دیوی کی زمین پر خواتین غیر محفوظ
ملک میں ہر 20 منٹ میں زنا بالجبر کا ایک واقعہ پیش آتا ہے، جبکہ جنسی زیادتی کے 70 کیسوں میں صرف ایک ہی کیس کا اندراج ہو پاتا ہے۔ شہروں میں دیکھا جائے تو دہلی اس معاملے میں سب سے آگے ہے
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں رہنے والی کوئی خاتون یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کو کبھی عوامی مقامات پر ہراسانی یا خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ خوف ہر قدم پر ہمارے سر پر منڈلاتا ہے، وہ بازار ہو، دوکان ہو، راستہ ہو، دفتر ہو یا پھر کوئی پارک۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو روزآنہ کی بنیاد پر ہراساں کیا جانا ایک معمول ہے۔ کبھی کوئی لفظ، کبھی صرف نظر اور کبھی کسی دوسرے کی کوئی بیہودہ حرکت ہمارے معاشرے کی عورت کا مقدر ہے۔ یہ سب ایسی صورت میں ہے جب حکومت ماوں بہنوں کی حفاظت کی گارنٹی لینے کا دم بھرتی ہے۔ یہ صورت حال اس ملک کی ہے جہاں عورتوں کو دیوی کا درجہ دیا جاتا ہے، گلے گلے پھاڑ پھاڑ کر بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کی مہم چلائی جاتی ہے۔
بیٹی پڑھانے کا نعرہ لگانے والی حکومت خواتین کے لیے کتنی سنجیدہ ہے اس بات کا اندازہ ان خاتون کھلاڑیوں کے آنسووں سے لگایا جا سکتا ہے جنہوں نے کئی بین الاقوامی مقابلے جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ یہی بیٹیاں جب اپنے ساتھ ہوئے جنسی استحصال کے ملزم بی جے پی کے شہ زور لیڈر برج بھوشن سنگھ کے خلاف آواز اٹھا کر انصاف مانگنے کے لیے سڑک پر اترتی ہیں تو بھوشن سمیت پورا حکمراں طبقہ ان بیٹیوں کو ہی ’بد کردار‘ ثابت کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ حد تو تب ہو جاتی ہے جب اپنے ہنر کے جوہر دکھا کر میڈل حاصل کرنے والی ہندوستان کی یہ بیٹیاں سڑک پر رو رو کر انصاف مانگتی ہیں اور مودی حکومت کے ساتھ ہمارا سماج بھی شرمناک بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے سنگین واقعات سامنے آتے رہے ہیں وہیں خواتین کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات میں بھی سر فہرست ہیں ۔ ہندوستان میں خواتین کے خلاف چوتھا سب سے عام جرم عصمت دری ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کے محکمہ این سی آر بی کی رپورٹ 2023 کے مطابق ملک میں خواتین ہمیشہ سے ہی جنسی زیادتی اور تشدد کا شکار رہی ہیں، صرف 2020 میں 3 لاکھ 71 ہزار 503 مقدمات رپورٹ کیے گئے، 2021 میں عصمت دری کے 4 لاکھ 28 ہزار 278 سے زائد مقدمات رپورٹ ہوئے جب کہ 2023 میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں سنگین حد تک اضافہ ہوا ہے۔
حکومت کے تمام دعووں کے باوجود ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں آج بھی ریپ، جہیز، کام کی جگہ پر استحصال اور اسی طرح کے دوسرے مسائل سے عورت دوچار ہے، جنسی تناسب کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم کی ہر جگہ جنسی امتیاز کی صورت دیکھنے کو ملتی ہے۔ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود عصمت دری اور اجتماعی آبروریزی کے واقعات اس لیے نہیں رک پا رہے ہیں کیونکہ با اثر مجرموں کو نہ صرف رہا کر دیا جاتا ہے بلکہ سیاسی پارٹیاں ان کی حمایت میں کھڑی ہو جاتی ہیں اور رہائی کے بعد ان کا سماجی خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے مجرموں کی گجرات کی ریاستی حکومت کی ایما پر رہائی اور ان کا ’شاندار استقبال‘ اس سلسلے کا حالیہ واقعہ ہے۔
موجودہ صورتحال میں آزادی، مساوات اور عدل و انصاف کو جو معنی دیے جا رہے ہیں، وہ مغرب کی اصطلاح ہے۔ صنفی برابری کے اس فنڈے کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس برابری کی لڑائی کا حصہ بننے سے پہلے ہمیں اس کی اصل کو سمجھنا چاہیے۔ اس نعرے کی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے آزادی نسواں کے نعرے لگانے والوں کی طرح مرد و عورت دونوں کو ایک ہی دائرے میں رکھ کر ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج مغرب نے مساوات کے نام پر اِنسانیت کو بانٹنے کا کام کیا ہے۔ اس نے عورت کو برابر کا حصہ دینے کی بات تو کی ہے، لیکن اسے اس کے پورے حقوق نہیں دیے۔ یعنی پہلے اسے حق سے محروم کیا اور پھر اسے کم حق دے کر برابر کا کام کرنے کے لیے تیار کیا اور اسے گھر سے باہر نکال کر نوکریوں اور مختلف پیشوں سے جوڑ دیا۔
اب آزادی اور برابری کی جو لالچ دے کر عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا تھا، اسے امپاورمنٹ کا نام دے کر اس کا استحصال کیا گیا۔ پھر ہیومن لبریشن کی ایک جنگ چھیڑ دی گئی اور اسے جن حقوق سے محروم کیا گیا تھا، اسے لینے کے لیے تیار کیا گیا۔ یہی نہیں، گھروں کو خیرباد کہنے کے بعد اسے باہر نکال کر مردوں کے لیے سیر و تفریح کا سامان بنا دیا گیا۔ کہیں وہ ماڈلنگ کی دنیا میں آزمائی گئی، کہیں لوگوں کے لیے سامان بیچنے کا ذریعہ بنی۔ رہی سہی کسر مال کے کلچر نے پوری کر دی، جہاں اسے سیلز گرل کے نام پر گراہکوں کا دل بہلانے کی ذمہ داری دے کر اس کا استحصال کیا گیا۔ گویا وہ لوگوں کے لیے ایک نوالہ تر بنتی اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑتی رہی اور گھر کو چھوڑ کر وہ باہری دنیا میں قدم رکھنے کے بعد بھی آج تک صنفی مساوات کی لڑائی میں مصروف ہے۔
آخر ہم کس ہندوستان میں جی رہے ہیں ؟ اور کس صدی کی بات کرتے ہیں؟ اکیسویں صدی کے 2021،2022اور2023 کی کرائم رپورٹس اگر پڑھ لیں تو ہم ’بیٹی پڑھاؤ‘ کو چھوڑ کر صرف ’بیٹی بچاو ‘کے نعرے کو زبان سے لگانے پر مجبور ہوں گے۔ جب ہماری بیٹیاں بچیں گی، تبھی تو وہ پڑھ سکیں گی۔ آج اس نعرے کے ساتھ ہی مجروح ہوتی بیٹیاں، جن کا کبھی حجاب اتروایا جاتا ہے، کبھی جن کے پردے کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اپنے حقوق کو مانگتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ بات سیکیورٹی کی ہو، مذہبی تشخص کی ہو یا تحفظ کی ہو، سبھی اس زمرے میں آتی ہیں۔بات خواہ اگست 2023 کے پولیس کا نسٹیبل رابعہ سیفی کی ہو ،جسے ڈیوٹی کرتے ہوئے اغوا کرکے اس کی عصمت دری کے بعد بے رحمی سے قتل کردیا گیا، سوال یہ ہے کہ ہم خواتین کی کیا تصویر پیش کررہے ہیں؟
وطن عزیز میں خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے نے ہمارے معاشرے پر ایک بدنما داغ لگادیا ہے۔روزانہ ملک کے کسی نہ کسی قصبے، صوبے یا شہر سے ایسی خبریں سننے میں آتی ہیں کہ دل کانپ جاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات نہ صرف لمحہ فکریہ ہیں بلکہ حکومت اور معاشرے کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ ملک کے مستقبل کو درندہ صفت حیوانوں سے کیسے بچایا جائے؟جبکہ ملک کا قانونی نظام بھی ان واقعات میں اضافے کی ایک وجہ ہے، جس میں مقدمات کے فیصلے ہونے میں بہت زیادہ تاخیر ہوجاتی ہے۔ ملک میں ہر 20 منٹ میں زنا بالجبر کا ایک واقعہ پیش آتا ہے، جبکہ جنسی زیادتی کے 70 کیسوں میں صرف ایک ہی کیس کا اندراج ہوپاتا ہے۔ شہروں میں دیکھا جائے تو دہلی اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تودیوی دیوتاوں کی سرزمین آج خواتین کے لیے غیرمحفوظ ہوگئی ہے۔ ہماری ثقافت میں منافقت اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہے، ایک طرف دیویوں کی پوجا کی جاتی اور دوسری جانب جب ماوں، بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کی بات آتی ہے تو ان کے ساتھ بالکل مختلف رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ خواتین کے ساتھ سلوک کرنے کی بات آ ئے تو ہندوستانی دہرا میعار رکھتے ہیں جو کہ منافقت ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت اس ہستی کا نام ہے جس کے بغیراس دنیا کا وجود ہی ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ماں، بہن، بیٹی ، بیوی ، بہوجس روپ میں بھی ہوتی ہے ،اپنا تن ،من ، دھن سب کچھ اپنے گھر والوں پرقربان کر دیتی ہے مگر پھر بھی ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس محبت کے پیکر کو ہر دور میں دنیا نے اپنے پاوں تلے روندا ہے۔
جنسی جرائم کے سدباب کے لیے صرف زنا پر سخت سزا کو کافی نہ سمجھتے ہوئے زنا پر اکسانے والے تمام محرکات، جیسے شراب پر اور دیگر نشہ آور چیزوں پر پابندی عائد کی جائے۔ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو حتی المقدور روکا جائے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو ساتر اور شائستہ لباس پہننے کی ترغیب دی جائے۔ اس طرح کی آزادی اور مساوات، جو اپنی تفصیلات کے ساتھ قانون فطرت کے خلاف ہے اور جب بھی انسان اس سے ٹکراتا ہے تو پھر تباہی و بربادی ہاتھ آئی ہے، جس کی مثال ایڈز اور دوسری جان لیوا بیماریاں ہیں۔ اس لیے پوری دنیا کو سمجھانا چاہیے کہ قانونِ فطرت سے ٹکرانا کتنا خطرناک ہے۔ اس کے برعکس خالقِ فطرت کا قانون اور عورت و مرد کے مساویانہ تفریق عدل و انصاف کے ساتھ خالق کائنات نے کی ہے، اسے تسلیم کیا جائے اور دونوں کو اس کے دائرے کار میں رکھتے ہوئے ان کے کام متعین کیے جائیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔