نتیجہ کچھ رہا ہو، پھر بھی کانگریس اور ملک کا مستقبل راہل گاندھی ہی ہیں
راہل گاندھی نہ صرف ہندوستان کے مستقبل کے حوالہ سے آواز اٹھاتے رہے ہیں بلکہ انہوں نے مضبوطی اور خود اعتماد کے ساتھ نریندر مودی کو چیلنج بھی دیا۔
حقیقی رہنما وہ ہوتا ہے جو جس ہدف کو لے کر گامزن ہو اسے کبھی نہ چھوڑے اور ابتدائی طور پر کچھ دشواریاں بھی آجائیں تو بھی بہادری کے ساتھ ڈٹا رہے۔ کچھ رہنماؤں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ان کی محنت کے پھل اس وقت آتے ہیں جب وہ منظر عام سے جا چکے ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شجرکاری کس نے کی تھی۔
کوئی رہنما پیدائشی ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس سطح تک پہنچے کے لئے اسے تیاری کرنی پڑتی ہے۔ ایسی شخصیت جس میں دہشت کے طوفان کا سامنا کرنے، بہاؤ کے مخالف تیرنے اور آخر کار ایک بہتر تاریخ کی بنیاد رکھنے کا مادہ ہوتا ہے۔
یہ سب کرنے کے سلسلہ میں اس شکص کو تضحیک اور تلخ تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کوئی غلط شخص اگر تبدیلی کا جو ایجنڈہ طے کرتا ہے تو اسے آخر میں ناکام ہونا ہی ہوتا ہے لیکن ایک حقیقی رہنما کھڑا رہتا ہے کیونکہ اس کو اپنے ہدف اور خود پر یقین ہوتا ہے۔ ایسے رہنماؤں کے بارے میں مہاتما گاندھی نے کہا تھا، ’’پہلے وہ آپ پر ہنسیں گے، پھر آپ کا مذاق اڑائیں گے۔ پھر آپ پر حملہ کریں گے اور پھر آپ جیت جائیں گے۔ ‘‘
حالانکہ راہل گاندھی کو ابھی طویل راستہ طے کرنا ہے۔ پھر بھی انتخابی تشہیر کی بھدی الزام تراشیوں کے غبار میں اگر کوئی ہیرو بن کر نکلا ہے تو وہ ہیں راہل گاندھی۔
لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے پرے ہو کر بات کریں تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ راہل کا زور طویل مدتی مثبت تبدیلیوں پر رہا جن سے لوگوں میں امید جاگتی ہے۔ ہندوستانی سیاست کا مرکز بی جے پی سے دور کھسکنا شروع ہوگا۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور اکثریتی قوم پرستی کو فروغ دینے والی طاقتیں، جن کا ہدف ہندوستانی فکر کو ختم کر کے سیکولر ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر میں بدلنے کا ہے، وہ کمزور ہونے جا رہی ہیں۔ جن قوتوں نے جمہوری اداروں پر زبردست حملے کرنے شروع کر دیئے ہیں اور ایسا کر کے انہوں نے ایک طرح سے ہمارے آئین کے بنیادی ستونوں پر ہی حملے کیے ہیں انہیں سخت چیلنج ملنے جا رہا ہے۔
وزیر اعظم مودی کی اکڑ اور جنون سے بھری سیاست اور حزب اختلاف سمیت اپنی پارٹی کے بزرگوں کی بے عزتی کرنے کا رویہ سوالوں سے پرے نہیں رہ سکتا۔
راہل گاندھی نہ صرف ہندوستان کے لحاظ سے ضروری تبدیلیوں کو آواز دیتے رہے ہیں بلکہ وہ اس کے اہم پیروکار رہے ہیں۔ کانگریس کے اس نوجوان صدر نے جس مضبوطی اور خود اعتماد کے ساتھ مودی کو چیلنج دی، اتنا کسی اور نے نہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انتخابی بحث کو گھٹیا سطح تک لے جانے میں انہوں نے نریندر مودی یا پھر بی جے پی میں اپنے ہم منصب امت شاہ کے ساتھ کبھی ہوڑ نہیں کی۔ ان کی اپنی پارٹی کے کسی ساتھی نے جب بھی قابل اعتراض بات کی، انہوں نے عوامی طور پر اس کی مذمت کرنے میں دیر نہیں کی۔
یہ نظریہ پر چلنے والے اور بڑے فیصلہ لینے والے ایک رہنما کی پہچان ہوتی ہے اور اس صفت کی وجہ سے راہل کا مستقبل بہتر ہونا طے ہے۔ اس کے برعکس مودی نے دہشت گردی کا الزام جھیل رہی پرگیہ ٹھاکر کو بھوپال سے لوک سبھا کا امیدوار بنا کر اخلاقی طور پر سمجھوتہ کر لیا اور اس فیصلہ کے تئیں ملک بھر میں غصہ ہے۔ مودی نے اپنے اس فیصلہ کا ایک ٹی وی انٹر ویو میں بچاؤ بھی کیا۔ جب اس خاتون (جو کسی بھی زاویہ سے سادھوی کہلانے کے قابل نہیں) نے ممبئی میں 26/11 کو پاکستان حامی دہشت گرد حملہ میں شہید ہونے والے ہیمنت کرکرے کو حب الوطن قرار دیا تو اس کے خلاف مودی بولے لیکن ان میں سچائی نہیں دکھی۔
مودی نے خود کو پرگیہ ٹھاکر کے خلاف اپنے رد عمل کی ایمانداری پر شبہ کرنے کی گنجائش چھوڑ رکھی ہے، اس کی وجہ صاف ہے کہ بڑے ہی جارحانہ طریقہ سے بولنے والے مودی کا حامی گروپ بھی اس مسئلہ پر مودی سے زیادہ پرگیہ سے متفق ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کبھی گاندھی جی اور ان کے اقدار کے خلاف اتنی نفرت نہیں دیکھی گئی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مودی کے دور اقتدار میں گوڈسے کی اتنی کھل کر حمایت کی جاتی رہی۔ ہندو-مسلم اتحاد کا تصور گاندھی کی زندگی کا اصول رہا لیکن یہ خیال ہمیشہ سے ہی سنگھ پریوار کے نشانہ پر رہا۔
مودی اور راہل کی تشہیر میں بھی کافی بڑا فرق رہا۔ مودی انتخابی جلسوں سے لے کر میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں اپنے بارے میں ہی زیادہ بولتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ہی انٹرویو دیئے اور یہ یقینی بنایا کہ ان سے چبھتے سوال نہ کیے جائیں۔ جبکہ راہل نے تشہیر سے جڑے مقامات پر ہی میڈیا کا سامنا کیا اور صحافیوں کو کچھ بھی پوچھنے کی آزادی دی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ میڈیا سے راہل کی بات چیت میں کچھ بھی فرضی نظر نہیں آتا لیکن مودی کے ساتھ ایسا کچھ نہیں رہا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ بھی فرق رہا کہ راہل نے انتخابات کے دوران تمام پریس کانفرنسوں سے خطاب کیا جبکہ مودی نے ایک سے بھی نہیں کیا۔ واحد پریس کانفرنس جس میں مودی موجود رہے، اس میں بھی انہوں نے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
راہل نے اس کے علاوہ اپنی تشہیر میں عام اور ملک کے حقیقی ایشوز کو اٹھایا۔ انہوں نے روزگار کے بحران، کسانوں کی بدحالی، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے برے اثرات، جمہوری اداروں کے غلط استعمال اور انتخابی فائدہ کے لئے مسلح افواج پر سیاست جیسے ایشوز اٹھائے۔ بہرحال، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ راہل گاندھی کے طور پر ہندوستان کو ایک نئے طرح کا رہنما ملا ہے۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ راہل گاندھی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران نفرت کی کاٹ کے لئے پیار کو پیش کیا۔
راہل گاندھی کا اپنی کاوشوں میں کامیاب ہونا آسان نہیں لیکن مہاتما گاندھی کی وراثت کو بچانے کا دعوی کرنے والی پارٹی کو اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر میں ایک جملہ میں کہوں تو وہ یہی ہوگا کہ راہل کی قیادت کی وجہ سے ہی کانگریس کا مستقبل روشن ہے اور اسی وجہ سے ہندوستان محفوظ ہے۔
(مضمون نگار سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے قریبی معاون رہے ہیں۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔