چندرابابو بھی ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں، بی جے پی کب تک اپنے اتحادیوں کو نظرانداز کرے گی؟

چندرابابو نائیڈو نے ذات پر مبنی مردم شماری کی بھرپور حمایت کی ہے۔ بی جے پی حکومت اپنے اتحادیوں کے تعاون سے چل رہی ہے اور ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بی جے پی کب تک اس مطالبے کو نظرانداز کرتی رہے گی؟

<div class="paragraphs"><p>نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈو، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈو، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

گزشتہ چند سالوں میں ہندوستان میں ذات پر مبنی مردم شماری کی مانگ نے کافی زور پکڑا ہے۔ مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیاں مسلسل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی قیادت میں چلنے والی مودی حکومت پر اس معاملے کو لے کر تنقید کرتی رہی ہیں۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں بھی اس اہم مسئلے کو شامل کیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ مودی حکومت اور بی جے پی جان بوجھ کر ذات پر مبنی مردم شماری کو نظرانداز کر رہی ہے۔

ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت کرتے ہوئے کانگریس کا مؤقف ہے کہ اس سے سماج میں وسائل اور سرکاری نوکریوں کی تقسیم کو بہتر سمجھنے میں مدد ملے گی اور یہ پسماندہ اور محروم طبقوں کے لیے پالیسی سازی میں معاون ثابت ہوگی۔

چاندرابابو نائیڈو کی حمایت

مودی حکومت کی اتحادی جماعتوں میں شامل تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے سربراہ اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چاندرابابو نائیڈو نے حال ہی میں ذات پر مبنی مردم شماری کی کھل کر حمایت کی ہے۔ انہوں نے ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ذات پر مبنی مردم شماری ضروری ہے، اس کے بارے میں سماج میں ایک واضح جذبہ ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔‘‘ نائیڈو نے مزید کہا کہ مردم شماری کے ذریعے اقتصادی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور معاشرتی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے حکومتی پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔

چاندرا بابو نائیڈو نے یہ بھی کہا کہ ’’غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر آپ کا تعلق کسی کمزور طبقے سے ہے لیکن آپ کے پاس دولت ہے تو سماج آپ کی عزت کرے گا۔ اگر آپ کسی اعلیٰ ذات سے ہیں اور آپ کے پاس دولت نہیں ہے تو سماج آپ کی عزت نہیں کرے گا۔‘‘


چاندرابابو نائیڈو کی قیادت میں ٹی ڈی پی نے اس سال آندھرا پردیش اسمبلی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے بی جے پی اور پون کلیان کی جماعت جنا سینا پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے 164 میں سے 135 سیٹیں جیتیں، جب کہ بی جے پی کو 8 اور جنا سینا کو 21 سیٹیں ملیں۔

بی جے پی کے اتحادیوں کا مؤقف:

بی جے پی کی حکومت جن جماعتوں کے تعاون سے چل رہی ہے، ان میں زیادہ تر جماعتیں بھی ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔ مثال کے طور پر لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے سربراہ اور مرکزی وزیر چِراغ پاسوان نے ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح، اتر پردیش میں بی جے پی کی اتحادی جماعت اپنا دل (سونے لال) کی سربراہ اور مرکزی وزیر انوپریا پٹیل بھی اس مسئلے کو کئی بار اٹھا چکی ہیں۔

بی جے پی کی اہم اتحادی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) تو پہلے ہی بہار میں ذات پر مبنی سروے کروا چکی ہے۔ مرکزی حکومت میں اتحادی جے ڈی یو ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں رائے بھی پیش کر چکی ہے۔

آر ایس ایس کا مؤقف

ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملے پر آر ایس ایس کا مؤقف ہمیشہ سے مبہم رہا ہے لیکن حالیہ دنوں میں آر ایس ایس بھی اس مسئلے کے حق میں نظر آیا ہے۔ آر ایس ایس کے قومی پرچار کے سربراہ سنیت آمبیکر نے ذات پر مبنی مردم شماری کو ایک ’حساس مسئلہ‘ قرار دیا اور کہا کہ حکومت اگر پسماندہ طبقات کی فلاح کے لیے مردم شماری کرنا چاہے تو یہ ایک مثبت قدم ہوگا۔ اس بیان کے بعد اسے آر ایس ایس کی جانب سے ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت کے طور پر دیکھا گیا۔

روہنی کمیشن کی رائے

مودی حکومت نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں پسماندہ طبقات (او بی سی) کی ذیلی درجہ بندی کے لیے روہنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس کمیشن کے ایک رکن، جی کے بجاج نے حالیہ دنوں میں ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مردم شماری سے سماجی و اقتصادی مسائل کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔


بی جے پی کا متذبذب مؤقف

بی جے پی نے ذات پر مبنی مردم شماری کا کھل کر مخالفت تو نہیں کی ہے لیکن وہ اس مسئلے پر عملی اقدامات کرنے سے بھی گریزاں نظر آتی ہے۔ حالیہ برسوں میں بی جے پی کو اپنے کئی فیصلوں پر اپنے اتحادیوں کے دباؤ میں آ کر پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ اس کی مثالیں بجٹ میں انڈیکسیشن کے معاملے یا وقف بل پر دیکھنے کو ملی ہیں۔

ذات پر مبنی مردم شماری کیوں ضروری ہے؟

مردم شماری کے اعداد و شمار ملک میں مختلف پالیسی سازی اور حکومتی فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا استعمال حکومت، صنعتیں، اور تحقیقی ادارے کرتے ہیں۔ ذات پر مبنی مردم شماری سے سماج کے مختلف طبقوں کے وسائل تک رسائی کو بہتر سمجھا جا سکتا ہے۔

بی جے پی کی حکومتی حیثیت

حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اپنے دم پر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اسے حکومت بنانے کے لیے ٹی ڈی پی، جے ڈی یو اور دیگر اتحادی جماعتوں کی حمایت درکار تھی۔ ایسے حالات میں جب بی جے پی کے تقریباً تمام حلیف ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں ہیں، حکومت اس مطالبے کو نظرانداز کرتی رہے گی، یہ دیکھنا اہم ہوگا۔

اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو بی جے پی کے پاس لوک سبھا میں 240 سیٹیں ہیں، جو کہ 272 کے اکثریتی اعداد و شمار سے 32 سیٹیں کم ہیں۔ اس لیے اسے 16 ٹی ڈی پی اور 12 جے ڈی یو ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ ایل جے پی اور اپنا دل جیسی پارٹیوں کا سہارا لینا پڑا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔