امروہہ لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی امیدوار کے طور پر انتخاب جیتا۔ 47 ٹسٹ میچوں میں کپتانی کر چکے اظہر الدین نے 2009 میں اترپردیش کے مراد آباد سے کانگریس کی جانب سے انتخاب جیتا، فی الحال تلنگانہ پردیش کانگریس کے کار گذار صدر ہیں۔ کرکٹر محمد کیف 2009 میں کانگریس کی طرف سے پھول پور کی پچ پر اترے تھے، لیکن وہ کلین بولڈ ہو گئے۔


کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے مهارتھيوں نے بھی سیاست میں بھی اپنی چمک ڈالی ہے۔ سابق اولمپک ہاکی کھلاڑی اسلم شیر خان نے مدھیہ پردیش کے بیتول لوک سبھا سیٹ سے چار بار الیکشن لڑا تھا، جس میں دو میں جیتے اور دو انتخابات ہارے۔ خان نے 2004 میں بھوپال سے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور 2009 میں ساگر سے کانگریس امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا تھا، لیکن دونوں بار انہیں شکست ملی۔

ایتھلیٹکس میں 1998 کے ایشیائی کھیلوں میں دو طلائی تمغہ جیتنے والی جيوترمئی سكدر نے 2004 میں مغربی بنگال کی کرشنا نگر لوک سبھا سیٹ پر ترنمول کانگریس کا پرچم لے کر دوڑ لگائی اور پارلیمنٹ پہنچی، لیکن 2009 میں وہ پچھڑ گئیں اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔


سابق قومی سوئمنگ چمپئن نفیسہ علی نے بھی 2004 میں جنوبی کولکاتا سے کانگریس اور 2009 میں لکھنؤ سے سماجوادی پارٹی کی جانب سے الیکشن میں قسمت آزمائی کی تھی، لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور وہ دونوں ہی بار الیکشن ہار گئیں۔ کھیل کے میدان سے سیاست کی سیڑھیاں پر قدم رکھنے والوں میں سابق فٹ بال کپتان بائی چنگ بھوٹیا کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ فٹ بال میں اپنے زبردست شاٹ ’سکمی اسنائپر‘ کے نام سے مقبول اور ارجن ایوارڈ اور پدم شری ایوارڈ سے سرفرازبھوٹیا نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ترنمول کانگریس کے ساتھ کیا تھا، سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں وہ دارجلنگ سیٹ سے ترنمول کانگریس کی جانب سے میدان پر اترے، لیکن جیت کا گول داغنے میں ناکام رہے۔

بھوٹیا نے بعد میں اپنی سیاست کا ہدف سکم پر مرکوز کیا اور نئی پارٹی ’همرو سکم پارٹی‘ قائم کی۔ ان کی پارٹی نے اس بار کے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ریاست کی ایک لوک سبھا اور اسمبلی کی تمام 32 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، انتخابات میں ان کی پارٹی کا مقابلہ حکمران سکم ڈیموکریٹک فرنٹ (ا یس ڈی ایف) سے ہے۔ ا ایس ڈی ایف حکومت کے سربراہ پون چاملنگ پانچ بار سکم کے وزیر اعلی رہے ہیں اور اب چھٹی بار پھر اپنی حکومت بنانے کے لئے مصروف عمل نظر آ رہے ہیں۔ سکم میں پہلے مرحلے میں 11 اپریل کو پولنگ ہو چکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 May 2019, 7:10 PM