گرما گرم کھانا کسے پسند نہیں!... ریتیکا کھیرا

کئی لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مرکزی حکومت 80 کروڑ لوگوں کو مفت اناج مہیا کراتی ہے، ایسے میں بھلا سستی شرح پر کھانا کھلانے والی کینٹین کی کیا ضرورت؟

<div class="paragraphs"><p>راجستھان کے جئے پور میں اَنپورنا رسوئی وین سے کھانا خریدتے ہوئے غریب افراد، تصویر Getty Images</p></div>

راجستھان کے جئے پور میں اَنپورنا رسوئی وین سے کھانا خریدتے ہوئے غریب افراد، تصویر Getty Images

user

قومی آواز بیورو

میں ’وندے بھارت‘ سے جئے پور جا رہی تھی۔ شہروں میں چل رہی چنندہ کینٹین کا سروے کرنا تھا۔ ٹرین میں ہی کھانا کھایا۔ اگلے دن میرا کھانا ’اندرا رسوئی‘ کی کینٹین میں ہوا۔ وہاں کھانے کے ساتھ ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ اندرا رسوئی کی روٹیاں وندے بھارت کی روٹیوں سے بہتر ہیں۔

اندرا رسوئی (راجستھان) اور اما انوگم (تمل ناڈو) جیسی کینٹین رعایتی شرحوں پر تازہ پکا ہوا کھانا دستیاب کراتی ہیں۔ کووڈ-19 وبا کے وقت لاک ڈاؤن میں پیدا بحران کے جواب میں ان کی واپسی تک یہ لوگوں کی یاد سے تقریباً غائب ہو چکی تھیں۔ راجستھان میں اگست 2020 میں 200 کینٹین کے ساتھ اندرا رسوئی (اب شری اَنپورنا رسوئی) منصوبہ شروع کیا گیا اور 2023 تک ریاست میں ان کی تعداد بڑھ کر 1200 کے آس پاس ہو گئی۔ انھیں دیہی علاقوں میں بھی لے جانے کا اعلان ہوا۔


سبسیڈی والی کینٹین کا ملک میں بڑا نیٹورک ہے۔ حالانکہ پالیسی پر مبنی طریقے سے اس پر جتنا دھیان دیے جانے کی ضرورت تھی، اس پر نہیں دیا گیا۔ ایسے بیشتر منصوبے 2010 سے 2020 کے درمیان شروع ہوئے۔ 2013 میں اماں انوگم (تمل ناڈو)، 2014 میں انپورنا کینٹین (تلنگانہ)، 2015 میں آہار (اڈیشہ)، 2017 میں اندرا کینٹین (کرناٹک)، 2020 میں اندرا رسوئی (راجستھان)، 2020 میں شیو بھوجن تھالی (مہاراشٹر)۔

ان ریاستی حکومت کے حمایت یافتہ منصوبوں کے بارے میں منظم سروے کی کمی ہے۔ کینٹین سروے 2023 کے لیے ہم نے تین ریاستوں کا انتخاب کیا- تمل ناڈو، راجستھان اور کرناٹک۔ سروے نومبر-دسمبر 2023 میں کیا گیا جس کا مقصد اس طرح کے سماجی پالیسی پر مبنی مداخلت کی صلاحیتوں کو بہتر سمجھنا، یہ دیکھنا کہ انھیں کس طرح عمل میں لایا گیا اور کیا اس کا کوئی بین ریاستی پالیسی پر مبنی سبق ہے؟ اس میں 12 شہروں کو شامل کیا گیا- راجستھان میں اجمیر، بیکانیر، چتوڑگڑھ، چورو، جئے پور اور اودے پور؛ کرناٹک میں بنگلورو، بیلاری اور میسور؛ تمل ناڈو میں چنئی، کوئمبٹور اور ویلور۔ ہم نے بے ترتیب انداز سے منتخب کی گئی 174 کینٹین میں کھانا کھانے والے 704 افراد سے بات چیت کی۔


پی ڈی ایس ہے تو کینٹین کیوں؟

کئی لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب 80 کروڑ لوگوں کو پی ڈی ایس (پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم) کے ذریعہ مفت اناج دیا جا رہا ہے تو سستی شرح پر کھانا دستیاب کرانے کے لیے کینٹین کی ضرورت کیا ہے؟ فوڈ سیکورٹی کے لیے ’ایک اور منصوبہ‘ لانے کی جگہ پی ڈی ایس کوریج کو ہی وسیع کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ ایک دیگر سوچ یہ ہے کہ اس کی جگہ ’ایک ملک، ایک راشن کارڈ‘ کے ذریعہ پی ڈی ایس میں ’پورٹیبلٹی‘ پر توجہ مرکوز کی جائے۔

پی ڈی ایس اناج ان کے لیے فوڈ سیکورٹی کا ذریعہ ہے جن کے پاس پکانے کی سہولت ہے، لیکن شہری علاقوں میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ خاص طور سے مہاجر مزدوروں کے معاملے میں۔ ہمارے جواب دہندگان میں 11 سے 47 فیصد کے پاس کھانا پکانے کی سہولت نہیں تھی۔ ان کے لیے پی ڈی ایس کے ذریعہ خشک راشن دے دینا فوڈ سیکورٹی کی گارنٹی نہیں۔


عام طور پر کینٹین کو بے سہارا، بے گھر، آوارہ یا بکھاریوں کے لیے فوڈ سیکورٹی کی ترکیب مانا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے کینٹین بڑی مددگار ہوتی ہے اور ہمارے جواب دہندگان کا تقریباً دسواں حصہ ایسے ہی لوگ تھے۔ تقریباً ہر پانچویں (17 فیصد) نے بتایا کہ ان کے علاقوں میں کینٹین کھلنے سے پہلے کبھی کبھی انھیں بھوکے سونا پڑتا تھا۔ ان کے علاوہ بھوک اور غریبی سے جکڑے لوگوں میں چورو کے 46 سالہ ہارون جیسے بھی ہیں جنھیں پیر ٹوٹنے پر کئی بار بھوکے سونا پڑا، جب تک کہ وہ کینٹین میں نہیں کھانے لگے۔

ویسے کینٹین کو صرف طویل مدتی یا عارضی مجبوری کے چشمہ سے دیکھنا غلط ہوگا۔ وہ کام کرنے والے لوگوں کے لیے بھی سہولت آمیز ہے، کیونکہ یہ سستا اور غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کرتی ہیں۔ کینٹین اچھی خاصی سبسیڈی دیتی ہے۔ سروے کے وقت راجستھان میں 25 روپے کی تھالی 8 روپے میں مل رہی تھی۔ کینٹین بازار نظام کی کئی ناکامیوں کا حل بھی ہیں۔ جب خوردنی اشیا زیادہ مہنگی ہوں تو یہ کینٹین طے قیمت پر کھانا مہیا کرتی ہیں۔ دوسرا، ریہڑی والے کھانے کی نگرانی نہیں کی جاتی اور ضروری نہیں کہ اسے صاف ستھرے طریقے سے بنایا گیا ہو۔ تیسرا، اگر ریاستی حکومتیں کینٹین میں تغذیہ پر زیادہ توجہ دیں تو یہ ریہڑی والوں کو بھی کفایتی غذائیت سے بھرپور کھانا دینے کو مجبور کر سکتی ہیں۔ غذائیت سے بھرپور کھانے کی محدود موجودگی لاگت ہی نہیں، خراب غذائی تعلیم کے سبب بھی ہے۔


کینٹین کا ایک بالواسطہ فائدہ ہے جمہوری مقامات کی تعمیر۔ ذات، طبقہ، جنس اور مذہب ہندوستانی سماج کے رویہ اور بات چیت کو متاثر کرتے ہیں، اور ہندوستان میں کم ہی ایسے عوامی مقامات ہیں جنھیں بے گھر یا جھگی جھونپڑیوں، پناہ گاہوں، بس اسٹینڈ وغیرہ میں رہنے والے (جواب دہندگان کے 12 سے 28 فیصد) غیر جھگی جھونپڑی والے علاقے کے لوگوں (جواب دہندگان کے تقریباً 50 فیصد) کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ کئی جواب دہندگان نے کینٹین کی اس مجموعی فطرت کی تعریف کی۔ بیلاری میں ایک شخص نے کہا کہ ’’سرکاری ملازمین سے لے کر دہاڑی مزدوروں تک سب ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ ذات یا فرقہ کے نظریہ سے کینٹین کے ملازمین اور وہاں کھانے والوں کا مشترکہ پس منظر بھی قابل غور ہے۔ کرناٹک میں کینٹین میں کھانے والوں میں دلت، قبائلی اور مسلمان 16 فیصد، تمل ناڈو میں 25 فیصد اور راجستھان میں 33 فیصد تھے۔ کینٹین کے ملازمین بھی مشترکہ سماجی گروپ سے آتے ہیں۔ راجستھان میں 10 میں سے صرف ایک کینٹین ایسا رہا جس میں یہ تنوع نہیں ملا۔ کینٹین میں ملازمین کو رسوئیا، اسسٹنٹ، خزانچی کی شکل میں رکھا جاتا ہے اور انھیں بغیر یہ سوچے کام سونپا جاتا ہے کہ ان کا سماجی پس منظر کیا ہے۔

کینٹین خواتین کو روزگار کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ سروے کیے گئے کینٹین میں سے صرف 8 فیصد میں کوئی خاتون ملازم نہیں تھی۔ تمل ناڈو میں سبھی ملازمین خواتین ہی تھیں۔ راجستھان اور کرناٹک میں ٹیمیں مشترک تھیں، حالانکہ راجستھان میں کرناٹک کے مقابلے زیادہ خاتون ملازمین تھیں۔


کون کھاتا ہے ان کینٹین میں؟

سروے سے ایک دن قبل کینٹین ملازمین نے اوسطاً 247 لوگوں کو کھانا کھلایا۔ الگ الگ ریاستوں میں اس میں تھوڑا بہت فرق تھا۔ سب سے کم تمل ناڈو میں 224 تھا۔ کینٹین میں عام طور پر تین طرح کے لوگ کھانا کھاتے ہیں۔ نمبر 1، مستقل گاہک (نصف سے زیادہ نے بتایا کہ وہ عموماً روزانہ کینٹین میں کھاتے ہیں)؛ نمبر 2، کبھی کبھی کھانے والے؛ اور نمبر 3، پہلی بار آنے والے، جن میں عموماً مریضوں کے ساتھ اسپتال جانے والے، کسی سرکاری یا قانونی کام سے شہر آنے والے اور اسٹیشن/بس اسٹینڈ کے مسافر ہوتے ہیں۔

مستقل گاہک موٹے طور پر 5 درجات کے ہوتے ہیں- کام کرنے والے مرد، خواتین، طلبا، بوڑھے اور مختلف مشکل حالات میں رہنے والے لوگ۔ جواب دہندگان میں کام کرنے والے مردوں کا گروپ سب سے بڑا تھا۔ کچھ ریاست کے ہی کسی علاقے سے شہروں میں آئے مہاجر تھے اور کچھ دور دراز سے آئے تھے۔ بنگلورو میں ایک آسامی سویگی ڈیلیوری ملازم نے کہا کہ جب اسے بھوک لگتی ہے تو وہ گوگل میپس پر نزدیکی اندرا کینٹین تلاش کرتا ہے۔ ایسے مزدوروں کے لیے کینٹین انتہائی سہولت آمیز ہوتی ہیں جن کی رہائش میں کھانا پکانے کی سہولت نہیں ہوتی، یا جن کے پاس وقت نہیں ہوتا۔


کینٹین میں کھانا کھانے والوں میں خواتین کم ہی تھیں (جواب دہندگان میں 9 سے 13 فیصد)، لیکن کینٹین انھیں کئی طرح سے راحت دیتی ہیں۔ چونکہ خواتین گھر پر فیملی کے لیے کھانا بناتی ہیں، اس لیے جب فیملی کے اراکین کینٹین میں کھانا کھاتے ہیں تو ان کا بہت وقت بچتا ہے؛ گھر کے کام کے ساتھ ساتھ باہر کام کرنے والی خواتین کے لیے تو کینٹین ایک رحمت ہیں۔ ہم نے جن شہری کینٹین کا سروے کیا، ان میں سے کچھ کالجوں و یونیورسٹیوں کے پاس تھیں۔ ایسی کینٹین میں تقریباً 10 فیصد کھانے والے طلبا تھے۔ ہاسٹل میں یا پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے والوں کے لیے کینٹین ایک تحفہ کی طرح ہوتی ہیں، کیونکہ انھیں گھر کے باہر کم پیسے میں گھر جیسا کھانا نصیب ہوتا ہے۔

تمل ناڈو میں کینٹین میں کھانے والے بزرگوں کی تعداد 20 فیصد، تو کرناٹک میں 6 فیصد اور راجستھان میں 8 فیصد تھی۔ ان کے لیے کینٹین کے کھانے کا مطلب ہے سستا، سادہ اور آسانی سے ہضم ہونے والا۔ ہماری ملاقات ایسے لوگوں سے بھی ہوئی جنھیں دماغی صحت سے متعلق مسئلہ تھا، یا شریک حیات اور اہل خانہ سے رشتے کشیدہ تھے۔ بے شک ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ نہ ہو لیکن ان کے لیے بھی کینٹین صحت بخش کھانا کا قابل احترام ذریعہ ہے۔


بہتری کی گنجائش:

کینٹین کے طریقہ کار میں کئی اصلاحات ہو سکتی ہیں۔ سب سے ضروری ہے مینیو، یعنی کھانے کی چیزیں۔ اس میں انڈا، دہی، چھاچھ، تازہ سبزیاں اور مختلف اناجوں کی دستیابی ہو سکتی ہے۔ کچھ چیزیں الگ سے قیمت ادا کرنے پر دی جا سکتی ہیں۔ راجستھان میں سبزی خور لوگ بہت ہوتے ہیں، اس لیے وہاں کینٹین کا کھانا سبزی پر مشتمل ہے- روٹی، دال یا کڑھی اور ایک سبزی۔ کچھ کینٹین میں ہم نے پایا کہ لوگ اپنے ساتھ چھاچھ یا دہی لے کر آتے ہیں۔

کرناٹک میں کینٹین کے لیے سنٹرلائز رسوئی کا انتظام ہے۔ ایسے سرکاری پروگراموں کے لیے ٹھیکیداروں (چاہے وہ مذہبی ہوں یا نہیں) سے بچنا درست ہوگا، کیونکہ وہ خرچ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بڑے فراہم کنندگان کے مذہبی عقیدے ہوتے ہیں (جیسا کہ کرناٹک میں اسکولی کھانا کے فراہم کنندہ نے کیا) تو وہ حکومتوں پر انڈے نہیں دینے کا دباؤ ڈال سکتے ہیں، جبکہ انڈا غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔


تمل ناڈو میں نہ تو مویشی والے پروٹین سے اختلاف ہے اور نہ ہی سنٹرلائز رسوئی کو لے کر کوئی مسئلہ ہے۔ ابھی کینٹین کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سیاسی ہو سکتی ہے۔ ریاستی حکومت پس و پیش میں ہے۔ وہ ایک مقبول منصوبہ کو بند نہیں کرنا چاہتی، لیکن نہ ہی وہ ایسے منصوبہ میں مزید پیسہ لگانا چاہتی ہے جو کسی سیاسی حریف سے اتنے قریب سے جڑی ہو۔ ملازمین بھی کہتے ہیں کہ اس میں سیاست ہو رہی ہے، حالانکہ نظر انداز پہلے ہی کیا جانے لگا تھا۔ 2013 سے 2021 کے درمیان نہ تو مینیو بدلا اور نہ ہی ملازمین کی تنخواہ بڑھی، جبکہ اس وقت دوسری پارٹی اقتدار میں تھی۔

کینٹین کو زیادہ طے شدہ پیسے کی ضرورت ہے۔ 2023 کے آخر میں اقتدار جانے سے پہلے اشوک گہلوت نے اندرا رسوئی منصوبہ کے لیے 700 کروڑ روپے الاٹ کیے تھے، لیکن نئی حکومت نے اسے نصف کر دیا ہے۔ دراصل یہ حکومتوں کے پاس تھوڑا سیاسی رحم دلی کا مظاہرہ کر ایک بہت مفید منصوبہ کی ملکیت حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔

(یہ مضمون ریتیکا کھیڑا نے لکھا ہے، جو ماہر معیشت ہیں اور آئی آئی ٹی دہلی میں پڑھاتی ہیں۔ طویل شکل میں یہ مضمون ’دی انڈیا فورم‘ میں شائع ہوا ہے۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔