رام کے نام پر ایودھیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہاں رام کم مودی جی زیادہ نظر آ رہے!
’’بدقسمتی سے ہندوتوا کے ایجنڈے کو چلانے والے وزیر اعظم مودی ایک پسماندہ ذات میں پیدا ہوئے۔ مودی جی کی نظریاتی پرورش سنگھ میں ہوئی اور سنگھ ملک کے آئین اور جمہوریت میں یقین نہیں رکھتا‘‘
ہندوتوا اور رام مندر پسماندہ، دلت اور محروم طبقے کی جانب سے سماجی انصاف کی تحریک کے ذریعے حاصل کامیابیوں کو مٹانے کی سازش ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہندوتوا کے حامیوں کے اس ایجنڈے کو چلانے والے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی ایک پسماندہ ذات میں پیدا ہوئے ہیں۔ مودی جی کی نظریاتی پرورش راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں ہوئی۔ سنگھ ملک کے آئین اور جمہوریت میں یقین نہیں رکھتا۔ اس کا ثبوت ہم ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر میں دیکھ رہے ہیں۔ آدھے تعمیر شدہ مندر میں ’پران پرتشٹھا‘ کے مجوزہ جشن میں مودی حکومت بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سرکاری وسائل کا استعمال کر کے آئین کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ ان کا مذہب اور مسلک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوگوں کو سماج میں نفرت پھیلانے کی سمت لے جانا اور ’مریدا پرشوتم رام‘ کے نام پر پرتشدد ماحول پیدا کرنا مذہب کا کام نہیں ہے، یہ جھوٹ اور فریب ہے۔ ایودھیا یا رام مندر ان کا مذہبی مقصد نہیں ہے، بلکہ ہر طرح سے ناکام حکومت کے لوگوں کا رام اور مندر کی مدد سے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا ایک سیاسی انوشٹھان (رسم) ہے۔ آدی شنکراچاریہ کے قائم کردہ چار پیٹھ ہیں، آج بھی عام ہندو کے لیے چار دھام کی یاترا کو نجات حاصل کرنے کے راستے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ چاروں دھاموں کے شنکراچاریوں نے ایودھیا میں مذہب کے نام پر چل رہی سیاسی رسومات سے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔ کیا بی جے پی انہیں بھی ہندو مخالف قرار دینے کی ہمت دکھا سکتی ہے؟
ہمارا آئین سیکولر ہے۔ مذہب کسی فرد یا گروہ کا ذاتی معاملہ ہے۔ کسی بھی گروہ یا فرد کو آئینی حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے گروہوں کے عقیدے کو ٹھیس پہنچائے بغیر اپنے عقیدے کے مطابق اپنے مذہب کے رسم و رواج پر عمل کرے۔ ان حقوق کو یقینی بنانا حکومتوں کی آئینی ذمہ داری ہے۔
وزیر اعظم ذات پات کی مردم شماری اور ترقی کے دھارے میں چھوٹ جانے والے گروہوں کی ترقی کے لیے خصوصی کوششوں کو ملک کے لیے تفرقہ انگیز سمجھتے ہیں۔ وہ ہندوستانی سماج کی ایک نئی درجہ بندی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ صرف چار طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ نوجوان، خواتین، کسان اور غریب۔ یہ تقسیم ذات پات میں بٹے ہوئے ہمارے ہندو سماج کے محروم گروہوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے خصوصی مواقع کے اصول کے تحت ریزرویشن فراہم کرنے کے آئینی اصولوں کی نفی کرتی ہے۔ درحقیقت ہمارے وزیر اعظم ہندوتوا لوگوں کے ایجنڈے کو کسی بھی طریقے سے پورا کرنا چاہتے ہیں۔
مودی کے دور حکومت میں جن چار گروہوں کی نئی سماجی درجہ بندی وزیر اعظم پیش کر رہے ہیں ان کی کیا حالت ہے؟ یہاں ہم صرف ایک خواتین کے گروپ کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں عورت کی حیثیت کو اس معاشرے کی تہذیب کا امتحان سمجھا جاتا ہے۔ اس کسوٹی پر ہمارے وزیر اعظم کے وژن اور پالیسیوں کو بلا شبہ ناقص کہا جا سکتا ہے۔ بلقیس بانو کیس میں گجرات حکومت کے طرز عمل پر سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ گجرات حکومت نے سپریم کورٹ سے جھوٹ بول کر اور حقائق چھپا کر قصورواروں کو جیل سے رہا کرایا۔ جس طرح 2002 میں گجرات میں تشدد ہوا تھا، وہ غیر معمولی تھا۔ بلقیس کے خاندان کے بارہ افراد کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ اس کی عصمت دری کی گئی۔ یہ سب کچھ باہر والوں نے نہیں بلکہ محلے کے لوگوں نے کیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اس کیس کی سماعت گجرات کے باہر مہاراشٹر میں ہوئی۔ تمام ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ان سب کو گجرات حکومت نے حقائق چھپا کر اور سپریم کورٹ کے سامنے جھوٹ بول کر رہا کرا دیا۔ جیل سے باہر آنے والوں کا پھولوں کے ہاروں سے استقبال کیا گیا۔ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ ان کی رہائی پر ایک بی جے پی ایم ایل اے نے کہا کہ ان میں سے کچھ برہمن ہیں اور اچھی اقدار رکھتے ہیں۔ گجرات میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ایک مجرم کی بیٹی کو اسی علاقے سے امیدوار بنایا تھا جہاں بلقیس کا واقعہ ہوا تھا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے ان مجرموں کی رہائی منسوخ کرنے کے حکم نے مودی جی کی سیاست کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اسی طرح خواتین پہلوانوں کا معاملہ بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ آخر حکومت کس کے ساتھ کھڑی ہے؟ مودی جی کی حکومت نے دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ طبقات اور خواتین کے ریزرویشن کو ختم کرنے کی طرف قدم اٹھایا ہے۔ مودی جی کے پیچھے ہندوتوا طاقتیں مضبوطی سے کھڑی ہیں اور رام اور مندر کے نام پر ایودھیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں رام کم اور اپنے مودی جی زیادہ نظر آ رہے ہیں۔
(مضمون نگار شیوانند تیاری آر جی ڈی کے قومی نائب صدر اور راجیہ سبھا کے سابق رکن ہیں۔ قوم آواز کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔