آج ہم کس تاریک دور کا مشاہدہ کر رہے ہیں... حمرا قریشی
اسرائیل کے تعلق سے جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے دور میں جو موقف اختیار کیا گیا تھا، موجودہ حکومت کا رویہ اس سے بہت مختلف ہے
دیکھیے، آج ہم کس قدر زوال کے شکار ہو گئے ہیں... حکومت ہند کا اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف واضح جھکاؤ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسرائیل کی طرف یہ جھکاؤ 2014 سے زیادہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔
اسرائیل کے تعلق سے جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے دور میں جو موقف اختیار کیا گیا تھا، موجودہ حکومت کا رویہ اس سے بہت مختلف ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ مغربی ایشیا کے حوالے سے جواہر لال نہرو کے نظریات اور پالیسیوں نے پوری عرب دنیا کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف کر دیا تھا۔ وہ مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے بارے میں اپنے موقف کے بارے میں بہت واضح تھے، جس کی وجہ سے عربوں اور مغربی ایشیائی ممالک ہندوستان کے مضبوط اتحادی بن گئے۔ آج نہرو کے نظریات کا دور دور تک پتہ نہیں ہے، نتیجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ ہندوستان کے روابط کے نشان کم ہی نظر آ رہے ہیں۔
میں نے ہندوستان میں فلسطینی سفیروں کی کئی پریس کانفرنسوں میں شرکت کی ہے، جہاں دیکھا ہے کہ کس طرح فلسطینی سفیر ہندوستانی عوام کے درمیان جذبات کا ایک سمندر پیدا کرتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب اندرا گاندھی نے نئی دہلی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے لیے ایک وسیع استقبالیہ کا اہتمام کیا تھا، اور وہاں فلسطینی رہنما نے انتہائی گرمجوشی کے ساتھ انھیں گلے لگایا تھا۔ اندرا گاندھی کے دفتر نے اس وقت متوسط طبقہ کے مسلم اشخاص کو بھی دعوت نامہ بھیجا تھا۔ یقیناً وہ ایسے دن تھے جب کوئی سیکورٹی فوبیا نہیں تھا، کوئی نمائشی اور تشہیر کرنے والی بیان بازی نہیں تھی۔ وہ دراصل حکومت ہند کے فلسطین کے ساتھ قریبی تعلقات کا مرحلہ تھا۔
مجھے وہ تقریب بھی یاد آ رہی ہے جو پرتھوی راج روڈ پر واقع ایک عالیشان بنگلے میں منعقد ہوئی تھی اور عراقی سفیروں نے بہترین مہمان نوازی کی تھی۔ یہ عالیشان بنگلہ پنڈت جواہر لال نہرو نے 1950 کی دہائی میں ہندوستان میں تعینات پہلے عراقی سفیر کو بطور تحفہ پیش کیا تھا۔ لیکن تب عراق واقعی عراق تھا۔ وہ وقت تھا جب عراق کے قومی دن اور دیگر اہم تقاریب میں استقبالیہ کا ایک سلسلہ دکھائی دیتا تھا، جس میں عراقی دانشوروں، مدیروں، مصنفین وغیرہ عراق سے نئی دہلی تک پرواز کرتے نظر آتے تھے۔ ایک بہترین ماحول تب تک دیکھنے کو ملا جب تک کہ کچھ ممالک نے عراق کے معاملوں میں مداخلت نہیں کی۔ امریکی اور اس کے اتحادی افواج نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاشی کے نام پر عراق کو ایک طرح سے برباد کر دیا، اور باہری افواج ان ہتھیاروں کو تلاش کرنے میں کامیاب بھی نہیں ہو سکے۔ اس صورت حال نے عراقی زمین، اس کے تانے بانے، وہاں کی عوام اور ایک قدیم تہذیب کو تباہ کر دیا۔
موجودہ وقت میں کئی عرب ممالک بقا کی جنگ لڑتے نظر آ رہے ہیں۔ انھیں باہر سے اسپانسر شدہ دراندازوں کے ہاتھوں تباہ کیا گیا ہے۔ ان دراندازوں نے قدیم مغربی سازش کا طریقہ اختیار کر عرب ممالک میں خانہ جنگی جیسی صورت حال پیدا کر دی۔ وہ مقامی برادریوں کو ایک دوسرے سے لڑا رہے ہیں، انھیں مارنے اور تباہ کرنے پر اکسایا جا رہا ہے۔
دیکھیے، آج ہم کس تاریک دور کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو اس قدر بے دردی کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے، پھر بھی اس نسل کشی پر کسی طرح روک کی صورت نظر نہیں آ رہی!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔