یوکرین: جنگ کا ذمہ دار روس نہیں امریکہ... ظفر آغا

اصل بات یہ ہے کہ پوتن کو امریکہ نے یوکرین پر حملے کے لیے مجبور کر دیا۔ وہ کیوں اور کیسے! اس گتھی کو سلجھانے کے لیے ذرا اس خطے کی پرانی تاریخ اور جغرافیہ کو سمجھنا ہوگا۔

بائیڈن، پوتن / تصویر بشکریہ سی این این
بائیڈن، پوتن / تصویر بشکریہ سی این این
user

ظفر آغا

امریکہ بغیر جنگ کے رہ نہیں سکتا کیونکہ امریکہ کی ہتھیار انڈسٹری کو جنگ چاہیے۔ ادھر کچھ دنوں سے دنیا میں کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ امریکن ہتھیار لابی میں کھلبلی رہی ہوگی۔ آخر روس نے امریکن ہتھیار لابی کی یہ پریشانی دور کر دی۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد محض یوروپ ہی نہیں بلکہ عالمی امن کو خطرہ پیدا ہو گیا اور ہتھیاروں کا بازار پھر گرم ہو گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یوکرین میں چل رہی جنگ کا ذمہ دار کون ہے، امریکہ یا روس! بھئی حملہ روس نے یوکرین پر کیا ہے تو پھر اس بات میں شک کیا کہ جنگ کا ذمہ دار بھی روس ہی ہے۔ لیکن ٹھہریے، یہ دلیل بھی ویسی ہی ہے کہ جیسے امریکہ نے یہ کہا تھا کہ صدام حسین امن عالم کے لیے خطرہ بن گئے ہیں لہٰذا امریکہ کا عراق پر حملہ نہ صرف جائز بلکہ امن عالم کے حق میں ہے۔ اس لیے یہ تو سمجھیے کہ آخر روس نے یوکرین پر حملہ کیا کیوں! کیا روس حملے کے لیے مجبور ہو گیا تھا، یا پھر روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو پاگل کتے نے کاٹا تھا، اور بس وہ یوکرین پر چڑھ بیٹھے۔ اس لیے پہلے ذرا جنگ کے اسباب پر غور فرمائیے۔

دنیا واقف ہے کہ اگر روس کی فوجیں اس کی اپنی سرحد کے باہر قدم رکھیں گی تو معاملہ کہیں کا ہو بات امریکہ اور روس کے بیچ ٹھن جائے گی۔ محض ان دو عالمی طاقتوں کا معاملہ ہی نہیں بلکہ پھر تو تمام مغربی دنیا ایک طرف اور روس اکیلا دوسری طرف ہوگا، جیسا کبھی سابق سوویت یونین کے وقت ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ پوتن کو اس بات کا پوری طرح اندازہ رہا ہوگا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے ساتھ ہی ان کو نہ صرف امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا اور ناٹو فوج کا سامنا کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس کے اثرات نہ صرف روس بلکہ خود پوتن حکومت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے۔ پھر بھی پوتن نے روس پر حملہ کیا۔ آخر کیوں!


اصل بات یہ ہے کہ پوتن کو امریکہ نے یوکرین پر حملے کے لیے مجبور کر دیا۔ وہ کیوں اور کیسے! اس گتھی کو سلجھانے کے لیے ذرا اس خطے کی پرانی تاریخ اور جغرافیہ کو سمجھنا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت یورپ کا بٹوارا اس دور کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان ہوا۔ مغربی یوروپ یعنی برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک امریکن کیمپ میں آ گئے اور ان کا ایک فوجی بلاک ناٹو بن گیا۔ جب کہ اس وقت کمیونسٹ سوویت یونین کے زیر اثر مشرقی یوروپ کے ممالک آئے جن کا فوجی بلاک وارسا کہلاتا تھا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے بیچ یہ ایک قسم سے معاہدہ تھا کہ ان دونوں بلاک کے بیچ وہ دونوں کوئی دخل اندازی نہیں کریں گے۔ حد تو یہ ہے کہ اس وقت یوکرین سوویت یونین کا حصہ تھا۔ لیکن سنہ 1989 میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اس میں چھوٹے چھوٹے بہت سے ضم سنٹرل ایشیائی اور مشرقی یوروپی ممالک سوویت یونین یعنی روس سے الگ ہو کر آزاد ہو گئے۔ روس کی سرحد پر یوکرین بھی ایک ایسا ہی ملک تھا جو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آزاد ہوا۔ اس طرح سوویت یونین ختم ہو گیا۔ اس کی جگہ روس نے لی اور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہو گیا۔ لیکن پھر بھی روس اور امریکہ کے درمیان یہ مفاہمت رہی کہ امریکہ یا مغربی یوروپ کی ناٹو فوجیں روس کی سرحد سے ملے مشرقی یوروپی ممالک میں داخل نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یوکرین بھی ایسا ہی ایک ملک ہے جہاں روس کو مغربی یوروپی فوجوں کا داخلہ ہمیشہ سے منظور نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ روس کی گھیرے بندی کے مترادف ہوگا۔

سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سے یہ بات چل رہی تھی۔ لیکن ابھی حال میں یوکرین میں امریکی حمایت سے ایک نئی حکومت اقتدار میں آئی اور اس کے صدر (جو ایک یہودی ہیں) نے اعلان کر دیا کہ یوکرین ناٹو یعنی مغربی فوجی بلاک کا ممبر بننے جا رہا ہے۔ بس یہ بات روس اور اس کے صدر پوتن کو منظور نہیں تھی۔ کیونکہ یوکرین کے اس فیصلے سے مغربی فوجیں روس کی سرحد تک پہنچ جاتیں اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی اور مشرقی یورپ کے درمیان جو ایک قسم کی امن برقرار رکھنے کی شرط طے کی گئی تھی وہ شرط ٹوٹ گئی۔ بس پھر کیا تھا، پوتن یوکرین کے اس اعلان کے بعد شمشیر بکف ہو گئے۔ روس نے اعلان کر دیا کہ روس کو یوکرین کا ناٹو فوجی بلاک میں داخلہ منظور نہیں۔ لیکن امریکہ کے اشارے پر یوکرین کے مغرب نواز صدر اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔ پوتن نے بھی اعلان کر دیا کہ اگر ایسا ہوا تو روس یوکرین پر حملہ کر دے گا۔ حد یہ ہے کہ روسی حملے سے دو روز قبل بھی پوتن نے ایک تقریر میں اعلان کیا کہ یوکرین ابھی بھی یہ اعلان کر دے کہ وہ ناٹو ممبر نہیں بنے گا، تو بات حل ہو جائے گی۔ لیکن امریکہ کے زیر اثر یوکرین کے صدر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ بس پھر جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب روس کی فوجیں یوکرین میں ہیں۔ امریکہ کی ہتھیار انڈسٹری کو ایک نئی جنگ مل گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت کا بازار گرم ہونے کا انتظار ختم ہو گیا ہے۔ یعنی جنگ کا ذمہ دار روس نہیں بلکہ امریکہ ہے۔ اور اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Feb 2022, 3:20 PM