چاروں طرف پھیلی آلودگی کے لیے جوابدہ کون؟... حمرا قریشی

ہمارے سینکڑوں ہم وطنوں کی حالت بدتر ہے، پھر بھی ہمیں لگاتار تقریروں میں بتایا جا رہا ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی حکمرانوں کو چاروں طرف پھیلی آلودگی کے لیے جوابدہ بنایا جانا چاہیے

<div class="paragraphs"><p>دہلی کی فضائی آلودگی / قومی آواز / وپن</p></div>

دہلی کی فضائی آلودگی / قومی آواز / وپن

user

حمرا قریشی

ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں اس وقت کچھ زیادہ ہی کہرا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ فضائی آلودگی حد درجہ بڑھی ہوئی ہے جس سے نظام تنفس متاثر ہو رہا ہے۔ لوگوں کو سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے اور کمزور افراد پر موت کا سایہ منڈلا رہا ہے۔ اگر میں غلط ہوں تو مجھے درست کیجیے کہ آلودگی پھیلانے والا کہرا اتنا شدید ہے کہ سینکڑوں لوگ موت کی زد میں آ سکتے ہیں، بلکہ مسلسل اموات ہو رہی ہے۔

ایسے حالات میں آلودگی کی شدت کم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، لیکن خبریں یہ آ رہی ہیں کہ دہلی واقع نجف گڑھ سبزی منڈی میں دکانداروں کو اپنے ٹھیلوں پر نام اور فون نمبر ڈسپلے کرنا ہوگا۔ دہلی حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے، وہ ایسا کیوں ہونے دے رہی ہے؟ کیا یہ اس آلودگی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جو کہ دور دور تک پھیلی دکھائی دے رہی ہے! حالانکہ اس علاقہ کے بی جے پی رکن اسمبلی کی طرف سے وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بنگلہ دیشی اور روہنگیا پناہ گزینوں کو سامان فروخت کرنے سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے، لیکن کچھ اور بھی وجہ دکھائی دے رہی ہے۔ یقیناً یہ فرقہ وارانہ تقسیم کی کوشش ہے۔ جلد ہی یہاں سڑکوں پر ہندو-مسلم لڑائیاں ہوں گی جو تشدد اور انارکی کا باعث بنیں گی۔ اس کے ساتھ ہی غریب مزید غریب اور کمزور ہوتے چلے جائیں گے، اور پھر وہ بے بس ہو جائیں گے۔ وہ اس وقت کے سیاسی حکمرانوں پر انگلی اٹھانے کے لائق بھی نہیں رہ جائیں گے۔


پانڈے اور ان کی ٹیم نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ متاثرین کو کوئی معاوضہ فراہم نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ماضی میں کئی مرتبہ وعدے کیے جانے کے باوجود کسی کو بھی مکان یا کاروبار کے نقصان کی تلافی نہیں کی گئی۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ نے کیمپ کے پناہ گزینوں سے وعدہ کیا تھا کہ ننگول چکّوبا تہوار سے قبل ہر ایک کو 1000 روپے دیے جائیں گے، لیکن کسی کو پیسے نہیں ملے۔‘‘

ان کیمپوں میں خواتین اور بچوں کے تعلق سے بھی رپورٹ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ’’پروابتی کالج کی خواتین نے شکایت کی ہے کہ کئی بار سرکاری افسران آئے اور انھیں سلائی مشین و دیگر سامان دینے کا وعدہ کیا جس کا استعمال وہ ذریعہ معاش کے لیے کر سکتی ہیں۔ حالانکہ یہ وعدے وفا نہیں ہوئے۔ صرف ایک مرتبہ مشروم کی زراعت کے لیے تربیت دی گئی تھی، لیکن سرگرمی شروع کرنے کے لیے وسائل دستیاب نہیں کرائے گئے۔ مقامی طبقہ کے ذریعہ یہاں 3 ہینڈلوم دستیاب کرائے گئے ہیں جن کا استعمال راحتی کیمپ میں خواتین بُنائی کے لیے کرتی ہیں۔ سوومبنگ میں برمنگول کالج ہاسٹل میں حکومت کے ذریعہ 4 ہینڈلوم دستیاب کرائے گئے ہیں۔ یہاں کم از کم 15 مزید ہینڈلومز کی ضرورت ہے۔ فینگ میں خواتین پلاسٹک کی تھیلیاں اور موم بتیاں بناتی ہیں، لیکن انھیں مارکیٹنگ سے متعلق امداد کی ضرورت ہے۔ راحتی کیمپوں میں خواتین کو ذریعہ معاش کے مواقع فراہم کرنے کی سمت میں مزید کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔ فینگ میں خواتین اپنے بچوں کی تعلیم سے متعلق بہت فکرمند ہیں۔ وہ حکومت کے ذریعہ فراہم کردہ کچھ سامانوں کو فروخت کر پیسے بچاتی ہیں اور اس لیے کبھی کبھی بھوکے رہ جاتی ہیں یا صابن کا استعمال نہیں کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی فیس ادا کر سکیں۔ راحتی کیمپوں میں رہنے والوں کے بچوں کو آر ٹی ای ایکٹ کی دفعہ 12(1)(سی) کے تحت پرائیویٹ اسکولوں میں مفت تعلیم کے لیے داخلہ دیا جانا چاہیے یا پھر اس کی تعلیم کا خرچ حکومت کے ذریعہ برداشت کیا جانا چاہیے۔‘‘

آئیے آپ کو امپھال کی طرف لے چلتے ہیں جہاں کا دورہ کر سماجی کارکن و ماہر تعلیم اور سوشلسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سندیپ پانڈے نے زمینی حقائق کی کچھ تفصیلات پیش کی ہیں۔ وہ اور ان کی ٹیم کچھ دنوں قبل ہی وہاں گئے تھے اور کچھ بنیادی حقائق کو سامنے رکھا ہے۔ میں ان کی رپورٹ کا ایک حصہ یہاں پیش کرتی ہوں: ’’12-11 نومبر 2024 کو امپھال میں 5 راحتی کیمپوں کے دورہ کے بعد سفارشات– راحتی کیمپوں میں پناہ گزینوں کو دی جانے والی نقدی اور فراہمی میں خامی ہے۔ فینگ ہائی اسکول میں انھیں کیمپوں میں آنے کے بعد 5 مرتبہ 1000 روپے ملے ہیں۔ منی پور ٹریڈ اینڈ ایکسپورٹ سنٹر میں انھیں مہینے میں دو مرتبہ فی کس 80 روپے ملتے ہیں۔ برمنگول کالج ہاسٹل میں جمع لوگوں کو، جن کے گھر آگ زنی کی نذر ہو گئے، فی کس 80 روپے ملتے ہیں، اور جن کے گھر محفوظ ہیں انھیں فی کس صرف 10 روپے روزانہ ملتے ہیں۔ سامری سرکاری ہائی اسکول میں پناہ گزینوں کو حکومت کی طرف سے صرف چاول ملتا ہے، جبکہ دوسرے کیمپوں میں دال، آلو، پیاز، تیل، صابن، شرف، شیمپو وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ یہاں پناہ گزینوں کو روزانہ فی کس 80 روپے ملتے ہیں۔ انھیں تہواروں کے دوران 5 مرتبہ 1000 روپے بھی ملے ہیں۔ فینگ ہائی اسکول مین پناہ گزینوں کو ہفتے میں 2 یا 3 بار انڈے اور روزانہ دودھ بھی ملتا ہے۔ حالانکہ دوسرے کیمپوں میں دودھ اور انڈے نہیں دیے جاتے۔ پربھات کالج راحتی کیمپ میں پناہ گزینوں کو ناشتے کے لیے روزانہ فی کس صرف 15 روپے ملتے ہیں۔ منی پور ٹریڈ اور ایکسپورٹ سنٹر کو چھوڑ کر سبھی کیمپوں میں عام رسوئی ہے جنھیں پناہ گزینوں کے ذریعہ باری باری سے چلایا جاتا ہے۔ عام رسوئی میں ایندھن کے طور پر لکڑی کا استعمال ہوتا ہے، جبکہ منی پور ٹریڈ اینڈ ایکسپورٹ سنٹر میں قیدی انڈکشن چولہا کا استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘


اس رپورٹ سے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ دوائیوں، گرم کپڑوں اور کمبلوں کی شدید کمی ہے۔ اتنا ہی نہیں، راشن کارڈ اور آیوشمان کارڈ جیسی بنیادی سہولیات کی بھی کمی دیکھنے کو ملی۔ سب سے اہم بات تو یہ تھی کہ مشکل وقت میں رابطہ کی تفصیلات بھی ان راحتی کیمپوں میں موجود نہیں تھیں۔ مثلاً پولیس، میڈیکل، پانی کی فراہمی، بجلی، ضلع کنٹرول روم، فائر، آنگن واڑی، پانی کی صفائی، ایمرجنسی کے لیے نمبر وغیرہ چند ایک راحتی کیمپ میں تو موجود تھے، لیکن بیشتر تفصیلات ناموجود تھیں۔

سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ متاثرہ آبادی اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے لیے بے چین ہے، لیکن ایسا کب ہوگا؟ ان کی زندگی معمول پر کب لوٹے گی؟ پانڈے لکھتے ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ متاثرہ آبادی اپنے گاؤں اور گھروں کو واپس جانے کے لیے بے چین ہے۔ ایسا کب ہوگا؟ معمولات کب لوٹیں گے؟ پانڈے تذکرہ کرتے ہیں کہ ’’لوگ راحتی کیمپوں میں رہ کر تھک چکے ہیں اور اب اپنے گاؤں گھر لوٹنا چاہتے ہیں۔ سب سے افسوسناک معاملہ فینگ ہائی اسکول راحتی کیمپ کے لوگوں کا ہے جن کا گاؤں کانگچپ چنگ کھونگ محض ایک کلومیٹر دور ہے۔ جب 39 سالہ خاتون لیچونگ بام ابیمچا نے نومبر 2023 میں اپنے گاؤں واپس جانے کی کوشش کی تو انھیں گولی مار دی گئی اور 10 دن بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔ جلد از جلد حالات معمول پر لانے کی کوششیں کی جانی چاہیئں تاکہ لوگ واپس جا سکیں۔ لوگ زراعت، ریت کانکنی جیسے اپنے روایتی کاموں کی طرف واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔‘‘

ہمارے سینکڑوں ہم وطنوں کی یہی حالت ہے، پھر بھی ہمیں لگاتار تقریروں میں بتایا جا رہا ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی حکمرانوں کو چاروں طرف پھیلی آلودگی کے لیے جوابدہ بنایا جانا چاہیے۔ فرقہ وارانہ بنیاد پر بھٹکاؤ بہت ہو گیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان سیاہ سچائیوں پر توجہ دیں جو ہمیں ہر ممکنہ محاذ پر گھیر رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔