جب تاریخ کے صفحات کا پوسٹ مارٹم شروع ہو ہی گیا ہے تو پھر شیکسپئر کے ’گلاب‘ کو بھی ’کمل‘ کر دیا جائے!
تاریخ بنانے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک آپ کچھ ایسا کر جائیں کہ آنے والی نسلیں آپ کو یاد رکھیں، اور دوسرا اگر آپ ویسا کچھ نہیں کر سکتے تو تاریخ کو پھر سے لکھ دیں۔
ولیم شیکسپئر جب اپنے مشہور افسانہ ’ہیملٹ‘ میں ’سات گناہوں‘ کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ جیسے ہندوستان کے آج کے ’امرت کال‘ کا خاکہ کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ جب وہ ’اوتھیلو‘ میں ’آنر کلنگ‘ کی بات کرتے ہیں، جب وہ ’رومیو اینڈ جولیٹ‘ میں ’لو جہاد‘ کی بات کرتے ہیں یا پھر جب وہ ’مرچنٹ آف وینس‘ میں بقایہ ’ای ایم آئی‘ کی بات کرتے ہیں، انسانی جذبات کی گہرائیوں میں اترتے ہوئے شیکسپئر آج کے ہندوستان کی بات کر رہے نظر آتے ہیں۔ بس، ایک معاملے میں وہ کچھ گڑبڑا جاتے ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے؟ جولیٹ کے الفاظ کو یاد کریں: ’نام میں بھلا کیا رکھا ہے؟ جسے ہم گلاب کہتے ہیں، اسے کسی بھی اور نام سے پکاریں، اس کی خوشبو تو ویسی ہی دلکش رہے گی...۔‘
عقلمند درباری شاعر میتھکنس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کسی کو کس نام سے پکارتے ہیں، یہ اہم نہیں۔ مثال کے لیے اگر رومیو کو رونالڈو کہا جاتا تو بھی وہ اتنا ہی خوبصورت اور دلکش ہوتا۔ بالکل درست ہے، لیکن تب شیکسپیئر 450 سال بعد کے اس ’ہندو راشٹر‘ کا کوئی اندازہ نہیں لگا پائے تھے جب نام سے ہی تاریخ اور جغرافیہ طے ہونے والا تھا، جب پسندیدہ پھول گلاب نہیں بلکہ کمل ہو جانے والا تھا، جب خوشبو نہیں بلکہ نام سے طے ہونے والا تھا کہ آپ گلاب سونگھ رہے ہیں یا پھر سڑی ہوئی مچھلی اور نام سے ہی طے ہونے والا تھا کہ آپ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
ہندوستان میں نام بہت اہم ہے۔ مثال کے لیے ’م‘ سے شروع ہونے والے ایک نام کے بارے میں آپ کچھ بھی ’ایسا ویسا‘ اپنی جوکھم پر ہی بول سکتے ہیں، کیونکہ ممکن ہے آپ کو جیل کی سزا مل جائے۔ ویسے ہی کچھ ناموں کو کچھ دوسرے ناموں سے بدلا جا رہا ہے۔ نہرو، گاندھی، پٹیل اور امبیڈکر جیسے نام اس اصول کی وجہ سے ہٹائے جا رہے ہیں کہ اگر آپ ان کی حصولیابیوں کی برابری نہیں کر سکتے تو بس اتنا یقینی کر لیں کہ ان کے نام کھرچ کھرچ کر ہر جگہ سے ہٹا دیئے جائیں۔
تاریخ بنانے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک، آپ کچھ ایسا کر جائیں کہ آنے والی نسلیں آپ کو یاد رکھیں۔ اور دو، اگر آپ ویسا کچھ نہیں کر سکتے تو تاریخ کو پھر سے لکھ دیں۔ تاریخ میں درج ناموں کو بدلتے ہوئے اسے پھر سے لکھ دیں۔ دوسرا طریقہ کہیں زیادہ آسان ہے۔ اس میں آپ کو محنت نہیں کرنی پڑتی۔ بس ضرورت ہوتی ہے کاغذ اور قلم کی۔ ایک بار قلم چلاؤ اور کسی اور کی حصولیابیاں آپ کے نام ہو گئیں۔ یہ طریقہ اسٹیڈیم، راستے، عمارتوں، اسمارکوں، یونیورسٹی، مندر اور یہاں تک کہ شہروں کے لیے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کام ان دنوں جنگی سطح پر چل رہا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں اس طرح کے ’نیک‘ کاموں پر یہ کہتے ہوئے بریک لگایا ہے کہ ملک کو ماضی کا یرغمال نہیں بنایا جا سکتا۔
ویسے کام کرنے کا ایک اور طریقہ ہوتا ہے۔ اگر آپ نیا کچھ نہیں لکھ سکتے تو یا تو آپ لکھے میں پھیر بدل کر دو یا پھر پوری سلیٹ ہی صاف کر دو اور حکومت پہلے سے ہی اس پر کام کر رہی ہے۔ اس کا ’پائلٹ پروجیکٹ‘ اس وقت عمل میں لایا گیا جب رافیل معاملے میں قیمت تقرری کی تفصیل ہی بدل گئی تھی۔ اس کے بعد یہی فارمولہ پارلیمنٹ میں بھی آزمایا گیا جب راہل گاندھی کی بیشتر تقریروں کو پارلیمنٹ کے ریکارڈ سے ہٹا دیا گیا تاکہ آنے والی نسلوں کو کبھی پتہ ہی نہ چلے کہ اڈانی کے ساتھ کون کیا گل کھلا رہا تھا۔ اس کے بعد گجرات ہائی کورٹ نے وزیر اعظم کی ڈگری کے بارے میں جانکاری کو باہر آنے سے روک دیا اور اس طرح لوگ ہی جاننے سے رہ گئے کہ وزیر اعظم نے اپنی غیر معمولی صلاحیت کسی یونیورسٹی میں پائی یا کہ ریلوے اسٹیشن پر۔
پھر این سی ای آر ٹی نے پوری ہندوستانی تاریخ کو پھر سے لکھنے کا ذمہ اٹھا لیا اور اس نے مہاتما گاندھی کے تئیں آر ایس ایس کی ناپسندیدگی، ہلدی گھاٹی کی لڑائی کے نتائج، گجرات میں 2002 کے قتل عام اور یہاں تک کہ مغلوں سے جڑے حصوں کو ہٹا دیا۔ یہ اپنے آپ میں بڑا پیچیدہ معاملہ ہے کیونکہ اگر ہماری تاریخ میں مغلوں کا تذکرہ نہ ہو تو راجپوتوں اور مراٹھوں نے کس کے خلاف لڑائی لڑی؟ پھر تاج محل، لال قلعہ، آگرہ کا قلعہ یا جامع مسجد کس نے تعمیر کرائی؟ بریانی کہاں سے آئی جسے آج ہمارے لیڈران بڑے شوق سے کھایا کرتے ہیں؟
شاید ان پیچیدہ سوالوں کا جواب بھی جلد ہی مل جائے اور ایسے تمام رازوں سے بھی پردہ اٹھے کہ لداخ میں ہمارے 1000 اسکوائر کلومیٹر علاقہ پر کون قبضہ جمائے بیٹھا ہے یا کون سا ملک ہمارے امپورٹ بل میں 120 ارب ڈالر کی حصہ داری پر کنڈلی مارے ہوئے ہے؟ میں تو صرف پوچھ رہا ہوں کیونکہ چین کا نام بھی تو نہیں لیا جا سکتا۔ جب ہم ناموں کی بات کر ہی رہے ہیں تو اپنے ’وولف واریر‘ وزیر خارجہ جئے شنکر سے یہ پوچھنے کے لیے مجھے معاف کریں کہ آخر ’جنگ‘ لفظ کی ان کی تعریف کیا ہے، کیونکہ وہ یوکرین کے ضمن میں اس لفظ کے استعمال سے انکار کرتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ کہہ دینے سے سستے روسی تیل کی فراہمی خطرے میں پڑ جائے گی؟ وہ اپنے اس رخ پر بضد ہیں کہ یوکرین میں جو ہو رہا ہے وہ جنگ نہیں بلکہ ایک ’بحران‘ ہے۔
مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جب دو ملک ایک سال سے بھی زیادہ وقت سے آپس میں لڑ رہے ہوں، جب دونوں طرف کے لاکھوں لوگ مارے جا رہے ہوں، جب ہر روز ہزاروں ٹن گولہ بارود داغے جا رہے ہوں، جب ایک ملک دوسرے کے فوجی بنیادی ڈھانچے کو منظم طریقے سے نیست و نابود کر رہا ہو، جب 50 لاکھ لوگ پناہ گزیں بنا دیئے گئے ہوں، اسے ’جنگ‘ ہی کہا جانا چاہیے۔
کیا ہمارے وزیر خارجہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم اس سیارہ کی افسوسناک تاریخ کی سبھی مبینہ جنگوں کا نام بدل کر ’بحران‘ رکھ دیں؟ مثلاً 1962 کا ہند-چین بحران، پہلا عالمی بحران (18-1914)، دوسرا عالمی بحران (45-1939)، ویتنام بحران؟ یا تو ہمارے وزیر کی تعریف کے مطابق کسی ’بحران‘ کو ’جنگ‘ قرار دیئے جانے کے لیے اور بھی خون کا بہنا ضروری ہے یا پھر وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ’جنگ‘ لفظ کی جگہ ’بحران‘ لفظ کو منظور کر لیں تو دنیا زیادہ خوشحال جگہ بن جائے گی؟ بدقسمتی سے نام کے اس کھیل میں ہمارے علاوہ بھی ایک اور طاقت شامل ہو گئی ہے جسے چین کہتے ہیں۔ اس نے حال ہی میں اروناچل پردیش میں 11 گاؤں کا نام بدل کر انھیں چینی نام دے کر یہ دعویٰ کیا کہ یہ ریاست چین کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے، اگر این سی ای آر ٹی ’ماضی کی تاریخ‘ کو پھر سے لکھ سکتی ہے تو پی ایل اے ’موجودہ تاریخ‘ کو۔ افسوس! عالمی گروپ کا ’بحران‘ دنیا کو غلط سبق پڑھا رہا ہے۔ شاید یہ مناسب وقت ہے جب این سی ای آر ٹی شیکسپیئر پر بھی نظر عنایت کرے اور گلاب کو بدل کر کمل کر دے۔
(ابھے شکلا سبکدوش آئی اے ایس افسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔