الیکشن آڈٹ سے کون ڈرتا ہے؟
بہتر ہوتا کہ جب بھی سوالات اٹھتے، الیکشن کمیشن خود تحقیقات کر کے ہر قسم کے خدشات کو دور کر دیتا۔ ابھی جو ہو رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے
ہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ماہرین، سیاسی تجزیہ کاروں، صحافیوں، یوٹیوبرز اور یہاں تک کہ عام لوگوں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ نہ صرف اس لیے کہ یہ نتائج مکمل طور پر پیشین گوئیوں اور عام توقعات کے خلاف ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ پورے انتخابی عمل کی شفافیت پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ جب کانگریس نے ووٹوں کی سست گنتی پر سوال اٹھایا تو الیکشن کمیشن سے جو جواب ملا وہ کسی بھی طرح سے شائستہ نہیں تھا۔ اس میں جانب داری اور سیاسی رنگ صاف نظر آ رہا تھا۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں، جن میں صرف ایک بٹن دبانے سے سارا کھیل ہو جاتا ہے، کے حوالے سے گزشتہ کئی سالوں سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جن لوگوں نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی چھان بین کے لیے بہت محنت کی ہے، انہوں نے اپنی تحقیق اور مطالعہ کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کے کئی ممالک نے اس نظام کو کیوں ترک کر دیا۔ تاہم انہیں سازشی تھیورسٹ کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔ بھرپور مصدقہ شواہد کے باوجود یہ کام مین اسٹریم میڈیا نے بھی کیا ہے، جو حکومت کی پروپیگنڈہ مشینری کا حصہ ہے۔
سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ہر پولنگ مرکز میں وی وی پی اے ٹی یعنی ووٹر تصدیق شدہ پیپر ٹریل کا انتظام کیا گیا تھا لیکن کمیشن نے ہر مرکز میں وی وی پی اے ٹی سلپس کا ای وی ایم کے ووٹوں سے ملان کرنے سے انکار کر دیا۔
امریکہ، جرمنی اور نیدرلینڈز جیسے ممالک نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر پابندی عائد کر دی کیونکہ اس میں شفافیت نہیں ہے اور شہریوں کو اس پر یقین نہیں دلایا جا سکتا۔ جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے ایک فیصلے میں بھی یہی کہا ہے۔
اگر الیکشن کمیشن ایک اپنے غیر جانبدار ریفری کے کردار کو بحال کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس ہریانہ میں بہت اچھا موقع ہے، جہاں وہ انتخابات کا آزادانہ آڈٹ کرا سکتا ہے۔ ہریانہ بہت چھوٹی ریاست ہے اور وہاں صرف 90 نشستیں ہیں۔ ایسی صورت حال میں نہ تو زیادہ وقت لگے گا، نہ زیادہ پیسے خرچ ہوں گے اور نہ ہی بہت سے لوگوں کی ضرورت پڑے گی۔ الیکشن کمیشن صرف بی جے پی کی جیتی ہوئیں 48 سیٹوں اور کانگریس کی جیتی ہوئیں 37 سیٹیں پر گنتی کرا سکتا ہے۔ اگر یہ گنتی ماہرین، تمام سیاسی جماعتوں اور سول تنظیموں کے نمائندوں کی موجودگی میں کی جائے تو بہت سے شکوک و شبہات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔
یہ درست ہے کہ وی وی پی اے ٹی پرچیوں کو شمار کرنے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے لیکن اس کی اخلاقی بنیاد موجود ہے۔ جب الیکشن کمشنر کا تقرر حکمران جماعت کی جانب سے ’قانونی طور پر‘ کیا جائے گا تو الیکشن کمیشن کی ساکھ مشکوک ہو جائے گی، خواہ وہ انتخابات صحیح طریقے سے کر رہا ہو۔ درحقیقت پوسٹ پول آڈٹ کو لازمی قرار دیا جانا چاہئے کیونکہ ووٹر لسٹ سے ووٹرز کے ناموں کو حذف کرنے کی باقاعدہ رپورٹیں آتی رہتی ہیں۔
الیکشن افسران اور الیکشن ڈیوٹی میں مصروف افراد جو کہ سرکاری ملازم ہیں کا کردار بھی واضح نہیں ہے۔ انتخابات کی تاریخیں کیا ہوں گی اور کتنے مراحل میں ہوں گی اس حوالے سے کوئی شفافیت نہیں ہے۔ ای وی ایم مشینوں کی تیاری، ذخیرہ اندوزی، دیکھ بھال اور نقل و حمل کے حوالے سے بھی کئی جائز سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان مشینوں کو بنانے والی پبلک سیکٹر کمپنی کے ڈائریکٹر حکمران جماعت کے عہدیدار رہ چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو اپنی ساکھ بحال کرنے اور عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے یہ کام خود کرنا چاہیے۔ ہریانہ اس معاملے میں ایک مثال بن سکتا ہے، چاہے ایک مہینہ لگ جائے اس میں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یہ الیکشن کمیشن کے اپنے مفاد میں بھی ہے اور اس سے وہ چھیڑ چھاڑ کے الزامات سے ہمیشہ کے لیے بری ہو سکتا ہے۔
نتائج کے بعد اب بی جے پی کی حکمت عملی وغیرہ پر بات ہو رہی ہے لیکن اس دوران الیکشن کمیشن نے جو رول ادا کیا اس پر بھی بات کرنا ضروری ہے۔ 8 اکتوبر جب نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو کانگریس 90 میں سے 72 سیٹوں پر آگے تھی۔ آہستہ آہستہ کانگریس کی یہ برتری کم ہوتی گئی اور پھر اچانک یوں لگا گویا بازی پلٹ گئی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوا کہ جیسے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ ٹھپ ہو گئی ہو۔ دو گھنٹے تک کوئی اپڈیٹ نہیں ہوا۔ اس وقت تک ووٹوں کی گنتی کے صرف دو راؤنڈ ہوئے تھے۔ بعد میں جب اپ ڈیٹ شروع ہوا تب بھی اس کی رفتار کافی سست تھی۔
اس تاخیر پر کانگریس کے کان کھڑے ہوئے۔ لگا کہ کہیں کچھ تو گڑبڑ ہو رہی ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے فوری طور پر الیکشن کمیشن کو خط ارسال کیا۔ انہوں نے لکھا، ’’سوشل میڈیا پر جو رہا ہے اسے آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ اس وقت جب زیادہ مراکز پر ووٹوں کی گنتی جاری ہے، شرپسند عناصر اس بیانیے کا استعمال کر کے ووٹوں کی گنتی کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘
توقع تھی کہ کمیشن درست جواب دے کر صورتحال واضح کرے گا لیکن یہ امید جلد ہی دم توڑ گئی۔ کمیشن نے کانگریس کے خدشات کو بے بنیاد قرار دیا۔ کمیشن کے جواب میں مزید کہا گیا کہ ’’کمیشن آپ کے غیر ذمہ دارانہ، بے بنیاد اور غیر تصدیق شدہ بدنیتی پر مبنی بیانیے کو اعتبار دینے کی آپ کی کوشش کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔‘‘
اس طرح کا ردعمل اس تصور کی نفی کرنے کے مترادف ہے کہ جس کے مطابق الیکشن کمیشن سے غیر جانبدار ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ ڈیٹس سست ہونے پر میڈیا نے بھی اسے نوٹ کیا۔ پہلے عام طور پر ایسا ہوتا تھا کہ میڈیا اور خاص طور پر نیوز چینلز کے رپورٹر گنتی کے مراکز پر موجود ہوتے تھے۔ اس وقت کمیشن کی ویب سائٹ سست رہی اور اس کے اپ ڈیٹ ہونے سے پہلے تمام چینلز پر انتخابی رجحانات نظر آ رہے تھے۔ اب الیکشن کمیشن ریئل ٹائم اپڈیٹس کا دعویٰ کرتا ہے اور کافی حد تک ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس لیے نیوز چینلوں نے ووٹ شماری کے مراکز سے اپنا ڈیٹا بھیجنا بند کر دیا۔ ایک مرتبہ جب الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپڈیشن کی رفتار سست ہو گئی، تو اس کا اثر نیوز چینلز پر نظر آنے والے رجحانات پر بھی پڑا۔ اس تاخیر سے زیادہ تر ٹی وی چینلز پر بحث کے نام پر وہ نقصان دہ بیانیہ شروع ہوا، جس کے سبب لوگوں کے تاثرات بدلنے لگے۔
8 اکتوبر کی شام تک یہ خبریں آنے لگیں کہ جہاں کہیں دوبارہ گنتی ہوئی، ان تمام جگہوں پر بی جے پی کے امیدوار جیت گئے۔ بہت سے امیدوار اس بات پر حیران تھے کہ پورے انتخابی عمل سے گزرنے کے بعد بھی ای وی ایم 99 فیصد چارج کیسے ہو گئے؟ اس کا مطلب ہے کہ یا تو ای وی ایم کو تبدیل کیا گیا یا ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم، جس نے گزشتہ عام انتخابات کے فوراً بعد انتخابی اعداد و شمار کا مطالعہ کیا، نے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد اور گنتی کے درمیان بہت بڑا فرق پایا۔ 362 پارلیمانی حلقے ایسے تھے جہاں گنتی میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے 5,54,598 زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ دوسری جانب 176 پارلیمانی حلقے ایسے تھے جہاں 35,093 ووٹ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے کم شمار کیے گئے۔ تاہم، اے ڈی آر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ڈالے گئے ووٹوں اور ووٹوں کی گنتی کے درمیان اس فرق کا انتخابی نتائج پر کوئی اثر کیسے پڑا۔ اے ڈی آر کے بانی جگدیپ چھوکر کے مطابق، ’’حتمی ووٹر ٹرن آؤٹ ڈیٹا جاری کرنے میں انتہائی تاخیر، حلقہ اور پولنگ اسٹیشن کی سطح پر الگ الگ ڈیٹا کی کمی اور اس بارے میں سوالات کہ آیا انتخابی نتائج مکمل طور پر مماثل اعداد و شمار پر مبنی تھے، اس سب نے انتخابی نتائج کی درستگی کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں شکوک پیدا کر دئے ہیں۔‘‘
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ الیکشن کمیشن ووٹرز کی تعداد کے اعداد و شمار دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس کے لیے اے ڈی آر کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ کمیشن نے یہ اعداد و شمار سپریم کورٹ کے حکم پر ہی اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے تھے۔
الیکشن کمیشن نے اعتراضات کو نظر انداز کرنا یا ان کے ساتھ لاتعلقی کا برتاؤ کرنا اپنی عادت بنا لی ہے۔ اس سے پہلے جب بھی ای وی ایم پر سوالات اٹھائے گئے، اس نے کبھی بھی ووٹنگ مشین کی کھلی جانچ کے چیلنج کو قبول نہیں کیا۔ ای وی ایم کے ساتھ ہر جگہ وی وی پی اے ٹی لگائے جائیں گے، وہ اس کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ یہ کام بھی سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ہی ہو سکتا تھا۔
بہتر ہوتا کہ جب بھی کچھ سوالات اٹھتے، کمیشن خود تحقیقات کر کے ہر قسم کے خدشات کو دور کر دیتا۔ اب جو ہو رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ جائز تحفظات پر توجہ نہ دینا بھی الیکشن کمیشن کی ووٹروں کے سامنے جوابدہ ہونے میں ناکامی ہے۔
یہ جمہوریت کی روح کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔ اگر شہری اور سیاسی جماعتیں انتخابات کرانے والے ادارے پر اعتماد کھو دیں تو جمہوریت مفادات کا شکار ہو سکتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عوام کا سرکاری اداروں پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے، الیکشن کمیشن کو جوابدہ اور شفاف بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔