جیتے کوئی بھی، نقصان میں بی جے پی... شرد گپتا

یو پی بی جے پی میں شطرنج کی مانند بچھائی گئی بساط اب ہندوتوا کے بڑے چہرے کے طور پر کون سامنے آئے گا جیسے بیانیے کے گرد سمٹ گئی ہے، جو گلے میں پھانس کی طرح ہے

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم مودی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ / Getty Images</p></div>

وزیر اعظم مودی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ / Getty Images

user

شرد گپتا

میرٹھ-ہریدوار شاہراہ پر کھانے پینے کے کے تمام ٹھکانوں کے مالکان کو اپنا نام نمایاں طور پر لکھنا لازمی کرنے کے یوپی حکومت کے حکم نامہ پر اگرچہ سپریم کورٹ نے روک لگا دی ہے، لیکن اس کا اثر طویل عرصے تک بی جے پی کی داخلی سیاست پر پڑنے کا امکان ہے۔ حکم نامہ تو یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی ریاستی حکومت کا تھا لیکن اپوزیشن اس کے لیے مرکزی حکومت پر بھی حملہ آور تھی۔ یہ حکم نامہ اس وقت آیا جب چرچے بڑھ رہے ہیں کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت یوپی میں تبدیلی پر غور کر رہی ہے۔ ریاست کے دونوں نائب وزرائے اعلیٰ برجیش پاٹھک اور کیشو پرساد موریہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے بلائی گئی یا ان کی صدرات والی بیشتر میٹنگوں سے کنارہ کر رہے ہیں۔ دونوں رہنما خود کو یوگی کے متبادل کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ دونوں بی جے پی کے ریاستی صدر بھوپندر چودھری کے علاوہ نہ صرف وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں بلکہ ان میٹنگوں کی خوب تشہیر بھی کر رہے ہیں۔ ایسے میں میڈیا کے پاس ان کہانیوں کو مسالے کے ساتھ کہنے کے لیے کافی مواد تھا کہ یوگی باہر ہو سکتے ہیں۔

موریہ نے ریاستی پارٹی ایگزیکٹو میں یہ کہہ کر یوگی کو چھوٹا دکھانے کی کوشش کی کہ 'تنظیم حکومت سے بڑی ہے'۔ میٹنگ میں نڈا بھی موجود تھے لیکن ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ یوگی کو نشانہ بنانے کا سوال اندرونی مباحثوں سے بھی نکلا کہ یوپی میں لوک سبھا انتخابات کے دوران بی جے پی کی خراب کارکردگی کے لیے یوگی ذمہ دار تھے جہاں پارٹی 62 سے نیچے جا کر 33 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ یوگی کیمپ کی اپنی کہانی ہے کہ جب امیدواروں کے انتخاب میں یوگی کی کوئی بات نہیں مانی گئی، ان کی کوئی سفارش قبول نہیں کی گئی تو پھر انہیں شکست کا ذمہ دار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے!

خود یوگی اس سب پر خاموش رہے ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو خاموش کرنے کے لیے کوئی بیان جاری نہیں کیا، نہ ہی مرکزی قیادت سے ملنے کی جلدی دکھائی۔ بس اپنی روزمرہ کی روٹین برقرار رکھی۔ سامنے دکھائی دینے والا واحد واقعہ ان کا اپنے آبائی شہر گورکھپور کا اچانک دورہ تھا جہاں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت خود سے رضاکاروں کا تربیتی کیمپ خطاب کرنے آئے ہوئے تھے۔ بھاگوت اس وقت تک مودی پر کچھ زیادہ ہی طنز کر چکے تھے۔ ایسے میں یوگی اور بھاگوت کے درمیان ملاقات کا مطلب آر ایس ایس کا یوگی کو حمایت دینا ہوتا۔ ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ نے دو دن انتظار کیا لیکن بھاگوت ان سے نہیں ملے۔ اس کے بجائے، آر ایس ایس نے ایک بیان جاری کر دیا کہ سنگھ کے صدر کا کوئی سیاسی پروگرام نہیں ہے!


آر ایس ایس عام طور پر ایسی پریس ریلیز جاری نہیں کرتا، خاص طور پر ایسی بات واضح کرنے کے لیے جو ہوئی ہی نہیں ہو۔ واضح تھا کہ سنگھ ابھی مودی کے خلاف کھل کر سامنے آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس سے یوگی سکتہ میں آ گئے۔ یہ سب چل رہا تھا کہ 15 جولائی کو مظفر نگر ایس ایس پی نے یہ حکم جاری کر دیا کہ ضلع میں کانوڑ یاترا کے راستہ پر موجود تمام کھانے پینے کی دکانوں، ہوٹلوں اور چائے خانوں وغیرہ پر مالکان کو اپنے نام نمایاں طور پر لکھنے ہوں گے، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ 22 جولائی سے شروع ہونے والی کانوڑ یاترا میں شامل لوگوں کو کھانے پینے کے بارے میں کوئی ابہام نہ ہو اور وہ وہاں کھانا کھا سکیں جہاں 'پاکیزہ کھانا' (ہندوؤں کے زیر ملکیت کھانے والے مقامات) ملے۔

یوگی کو کٹر ہندوتوا کے علمبردار والی اپنی شبیہ چمکانے کا موقع ضائع نہیں کرنا تھا اور انہوں نے یہی کیا۔ انہوں نے یہی حکم ریاست بھر کے کانوڑ کے راستہ کے لیے جاری کر دیا۔ چونکہ لوگ شیو لنگ پر چڑھانے کے لیے گنگا جل لے کر ریاست بھر میں یاترا کرتے ہیں، اس لیے یہ حکم نامہ عملی طور پر پورے ریاست پر نافذ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں مسلم ملازمین والے یا ان کے زیر ملکیت کھانے والے مقامات کو کانوڑ یاترا کے دوران کوئی کاروبار نہیں ملنے والا تھا۔ ایسی خبریں بھی آئیں کہ پولیس نے ڈھابہ مالکان کو کانوڑ یاترا کے دوران اپنے مسلم ملازمین کو نکالنے یا چھٹی پر بھیجنے پر مجبور کیا۔ اس نے پہلے ہی گوشت خور کھانے پکانے اور بیچنے پر پابندی لگا دی تھی تاکہ کانوڑ یاتریوں کے جذبات مجروح نہ ہو۔

یہ سب کچھ مذہب کی بنیاد پر امتیاز ہے اور آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے، جو ہندوستان میں ہر شہری کو برابر حیثیت دیتا ہے۔ آرٹیکل 21 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو قانون کے ذریعہ قائم کردہ طریقوں کے علاوہ اس کی زندگی یا ذاتی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ یوپی حکومت کے حکم نامہ کا مطلب ایک پوری کمیونٹی کو ان کے کاروباری حقوق سے محروم کرنا ہے۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت کو ایسے 'امتیازی حکم' پر اپوزیشن کے حملے کا جواب دینے میں مشکل آنی ہی تھی۔ اس طرح یوگی آدیتہ ناتھ نے اپنے پیچھے پڑے اپنے ہی پارٹی کے ساتھیوں سے بڑی چالاکی سے بدلہ لے لیا۔ عتیق احمد اور مختار انصاری جیسے مافیا ڈان کو ختم کرنے کے علاوہ بغیر کسی سرکاری حکم کے ان کی جائیدادوں کو تباہ کر کے یوگی ہندوتوا کے سخت حامی والی اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ کانوڑ یاترا پر جاری حکم نامہ نے انہیں دوہرا مقصد حاصل کرنے میں مدد فراہم کی، ایک تو وہ ہندوتوا کے سب سے بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے اور بی جے پی کی مرکزی قیادت پر اپوزیشن کی توپوں کو مزید گرجنے کا موقع بھی دے دیا۔

دراصل، یوگی کبھی بھی مودی اور شاہ کی پسند نہیں تھے۔ مودی 2017 میں منوج سنہا کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے جبکہ شاہ اس وقت کے ریاستی صدر موریہ کے حق میں تھے۔ لیکن بی جے پی کے تنظیمی سکریٹری- بنیادی طور پر آر ایس ایس کے ایک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر کرشنا گوپال نے یوگی آدتیہ ناتھ کو قائم کرنے کے لیے کمر کس لی۔ وہ اس کوشش میں کامیاب تو ہوئے لیکن اس کے لیے انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ انہیں آر ایس ایس کے اندر بی جے پی کے انچارج جیسے اہم عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے یوگی کی راہ میں کانٹے بچھانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہیں کبھی بھی اپنی پسند کے افسران نہیں دیے گئے۔ پارٹی کے عہدیداروں اور وزراء کا رویہ بھی ان کے حق میں نہیں رہا۔ پھر بھی، ایک اہم ہندوتوا چہرے کے طور پر آدتیہ ناتھ کے ابھار نے ملک بھر میں ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد تیار کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے لیے وہ ہمیشہ مودی کے بعد ایسے دوسرے لیڈر بن گئے جن کی سب سے زیادہ مانگ کی جاتی ہے۔ ان کی پہلی مدت کار مڈبھیڑوں کے دوران کئی ہلاکتوں، ہاتھرس اجتماعی زیادتی کا کیس اور اے ڈی جی سطح کے پولیس افسران کی طرف سے ہیلی کاپٹر سے کانوڑ یاتریوں پر پھولوں کی بارش کے لئے خاص طور پر یاد کی جاتی ہے۔


اگرچہ، ہندوتوا کی علامتوں کو سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کر کے وہ ہندوتوا کا جنون بیدار کرنے میں کامیاب رہے۔ گائے ذبح پر سخت پابندی سے گئو رکشکوں کو فروغ ملا۔ پولیس مڈبھیڑوں میں مارے گئے اکثر لوگ ایک خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنا، ان کی 'بھگوا پرچم بردار' شبیہ کو چمکانے میں مددگار ثابت ہوا۔ انہوں نے بین المذاہب شادیوں پر پابندی لگانے کے لیے رومیو اسکواڈ بھی شروع کی اور لَو جہاد جیسے الفاظ تو ان کی تقریروں کا ایک لازمی حصہ بن گئے۔ اپنے فیصلوں کے ذریعے وہ یہ ثابت کرتے دکھائی دیے کہ وزیر اعلیٰ کے طور پر یہ بھگوادھاری سنت صرف رسمی طور پر نہیں بلکہ حقیقت میں اس کا مطلب سیاست میں مذہب کا انضمام تھا، یعنی اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی ہندوتوا طاقتوں کی حکمرانی۔ ان کا یہ جملہ یوں ہی مشہور نہیں ہوا- "2017 سے پہلے سبسڈی والے اکثر غذائی اشیاء پر ان لوگوں کا قبضہ ہوتا تھا جو اپنے والد کو ابا جان کہتے تھے۔" ایک اور جملہ تھا، ’’اگر لَو جہاد کرنے والے اپنے طریقے نہیں بدلتے، جلد ہی ان کی رام نام ستیہ ہے یاترا (آخری رسومات کا جلوس) جلد ہی شروع ہوگی۔‘‘

پھر بھی 2021 میں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے انہیں مرکزی سطح پر جانے اور کسی اور کو اقتدار سنبھالنے کے لیے کہا، تاہم یوگی کسی طرح اپنی کرسی بچانے میں کامیاب رہے۔ 21 نومبر 2021 کو وزیراعظم نریندر مودی نے یوگی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر تحفظ دینے والے انداز میں اپنی ایک تصویر جاری کی جس کے بعد بحث ختم ہو گئی۔ یوگی نے 2022 میں دوسری مدت کار کے لیے لڑائی لڑی اور 403 ارکان والی اسمبلی میں 255 نشستیں حاصل کیں۔ یہ مکمل اکثریت تھی لیکن 2017 کی فتح جیسی زوردار نہیں، جب بی جے پی نے مودی-شاہ اور موریہ کی قیادت میں 312 سیٹیں جیت لی تھیں۔ صوبے کی موجودہ کھینچ تان پارٹی قیادت کی جانب سے یوگی کی کشتی کو ڈگمگانے کی دوسری کوشش ہے۔

اس طرح، یوگی آدتیہ ناتھ بی جے پی کی طاقت کے ساتھ ساتھ اس کی مجبوری بھی بن چکے ہیں۔ ان کی مقبولیت یوپی کی حدود میں محدود نہیں ہے، یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے وزیر اعلیٰ کو حاصل نہیں ہے۔ لیکن، یہی طاقت ہے جو نہ صرف ان کے آس پاس کے لوگوں بلکہ ان سینئرز کو بھی بے آرام کرتی ہے جو اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یوگی کے حامی جس طرح انہیں اگلے وزیراعظم کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اس نے بھی اس تقسیم کو بڑھا دیا ہے۔ لیکن اگر یوگی آدتیہ ناتھ کو عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے، تو ان کی خاموشی اور غیر فعالیت بھی پارٹی کی ممکنہ کامیابیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہوگی۔

دراصل، یوپی میں تاریخ 1998-1999 کو دوہرا رہی ہے۔ اس وقت کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ تھے اور اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ان کے تعلقات تقریباً اتنے ہی سرد تھے۔ ریاستی بی جے پی رہنما اور ارکان اسمبلی کا ایک طبقہ ہر 2-3 ماہ میں دہلی جا کر کلیان کو ہٹانے کا مطالبہ کرتا تھا۔ واجپائی-اڈوانی کی جوڑی نے ایسے باغیوں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ ان کو تحفظ ہی دیا۔ نتیجتاً کلیان سنگھ نے 1999 کی لوک سبھا انتخابات کے دوران پارٹی کے آفیشل امیدواروں کے خلاف چالیں چل کر اپنا بدلہ لے لیا۔ پارٹی کی سیٹیں آدھی رہ گئیں اور 1998 کی 58 سے کم ہو کر 1999 میں 29 رہ گئیں۔ اگرچہ دیگر این ڈی اے اتحادیوں کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے وہ واجپائی کو وزیراعظم کے طور پر دوبارہ منتخب ہونے سے نہیں روک سکے۔ واجپائی کو کلیان سنگھ کو باہر کرنے کا ایک موقع مل گیا اور ان کی جگہ تقریباً بھلا دیے گئے اسی سالہ رہنما رام پرکاش گپتا کو مقرر کیا گیا جو کافی کمزور ثابت ہوئے۔


اس بار بھی 1999 کی طرح بی جے پی کی اعلیٰ قیادت موریہ اور پاٹھک جیسے باغیوں کو خاموش حمایت دے کر یوگی پر دباؤ بنا رہی ہے۔ پچھلے چار سالوں تک وہ مرکزی حکومت کی طرف سے ان پر تھوپے گئے چیف سیکریٹری سے نبٹتے رہے۔ کابینہ وزیر اے کے شرما جیسے ان کے ساتھی اور ریاستی صدر بھوپندر چودھری مودی کے وفادار سمجھے جاتے ہیں۔ تنظیمی سکریٹری سنیل بنسل بھی یوگی کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب انہیں کچھ ایسے نفسیاتی دباؤ میں ڈالنے کی حکمت عملی ہے کہ وہ صرف ایک غلط قدم اٹھائیں اور اعلیٰ قیادت کو انہیں باہر کا راستہ دکھانے کا بہانہ مل جائے۔

یوگی آدتیہ ناتھ پہلے ہی مودی-شاہ جوڑی سے واضح کر چکے ہیں کہ انہیں وزیر اعلیٰ کے بعد کسی دوسرے عہدے کی خواہش نہیں ہے۔ اگر انہیں عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے تو وہ گورکھپور میں اپنے مٹھ میں واپس جانا چاہیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے ساتھی ٹھاکروں کی بی جے پی سے مزید علیحدگی ہوگی۔ جس پارٹی کے پاس 20-22 فیصد کا ایسا مضبوط کور ووٹ بینک ہے جس میں زیادہ تر اونچی ذاتیں شامل ہیں، وہ اس میں دراڑ برداشت نہیں کر سکتی۔ مطلب واضح ہے کہ یوگی اور بی جے پی کی مرکزی قیادت کے درمیان یہ شطرنج کا کھیل ابھی کچھ وقت کے لیے چلنے کا امکان ہے، جب تک کہ ان میں سے کسی کی پلک نہ جھپکے، غلطی نہ ہو اور شہ مات نہ ہو جائے۔ تب تک دونوں گروہ سیاسی شطرنج کی بساط پر اپنی چالیں چلتے رہیں گے۔ فی الحال تو نتیجے کی پیش گوئی کرنے کی حالت میں شاید کوئی نہیں ہے لیکن دو باتیں یقینی ہیں- اگر کسی کی شکست ہوگی تو وہ بی جے پی کی ہوگی، اگر کسی کو فائدہ ہو گا تو وہ اپوزیشن کو ہوگا!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔