سفرنامہ... پیرس سے ہندوستان کو سبق لینے کی ضرورت
یوروپ میں ہر بڑے فٹبال کلب کا اپنا اسٹیڈیم ہوتاہے۔ ’پیرس ڈی جرمین‘ جسے پی ایس جی بھی کہا جاتا ہے اس کا اسٹیڈیم بھی بہت خوبصورت ہے۔
فٹبال یوروپ کا مقبول ترین کھیل ہے اور فرانس کی سب سے بڑی فٹبال ٹیم ’پیرس ڈی جرمین ‘ہے اس لئے پیرس آئے اور اس ٹیم کے اسٹیڈیم کو نہ دیکھا جائے تو کچھ عجیب سا ہوتا ۔ اس لئے اس ٹیم کے اسٹیڈیم کودیکھنے کا پروگرام بنایا ۔ اس کے لئے پیرس کے بالکل آخری کونے میں جانا تھا جہاں پیرس اور فرانس کی سب سے بہترین فٹبال ٹیم ’پیرس ڈی جرمین‘ کا اسٹیڈیم واقع ہے ، اس سفر کا کوئی تناؤ اس لئے نہیں تھا کیونکہ میٹرو کا سفر نہ صرف آرام دہ ہے بلکہ اس میں کہیں بھی جائیں کرایہ اضافی نہیں لگتا۔ پیرس کی میٹرو کے تعلق سے کچھ باتیں گوش گزار کرنی ضروری ہیں۔ یہاں پر ایک ٹکٹ لینے کا مطلب ہے کہ اس ٹکٹ سے آپ چاہیں اگلے اسٹیشن پر اتر جائیں یا سب سے آخری اسٹیشن پر اتریں کرایہ وہی لگے گا۔ آپ بس ایک مرتبہ اندر داخل ہو جائیں پھر آپ چاہیں کہیں بھی جائیں ، باہر نکلنے کے لئے آپ کو کسی ٹکٹ کی ضرورت نہیں۔ ٹکٹ صرف داخلے کے لئے ہوتا ہے ، اس کے بعد باہر آپ کہیں سے بھی نکل جائیں کسی ٹکٹ کی ضرورت نہیں۔ دوسرا یہ کہ کہیں بھی سیکورٹی کے نام پر کوئی جانچ نہیں ہوتی۔ میٹرو کا جال پورے شہر میں پھیلا ہوا ہے ۔آپ کو شہر کی ہرجگہ سے میٹرو مل جائے گی اور آپ پیرس شہرکے کسی کونے کا سفر باآسانی کر سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ میٹرو سے سفر کے لئے آپ کو زیادہ چلنا نہیں پڑتا۔
اسٹیڈیم پہنچنے کے بعد پتہ لگا کہ دس یورو کے ٹکٹ پر جو اسٹیڈیم کا دورہ کرایا جاتا ہے وہ فی الحال بند ہے اس لئے باہر سے ہی دیکھ کر کام چلانا پڑا۔ ہمارے ملک میں کوئی بھی ٹی ہو چاہے وہ کرکٹ کی ہی کیوں نہ ہو ، اس کا اپنا اسٹیڈیم نہیں ہے لیکن یوروپ میں ہر بڑے فٹبال کلب کا اپنا اسٹیڈیم ہوتاہے اور وہ بہت خوبصورت بھی ہوتے ہیں ۔’ پیرس ڈی جرمین‘ جسے پی ایس جی بھی کہا جاتا ہے اس کا اسٹیڈیم بھی بہت خوبصورت ہے۔ اس میں ہونے والے میچ کے ٹکٹ سے ہونے والی آمدنی ٹیم کی ہوتی ہے۔ اسٹیڈیم کے باہر دوکانیں اور ٹیم کی خود اپنی دوکان جہاں سے ٹیم کے تما م سامان فروخت ہوتے ہیں وہ سب کلب کے ہی ہوتے ہیں ۔ برازیل کے رہنے والے اور دنیا کا سب سے اچھا کھلاڑی نیمار جونیئر اسی ٹیم کا کھلاڑی ہے۔
اسٹیڈیم کو دیکھنے میں بارہ بج گئے اس کے بعد ہم ’میوزیم آف نیچرل ہسٹری‘ دیکھنے گئے۔ گرینڈ مسجد کے قریب واقع اس میوزیم میں ہر طرح کے پودے، جانور اور سائنسی تاریخ کے کئی عجائبات موجود تھے ۔ جمعہ کی نماز کا خطبہ دوپہر1 بجکر50 منٹ پر ہونا تھا اس لئے ہم دس منٹ پہلے ہی مسجد پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر ایسا محسوس ہوا جیسے پوری دنیا وہاں موجود ہو کیونکہ نمازیوں میں تقریبا ًہر ملک کا شخص نظر آیا۔ جائے نماز تک لوگ جوتے پہن کر آ رہے تھے اور بیٹھنے میں بھی کوئی ترتیب نہیں تھی سب اپنی مرضی اور سہولت کے حساب سے بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے اپنے ملک کے وہ مقتدی یاد آئے جو ہر بات میں اپنی رائے ضرور دیتے ہیں ۔ ٹوپی بھی کسی کے سر پر نظر نہیں آئی لیکن سبھی نے نماز بہت خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کی۔ امام صاحب کا پہلے بیان ہوا، پھر آذان کے بعد عربی زبان میں جمعہ کا خطبہ ہوا جس کے بعد اس کا ترجمہ فرینچ زبان میں بیان کیا گیا اورآخر میں دعا ہوئی۔ دعا کے بعد دو رکعت نماز فرض ادا کی گئی۔ مسجد کے باہر شام کے کچھ مہاجر مدد کی درخواست کرتے نظر آئے تو سڑک پر اپنے اپنے علاقہ کے لوگ گروپ کی شکل میں گفتگو کرتے بھی نظر آئے۔ ایسا محسوس ہو ا کہ نماز جمعہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگ ایک دوسرے سے ملنے بھی یہاں آتے ہیں۔
نماز کے بعد ہم لوگ پیرس کا انڈیا گیٹ یعنی ’آرک آف ٹرمپ‘ دیکھنے کے لئے پہنچے۔میٹرواسٹیشن سے باہر نکلنے کے بعد زمین دوز راستے سے ہم آرک آف ٹرمپ پہنچے۔ بہت بڑی، خوبصورت اور تاریخی عمارت کو دیکھنے کا الگ ہی لطف ہے۔ اس کے اطراف کئی افراد فوجی شہداء کوخراج عقیدت پیش کرتے نظر آئے۔ اس کی بالائی منزل پر جانے کے لئے بارہ یورو فی آدمی ٹکٹ ہے۔ یہاں سے پہلے ’گیلری آف لفایتے‘ یعنی ایک بہت خوبصورت مال میں گئے جو حقیقت میں انتہائی دیدہ زیب ہے۔ اس کے بعد اس مارکیٹ میں گئے جس کو ’لٹل انڈیا‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر محسوس ہوا جیسے ہندوستان کے کسی بازار میں ہیں۔یہاں دوکان میں جہاں گنیش کی مورتی نظر آئی وہیں بہترین مٹھائی اور ساڑیوں کی کافی دکانیں بھی نظرا ٓئیں ۔
پیرس جس کو دنیا کے فیشن کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے تو جناب اسے ویسے ہی نہیں جانا جاتا ، یہاں کوئی لباس ایسا نظر نہیں آتا جو اپنے آپ میں انفرادیت نہ رکھتا ہو ، اس میں چاہے ہمارے سماج کے حساب سے عریاں لباس ہو یا وہ لباس ہو جس کو ہم پسند کرتے ہیں۔ تین دن کے اپنے قیام میں کہیں کوئی سیکورٹی نظر نہیں آئی۔ کسی سڑک پر کوئی ٹریفک پولس والا نظر نہیں آیا اور نہ ہی میٹرو میں کسی قسم کی سیکورٹی دکھائی دی۔
کمال ہے جس شہر کے تعلق سے یہ خبریں سننے میں آتی رہی ہوں کہ یہاں دہشت گردی ہوتی ہے لیکن اس شہر میں نہ تو کوئی کسی کو مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے اور نہ ہی سیکورٹی کے نام پر کسی کی جانچ ہوتی ہے۔ دبئی کے بعد ابھی تک کسی نے ہمارا کوئی سامان نہیں چھوا ۔ پیرس کے ہر حصہ میں اور ہر طرح کے ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا لیکن کبھی اجنبی ہونے کا احساس نہیں ہوا۔ سیکورٹی کا نہ ہونا، لوگوں کا پر سکون ہونا اور کسی کو مشکوک نظروں سے نہ دیکھنا کئی جانب اشارہ کرتا ہے۔ خوشحالی، آبادی کا دباؤ کم ہونا ،سب کے ساتھ رہنے والی قومی ثقافت اور موسم کا معتدل ہونا وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پیرس اور فرانس کے لوگ تناؤ سے پاک زندگی گزار رہے ہیں۔
ہمیں اس ملک سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ نفرتیں پالنے سے نفرتیں بڑھتی ہیں اور سماج میں غیر ضروری تناؤ رہتا ہے۔ بڑے دل کے ساتھ رہنے سے ملک میں سکون رہتا ہے۔ پیرس کا جتنا نام سنا تھا اس نے مایوس نہیں کیا اب کل وینس کے لئے روانگی ہے ، دیکھتے ہیں کہ پانی کا شہر وینس کیسے استقبال کرتا ہے ۔ پیرس کے موسم نے تو دھوکہ دیا اور کسی بھی وقت موسم نے ایسا محسوس نہیں ہونے دیا کہ جیسے ہم اپنے ملک سے باہر ہو ں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Apr 2018, 9:17 PM