’آئی سی814-‘ کی تعریف، ’ایمرجنسی‘ پر روک اور ’دی ڈائری آف ویسٹ بنگال‘ کی ناکامی سے بی جے پی پریشان کیوں!
ویب سیریز ’آئی سی814-‘ سے دائیں بازو کے ٹرولرس پریشان ہیں، بنگال میں ’دی ڈائری آف ویسٹ بنگال‘ فلاپ ہو گئی ہے اور کنگنا رانوت کی ’ایمرجنسی‘ پر تو سنسر بورڈ نے روک لگا دی ہے۔
حال ہی میں جاری ہوئی ویب سیریز ’آئی سی 814 – قندھار ہائی جیک‘ کو لے کر دائیں بازو کے انفلوئنسر بہت ہنگامہ مچا رہے ہیں، اور اس کے سبب مرکزی حکومت کو وزارت برائے اطلاعات و نشریات نے نیٹ فلکس کے کنٹینٹ ہیڈ کو طلب بھی کیا ہے۔ الزام ہے کہ ویب سیریز میں حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ حالانکہ فلمسازوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے سیریز کے دوران انہی حقائق کو شامل کیا ہے جو اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی اُس وقت کی این ڈی اے حکومت نے لوگوں کے سامنے رکھے تھے۔
اسی دوران ایک بے حد خراب طریقے سے بنائی گئی فلم ’دی ڈائری آف ویسٹ بنگال‘ کو گزشتہ ہفتہ ریلیز کیا گیا۔ ظاہر ہے ارادہ آر جی کر میڈیکل کالج واقعہ کے بعد عوامی ناراضگی کا سامنا کر رہی ممتا بنرجی حکومت کو ہدف بنانا تھا۔ اسی طرح کنگنا رانوت کے ذریعہ ہدایت کاری اور اداکاری والی فلم ’ایمرجنسی‘ کے بھی ریلیز کی تاریخ کا اعلان ہوا، حالانکہ سنسر بورڈ نے فی الحال اس فلم کی ریلیز پر روک لگا دی ہے۔ اس فلم میں بی جے پی رکن پارلیمنٹ کنگنا رانوت سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے کردار میں ہیں۔ اس فلم کا ٹریلر لانچ ہونے کے بعد سے سکھ طبقہ میں ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
ان تین واقعات سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ سیاسی نظریے سے بنائی گئی فلمیں یا ویب سیریز اب بی جے پی کے کام نہیں آ پا رہی ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے عین اہم انتخابات کے مواقع پر ایسی فلمیں ریلیز کی جا رہی تھیں جن میں مسلمانوں کو ایک الگ ہی نظریے سے پیش کیا گیا تھا۔ ان میں سے 2022 مین ریلیز ہوئی فلم ’کشمیر فائلس‘ اور 2023 میں ریلیز ہوئی ’کیرالہ فائلس‘ اہم ہیں۔ ان دونوں ہی فلموں کو بی جے پی اور اس کے لیڈروں نے خوب مشتہر کیا تھا جس کے نتیجے میں ان فلموں نے باکس آفس پر اچھی کمائی بھی کی۔ کئی بی جے پی حکمراں ریاستوں نے ان فلموں کو ٹیکس فری کر دیا تھا، کئی جگہ بی جے پی نے خود لوگوں کو اس فلم کے لیے مفت ٹکٹ تقسیم کیے تھے یا اجتماعی شو اسپانسر کرائے تھے۔ وزیر اعظم مودی تک نے ان فلموں کو دیکھنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دی تھی۔
ویسے 2019 انتخاب سے عین قبل شاید نایاب موقع ہی تھا جب الیکشن کمیشن نے پی ایم نریندر مودی نامی فلم کی ریلیز پر روک لگا دی تھی۔ اس فلم میں وویک اوبرائے نے پی ایم مودی کا کردار نبھایا تھا۔ اس کے علاوہ ’جے این یو‘ نام کی فلم میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کو ہدف بنایا گیا تھا تو ’آرٹیکل 370‘ نامی فلم کے ذریعہ سرکاری دعووں کو پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم کی بھی وزیر اعظم مودی نے تعریف کی تھی۔ حالانکہ یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہو گئی تھی۔ 2024 کے لوک سبھا انتخاب سے عین قبل مزید ایک فلم آئی تھی جس کا نام تھا ’سوتنتر ویر ساورکر‘۔ یہ فلم ہندو راشٹر کا تصور دینے والے ساورکر کی زندگی پر مبنی تھی۔
گزشتہ ہفتہ ریلیز ہوئی ’دی ڈائری آف ویسٹ بنگال‘ میں بھی مسلمانوں کو ایک الگ نظریہ سے پیش کیا گیا تھا جیسا کہ ’اُری- دی سرجیکل اسٹرائک‘، ’نیویارک‘ اور ’قربان‘ وغیرہ میں۔ ان سبھی فلموں میں مسلمانوں کو شدت پسند، دہشت گرد اور ہندوستان مخالف ویلن کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ حالانکہ کولکاتا میں جونیئر ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل سے پیدا ناراضگی سے پہلے بنگلہ دیش میں ہوئے ایک طرح کے انقلاب کا ہر طرف شہرت تھی، جس میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔ ’دی ڈائری آف ویسٹ بنگال‘ کے فلمسازوں نے امید کی ہوگی کہ بنگلہ دیش کے ان حالات کے درمیان فلم ریلیز کرنا فائدہ مند ہوگا، کیونکہ اس فلم میں 1971 کے دور کو دکھایا گیا ہے۔ فلم میں مسلمانوں کو درانداز اور مذہبی شدت پسندوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو بنگال کو مسلم اکثریتی علاقہ بنانا چاہتے ہیں۔ فلم میں وزیر اعلیٰ کے طور پر ایک خاتون کو دکھایا گیا ہے جس کا حلیہ موجودہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے بہت ملتا جلتا ہے۔
اس فلم کی ریلیز کو مزید ڈرامائی بنانے کی خاطر فلمسازوں نے دعویٰ کیا کہ فلم کے ہدایت کار سنوج مشرا اگست کے تیسرے ہفتہ سے ریاستی دورہ پر تھے اور تب سے ہی وہ لاپتہ ہیں۔ اُدھر بی جے پی رکن پارلیمنٹ کنگنا رانوت دعویٰ کر رہی ہیں کہ انھیں فلم ہدایت کار کی پریشان بیوی نے فون کر مشرا کا پتہ لگانے کی اپیل کی ہے۔ باتیں گشت کر رہی ہیں کہ مشرا کا یا تو پولیس نے یا پھر ترنمول کانگریس حامیوں نے اغوا کر لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فلم ہدایت کار مشرا نے خود ہی فلم کی ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے انسٹاگرام پرلکھا تھا ’’میں سرکاری دباؤ اور اس فلم کو لے کر اختیار کی جا رہی پالیسی سے ٹوٹ چکا ہوں… میرے سات کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے… میں آپ کے پیغامات کا جواب نہیں دے پا رہا ہوں… میں سب طرف سے بہت دباؤ میں ہوں…!‘‘
بھلے ہی یہ دعویٰ کافی سنسنی خیز تھا لیکن اس پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ فلم ریلیز کے بعد آئے تجزیے نے بھی فلم کا بینڈ بجا دیا۔ باکس آفس پر بھی فلم کوئی کمال نہیں کر سکی اور ایک طرح سے کلکتہ ہائی کورٹ کی وہ بات درست ثابت ہوئی کہ اگر فلم نہیں دیکھنی ہے تو مت دیکھنا، لیکن فلم کو ریلیز ہونے دو۔ اس فلم کے ریلیز کے خلاف ایک عرضی کو خارج کرتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے یہی تبصرہ کیا تھا۔
لیکن اس کے برعکس انوبھو سنہا کی ہدایت کاری والی ویب سیریز ’آئی سی814-‘ کو لوگوں نے کافی پسند کیا ہے۔ تلخ تنقید کے باوجود عام لوگ اور فلم انڈسٹری کے لوگ اس سیریز کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ فلمساز سدھیر مشرا کا یہ تبصرہ اس بات کو ثابت کرتا ہے جو انھوں نے سیریز دیکھنے کے بعد کیا۔ انھوں نے لکھا ’’بس ابھی ختم کی ہے آئی سی 814، شاندار، جس طرح سے انوبھو سنہا نے سرکاری افسران اور دفاتر کی منظر کشی کی ہے اور اس بحران کے دوران ان کا کیا رویہ تھا، وہ بے حد شاندار ہے۔‘‘
اس ویب سیریز کے تئیں ناظرین بھی بہت پُرجوش ہیں۔ وہ اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہے۔ فلم میں خاص طور سے تجربہ کار اداکاروں نصیرالدین شاہ، پنکج کپور، منوج پاہوا، وجئے ورما، اروند سوامی اور دیا مرزا کی اداکاری کو بہت تعریفیں مل رہی ہیں۔ ویب سیریز کے ڈائیلاگ پر بھی بہت باتیں ہو رہی ہیں۔
لیکن دائیں بازو کے انفلوئنسر و ٹرولرس سیریز کے لانچ ہونے کے بعد سے ہی اس بات کو لے کر بہت مایوس ہیں کہ آخر طیارہ ہائی جیک کرنے والوں کے نام بھولا، شنکر، ڈاکٹر، برگر اور چیف کی شکل میں کیوں دکھائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلمساز و ہدایت نے قصداً ان کا اصل نام نہیں لیا کیونکہ یہ سبھی مسلم اور پاکستانی تھے، جو آئی ایس آئی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ اس تنقید کا دباؤ اتنا بڑھا کہ اب وزارت برائے اطلاعات و نشریات کو نیٹ فلکس کے کنٹینٹ ہیڈ کو صفائی دینے کے لیے طلب کرنا پڑا ہے۔
ویسے یہ ایک طرح سے صاف ہو گیا ہے کہ ویب سیریز کے لیے کی گئی تحقیق میں شاید ہی کوئی غلطی کی گئی ہے۔ دراصل ہائی جیک کرنے والے دہشت گرد طیارہ کے اندر ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لیے انہی کوڈ ناموں کا استعمال کر رہے تھے۔ اغوا کا بحران ایک ہفتہ تک چلا تھا، اور آخر میں حکومت ہند نے دباؤ میں آ کر کئی خونخوار دہشت گردوں کو رِہا کیا تھا۔ ان میں بدنام زمانہ دہشت گرد مسعود اظہر بھی شامل تھا۔ اس وقت کی بی جے پی حکومت کے مرکزی وزیر جسونت سنگھ اور موجودہ قومی حفاظتی مشیر (این ایس اے) اجیت ڈوبھال خود دہشت گردوں کو سونپنے اور ان کے بدلے مسافروں کی رِہائی کے لیے قندھار گئے تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔