ٹرمپ کی جیت سے ہندوتو وادی عناصر خوش مگر...
گزشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے۔ انتخابی جائزوں میں دونوں امیدواروں میں سخت مقابلہ دکھایا جا رہا تھا، مگر ٹرمپ نے کملا ہیرس کو بھاری اکثریت سے شکست دی
گزشتہ دنوں دنیا میں ایک بہت بڑا واقعہ پیش آیا۔ وہ واقعہ تھا ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ امریکہ کا صدر منتخب ہو جانا۔ پوری دنیا اس انتخاب پر گہری نظر رکھے ہوئے تھی۔ لوگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا امریکی عوام ایک خاتون کو صدر منتخب کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس سے قبل ہلیری کلنٹن بھی صدارتی انتخاب لڑ چکی اور شکست کھا چکی ہیں۔ اس بار اگر کملا ہیرس کامیاب ہو جاتیں تو امریکہ ایک نئی تاریخ رقم کر دیتا۔ لیکن امریکی عوام یہ نئی تاریخ لکھنے سے چوک گئے۔ حالانکہ انتخابی جائزوں اور رائے شماریوں میں دونوں میں کانٹے کی ٹکر بتائی جا رہی تھی۔ لیکن جب نتیجہ سامنے آیا تو کانٹے کی ٹکر دکھائی نہیں دی۔ ٹرمپ نے کافی ووٹوں سے کملا ہیرس کو پچھاڑ دیا۔
دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ ہندوستان کی بھی اس الیکشن پر گہری نظر تھی۔ یہاں کی حکومت بھی یہ جاننا چاہتی تھی کہ اس بار وائٹ ہاؤس کا مکین کون ہوگا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ بلکہ ہندوتو وادی عناصر زیادہ اشتیاق سے اس الیکشن کو دیکھ رہے تھے۔ ٹرمپ اور نریندر مودی کے مزاج میں کافی مماثلت ہے اور دونوں ایک دوسرے کو دوست کہتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں مودی کے لیے ہیوسٹن میں ہاوڈی مودی پروگرام منعقد کیا تھا جس میں شرکت کے وقت مودی نے ان کے لیے ووٹ بھی مانگا تھا۔ حالانکہ ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی ایک ملک کا سربراہ کسی دوسرے ملک کے سربراہ کے لیے اس ملک میں جا کر ووٹ مانگے۔ مودی نے ہاوڈی مودی کا بدلہ احمد آباد کے مودی اسٹیڈیم میں نمستے ٹرمپ پروگرام منعقد کر کے دیا تھا۔
اسی لیے سنگھی ذہنیت کے لوگوں کو ٹرمپ کے جیتنے کا انتظار تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں تقریباً وہی ہیں جو نریندر مودی کی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایران کے سخت مخالف ہیں۔ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ اسرائیل حماس جنگ کے دوران انھوں نے ایران کے خلاف بیانات دیے ہیں۔ وہ دیگر امریکی صدور کی طرح اسرائیل کے کٹر حمایتی ہیں۔ انھوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیں گے۔ شاید اسی لیے ہندوستان میں کٹر ہندوتو وادی طبقہ ان کی جیت کا خواہاں رہا ہے۔ اس کے لیے ہون بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
حالانکہ اس الیکشن میں مسلمانوں کے تعلق سے ٹرمپ کے سُر کچھ بدلے ہوئے تھے۔ امریکہ کی ایک ریاست مشی گن کے مسلمانوں نے اجتماعی طور پر ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے۔ ان کی جیت کے بعد عرب رہنماؤں نے ان کے لیے نیک خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ اسرائیل حماس جنگ بند کرانے اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن میں اہم کردار ادا کریں گے۔ حالانکہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے ٹرمپ کی پالیسیاں کچھ ضرور بدلیں گی۔ ادھر رخصت پذیر صدر جو بائڈن کے زمانے میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے ہندوستان امریکہ تعلقات پر منفی اثر پڑا ہے۔ اب ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ٹرمپ کے زمانے میں دونوں ملکوں کی دوستی نئی بلندیوں کو سر کرے گی۔
لیکن کچھ ایسے معاملات بھی ہیں جو باہمی رشتوں میں کشیدگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت باہمی تعلقات کے سلسلے میں مواقع اور چیلنجز دونوں لے کر آئی ہے۔ جہاں ایک طرف ان کی قیادت میں تجارتی اور دفاعی شعبوں میں تعاون میں اضافے کے امکانات ہیں وہیں نئی انتظامیہ کی امیگریشن پالیسی ہندوستان کے لیے تشویش کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک طرف جہاں دونوں ملک عالمی سطح پر غیر یقینی صورت حال میں مستقبل میں مضبوط تعلقات کی طرف دیکھ رہے ہیں وہیں دوسری طرف دونوں رہنماوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی مفادات اور مشترکہ اقدار کو ترجیحی حیثیت دینے کے لیے تعمیری مذاکرات میں مشغول ہوں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب دو عالمی رہنماوں میں دوستانہ تعلقات ہوں تو اس کا فائدہ دونوں ملکوں کو ملتا ہے۔
لیکن تجارت کے معاملے میں ٹرمپ کی ’امریکہ فرسٹ‘ اور ٹیرف یعنی محصولات کی پالیسی ہندوستان کے لیے بادِ مخالف ثابت ہو سکتی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے ہندوستان کو بڑا ’ابیوزر‘ یعنی تجارتی بدسلوکی کرنے والا ملک قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ لوگ (ہندوستان) پسماندہ نہیں بلکہ بہت چالاک ہیں۔ ہندوستان برآمدات کے معاملے میں سرفہرست ہے جس کا استعمال وہ ہمارے خلاف کرتا ہے۔ لہٰذا یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر انھوں نے ٹیرف کے سلسلے میں اپنے موقف کو سخت کیا تو اس کا اثر امریکہ کو ہندوستان کی برآمدات پر پڑے گا۔ اس سے ہندوستان کے آئی ٹی شعبے، ادویات اور کپڑا صنعت اور ان کلیدی صنعتوں کے لیے چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں جو امریکہ پر انحصار کرتی ہیں۔
اس بات کا امکان ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مصنوعات کی درآمد پر جوابی محصولات عاید کرے گی، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کی شکایات پر توجہ دے گی اور ہندوستان کو حاصل برآمد کاروں کے لیے امریکہ کے ترجیحی تجارتی پروگرام ’جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنس‘ (جی ایس پی) درجے کو واپس لے لے گی۔ لہٰذا یہ اندیشہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکہ کو ہندوستان کی جانب سے 75 ارب ڈالر کی برآمدات پر بہت زیادہ محصولات عاید کر دے۔ امریکہ ہندوستان کے لیے برآمدات کا سب سے بڑا مارکیٹ ہے اور محصولات سے اس کے تجارتی تعاون کے لیے چیلنج پیدا ہو جائے گا۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو عام کر دینے کی ٹرمپ کی عادت سے بھی ہندوستان کو سبکی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں کئی مواقع پر نریندر مودی کا مذاق اڑایا تھا۔ انھوں نے 2019 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو بتایا تھا کہ وہ کشمیر مسئلے کو حل کر سکتے ہیں اور یہ کہ مودی نے ان سے ثالثی کرنے کی گزارش کی ہے۔ حالانکہ ہندوستان نے سختی سے اس کی تردید کی تھی۔ مبصرین کہتے ہیں کہ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کب کیا کہہ دیں گے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کوئی معیاری سیاست داں نہیں ہیں اور انھیں سیاسی مصلحتیں نہیں آتیں۔
ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی بھی بہت سخت ہے۔ انھوں نے اپنے پہلے دور میں اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ڈیڑھ سے دو کروڑ تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیجیں گے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کئی اقدامات بھی کیے تھے۔ امریکہ میں بڑی تعداد میں ہندوستانی شہری غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایچ ون بی ویزا کے بارے میں ان کی سخت پالیسی وہاں کام کر رہے ہندوستانی آئی ٹی ورکرز کے لیے مسئلہ کھڑا کر سکتی ہے۔ ان کے ویزے کی تجدید مشکل ہو جائے گی۔ ان کے پہلے دور میں ایچ ون بی ویزا پروگرام پر پابندیوں میں اضافہ ہوا تھا جس کی وجہ سے ہندوستان کے اسکلڈ ورکرز پر اثر پڑا تھا۔ اگر وہ پالیسی پھر جاری رہتی ہے تو آئی ٹی سیکٹر پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔
ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پریس کی آزادی کا معاملہ بھی وقتاً فوقتاً اٹھتا رہا ہے۔ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر اداروں کی جانب سے اس بارے میں تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے۔ ہندوستان انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پریس کی آزادی پر پابندی کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے اس میں کسی دوسرے ملک کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خالصتان نواز امریکی شہری گورپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی مبینہ سازش کے سلسلے میں ہندوستان کے خلاف امریکی عدالت میں چلنے والا مقدمہ بھی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
بہرحال یہ ایسے کچھ چنیدہ ایشوز ہیں جو مودی اور ٹرمپ کی دوستی کے باوجود ہند امریکہ تعلقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کی جیت کے لیے ہون کرنے اور ان کی جیت پر خوشیاں منانے والے عناصر آگے کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔