طنز و مزاح: میرا سینا چھپن انچ نہیں ہے اس لئے میں بھی ’غدار‘ ہوں
ہم غدار ہیں کیوںکہ ہم ایسے وقت میں سوال پوچھتے ہیں جب ملک بھی تمہارا، حکومت بھی تمہاری اور جمہوریت بھی تم نے اپنے نام لکھوا لی، ہم ایسے محب وطن نہ تھے اور نہ رہیں گے۔
ہم سر عام یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم بھی بہتوں کے لئے آج کل ’غدار وطن‘ ہیں۔ ہم ’مودی چھاپ محب وطن‘ ہو ہی نہیں سکتے، اس لئے ’حب الوطنی‘ ان کے اور ’غداری‘ ہمارے حوالے! ایسے ’محب وطن‘ ہی وزیر اعظم کی شان میں نعرے لگا سکتے ہیں جو پلوامہ میں دہشت گردانہ حملہ کی خبر سن کر بھی جِم کوربیٹ پارک میں فلم کی شوٹنگ جاری رکھتے ہیں۔ یہی لوگ ایسے گورنر کی ’قوم پرستی‘ کے بوجھ کو خاموشی سے برداشت کر سکتے ہیں جو ملک بھر میں کشمیریوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتا ہے۔
40 سے زیادہ جوانون کی شہادت کو بھنانا ان ’محب وطنوں‘ کو ہی آتا ہے۔ جوانوں کے مارے جانے پر ’حب الوطنی‘ کی دکان چلانا انہیں ہی زیب دیتا ہے! ان کے اہل خانہ روئیں اور یہ حب الوطنی کا بھانگڑا کریں کہ ’واہ مودی ویر، تونے پھر زبردست کمال کر دیا، دیش بھکتی کا میدان مار لیا، اپوزیشن کو چاروں خانہ چت کر دیا! ‘ ایسے محب وطنوں کو ہم جیسے تمام لوگوں کی طرف سے دور ہی سے سلام!
اے محب وطنوں ہم تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتے، تم جگہ جگہ سے کشمیری طلبا کو بھگا سکتے ہو، انہیں دہشت زدہ کر سکتے ہو، قتل کرنے کی دھمکی دے سکتے ہو، ہم اس جنم میں یہ سب نہیں کر سکتے۔ ہم مسلمانوں کو گالی دینے والے، مسجد پر زعفرانی جھنڈا لہرا کر حب الوطنی کی نمائش کرنے والے محب وطن نہیں ہو سکتے۔ جو مصنف-صحافی آج اس حب الوطنی کی پول کھول رہے ہیں، جنہیں ماں-بہن کی گالیاں دینے سے لے کر مار ڈالنے کی دھمکیاں یہ محب وطن دے رہے ہیں، ہم بھی تو انہیں کی ذات کے، ان کے ہی چھوٹے-موٹے بھائی بند ہیں۔ اس لئے ہم بھی غدار ہیں۔ ہم وہ غدار ملک ہیں جنہوں نے 2014 میں بھی مودی کو ووٹ نہیں دیا تھا اور 2019 میں بھی نہیں دیں گے۔ تو محب وطنوں! تمہیں تمہاری یہ حب الوطنی اور ہمیں ہماری غداری مبارک، ایک مرتبہ نہیں، سو اور ہزار مرتبہ مبارک۔
محب وطنوں جس دن سے تم ’دیس بھگت‘ ہو گئے اس دن، اس وقت، اس لمحہ ہم نے یہ سمجھ لیا کہ اب ہمارے حب الوطن ہونے کا وقت جا چکا ہے، کچھ وقت کے لئے ان کا وقت آ چکا ہے! ہم نے جان لیا کہ ہم اب غدار ملک ہو چکے ہیں، کیونکہ ہم میں تو کسی کا بھکت ہونے کی اولین قابلیت ہی نہیں ہے۔ ارے جب بھگوان کے بھگت نہیں ہو پائے تو بتاؤ کسی مودی، کسی شاہ کے بھگت کیسے ہوں؟ ہم مصنفین کے عزداد کو رویندر ناتھ ٹیگور جیسے مصنف تھے، جو مہاتما گاندھی کی قوم پرستی پر انگلی اٹھاتے تھے۔ اب بتاؤ کس عمل سے ہم تمہاری اوچھی، نقلی اور ڈھنوگی قوم پرستی قبول کریں!
اور اے قوم پرستوں! ہم اس لئے بھی غدار ہیں کہ ہم سنگھ کے نظریہ کو حب الوطنی نہیں مان پائے۔ ہم غدار ہیں کہ تمہارے اندھا دھند پرچار (تشہیر) کے باوجود ہم اروندھتی رائے، پرشانت بھوشن، کنہیا کمار وغیرہ کو غدار نہیں مان پائے! ان کے تئیں ہمارے دل میں جو عزت ہے، اسے تم اپنی حب الوطنی کے ہزاروں ہتھیاروں کی پوجا سے پیدا نہیں کر پائے!
اے حب الوطنوں! ہم وہ ہیں جو جواہر لال نہروں کو بھی مانتے ہیں اور ان کے نام پر دہلی میں جو یونیورسٹی ہے اسے غداروں کا اڈا نہیں بلکہ ملک کی بہترین یونیورسٹیوں میں مانتے ہیں، ہم بھگت سنگھ کی اگر بتی لگا کر آرتی نہیں اتارتے، انہیں پھانسی کے پھندے پر جھول جانے والے محب وطن کے طور پر استعمال نہیں کرتے۔ ہم ان کے بارے میں، ان کے لکھے کو پڑھتے ہیں اور 24 سال کے اس نوجوان کا انقلاب اور ان کے مطالعہ کے قائل ہیں۔
میرے پسندیدہ مضامین میں سے ایک بھگت سنگھ کا مضمون ہے ’’میں ناستک (مرتد) کیوں بنا ‘‘ جو تم نے نہیں پڑھا ہوگا۔ پرھنے کی عادت اور برداشت ہو تو ’اے محب وطن ‘ اسے پڑھ لینا۔ اس سے تمہیں پتہ چل جائے گا کہ بھگت سنگھ ’سنگھی‘ نہیں بلکہ ان کا تعلق بائیں محاذ سے تھا۔ وہ تم جیسے محب وطن سے نفرت کی سوداگری کے حامی نہیں بلکہ سخت مخالف تھے۔ پڑھ لو گے تو دیوار سے سر پھوڑ لو گے یا ’مودی بھکت۔ دیش بھکت ‘ نہیں رہو گے۔
ہم ’غدار‘ ہیں کیونکہ ہم گائے یا بھینس کا دودھ چائے کے ساتھ پیتے ہیں مگر نہ گائے ہماری ماتا ہے اور نہ بھینس ہماری خالہ۔ ہمیں گائے ایک پیارا جانور اور بھینس ایک سیدھا سادا جانور لگتا ہے۔ ہم جیسے لوگ بھینس پالنے والے ہوتے تو شائد گائے کے بجائے بھینس کی حمایت لینے والی پارٹی کو ووٹ دیتے حالانکہ گئو ماتا نے بھینس خالہ کی پارٹی نہیں بننے دی۔ ویسے بھی ہم میں سے اکثریت نے گائے کے بجائے بھینس کا دودھ زیادہ پیا ہوگا بلکہ گائے کے نام پر بھی پانی ملا بھینس کا دودھ ہی پیا ہوگا۔
ہم ’غدار‘ ہیں کیونکہ ہم اس بھیڑ کے ساتھ کبھی کھڑے نہیں ہوئے جس نے اخلاق کی جان لی اور نہ ہم نے خونی رتھ یاترا میں حصہ لیا۔ ہندوستان میں اتنے رام اور اتنے ہنومان مندر ہیں کہ ایک اور مندر کی ضرورت ہم نے محسوس نہیں کی۔ ایک اور مندر نہ بنے اس سے ہم جیسوں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس ملک میں اتنے مندر ہیں کہ جتنے آسمان میں تارے ہیں۔
ہم اس لئے ’غدار‘ ہیں کیونکہ ہم کسی ذات کی حمایت میں مذہب کے نام پر کھڑے نہیں ہو سکتے، چاہے وہ ہندو ہو یا اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے اور اس کا جھنڈا اٹھاکر فخر سے سر نہیں اٹھا سکتے۔ جنہوں نے کٹھوعہ کی 8 سالہ بچی کے ساتھ عصمت دری کی اور جو وکیل اور زانیوں کے ساتھ کھڑے تھے ہم ان کے ساتھی، ان کے ہمدرد، ان کے ہم پیالہ، ہم نوالہ نہیں ہو سکتے۔
ہم ’غدار‘ ہیں کیونکہ ہم اس ملک میں رہ کر ایسی باتیں کرتے ہیں جبکہ ملک بھی آج کل تمہارا ہے، حکومت بھی تمہاری ہے اور جمہوریت بھی تم نے اپنے نام کروا لی ہے جس میں سوال پوچھنا جرم ہے۔ ہم ایسے ’محب وطن‘ نہ تھے جو پلوامہ معاملہ میں خون کا بدلہ خون کا نعرہ لگاتے، چاہے تم ہمیں بزدل ہی کیوں نہ کہو۔ ہمیں بزدل کہلانا منظور ہے لیکن زانی اور قاتل کہلانا منظور نہیں۔ دوسروں کی نہیں جانتا لیکن میں نے کئی مرتبہ خود کا سینا ناپ کر دیکھا ہے کہ وہ چھپن انچ کا نہیں ہے اس لئے میں بھی ’غدار‘ ہوں۔ حالانکہ سینے کا ناپ اور حب الوطنی کا کیا تعلق یہ مجھے نہیں علم اور یہ جاننے کی کوئی خواہش بھی نہیں کہ چھپن انچ والے کا سینا کتنے انچ اور کتنے سینٹی میٹر کا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔