نہ طلاق ثلاثہ صحیح اور نہ ہی حکومت کا آرڈیننس: ظفرالاسلام خان
مسجد فتح پوری کے شاہی امام مفتی محمد مکرم کا کہنا ہے کہ مرکزی کابینہ کے ذریعہ آرڈیننس کی منظوری مسلم عورتوں کو مِس گائیڈ کرنے والا اور سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے والا عمل ہے۔
مودی حکومت مسلم خواتین کو انصاف دلانے کے نام پر متنازعہ طلاق ثلاثہ بل جب راجیہ سبھا میں پاس نہیں کرا پائی تو اقلیتی طبقہ نے کچھ راحت کی سانس لی تھی لیکن 19 ستمبر کو مرکزی کابینہ کی میٹنگ میں جس طرح سے آرڈیننس کو منظوری دی گئی، ہنگامہ ایک بار پھر برپا ہو گیا ہے۔ پھر سے یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کہ کیا مودی حکومت واقعی مسلم خواتین کی خیر خواہ ہے، یا پھر یہ آئندہ انتخابات کے مدنظر چلی گئی سیاسی چال ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں مرکزی کابینہ کے ذریعہ طلاق ثلاثہ پر آرڈیننس کو منظوری ملنے کے بعد ایک طرف تو سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئیں اور کانگریس سمیت اپوزیشن پارٹیوں کے رد عمل سامنے آنے لگے، اور دوسری طرف مسلم تنظیمیں و قائدین چراغ پا نظر آنے لگے۔ ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اور معروف صحافی ظفرالاسلام خان نے کہا کہ ’’حکومت کو اس طرح کا قانون بنانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انھوں نے کسی بھی مسلم تنظیم، کسی مسلم ادارے، کسی بڑے عالم سے کوئی مشورہ نہیں کیا، یہاں تک کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ سے بھی مرکزی حکومت نے کوئی بات کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ طلاق ثلاثہ پوری طرح مذہبی معاملہ ہے اس لیے مسلم تنظیموں کے قائدین اور علماء سے بغیر مشورہ کیے کوئی بھی قانون بنانا غلط ہے۔‘‘
ظفرالاسلام خان نے حالانکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ تین طلاق دینا غلط روش ہے، یہ بدعت ہے۔ اس معاملے میں مسلم قوم کو اپنی اصلاح خود کرنی چاہیے۔ ہم نے اس ایشو پر غفلت سے کام لیا اور ہماری اسی ناکامی کی وجہ سے لوگوں کو بولنے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ حکومت غلط طریقے سے قانون بنائے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’جمہوری نظام کے اندر دینی معاملات میں کوئی بھی حکومت دخل اندازی نہیں کر سکتی۔ اس کو متعلقہ طبقہ سے مشورہ کرنا پڑے گا۔ ہمارے ادارے اور بڑے علماء جو بھی مشورہ دیں گے، حکومت کو اسی کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ حکومت خود سے مذہبی معاملات پر قانون نہیں بنا سکتی۔‘‘
مسجد فتح پوری، دہلی کے شاہی امام مفتی محمد مکرم مرکزی کابینہ کے ذریعہ طلاق ثلاثہ آرڈیننس کی منظوری کو مسلم عورتوں کو مِس گائیڈ کرنے والا عمل قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے ’قومی آواز‘ سے کہا کہ ’’مودی حکومت مسلم عورتوں کو مِس گائیڈ کر رہی ہے اور کچھ ایسی عورتیں جن کا کوئی دھرم و ایمان نہیں ہے، وہ اِس چکّر میں آ رہی ہیں۔ یہ آرڈیننس عورتوں کی جہالت سے فائدہ اٹھانے اور کچھ واہ واہی لینے کی کوشش بھر ہے۔ طلاق ثلاثہ پر مرکزی حکومت کے قانون کے حق میں جو خواتین سامنے آ رہی ہیں ان میں زیادہ تر کا تعلق آر ایس ایس کی تنظیم ’مسلم راشٹریہ منچ‘ سے ہے۔ سنجیدہ مسلم خواتین جانتی ہیں کہ اس آرڈیننس سے ان کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہے۔‘‘
مفتی مکرم اس سلسلے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’طلاق ثلاثہ پر حکومت کے قانون سے کیا ہوگا، ایک بار میں تین طلاق پر تو پابندی لگ جائے گی لیکن کیا ہر مہینے طلاق دینے سے روکا جا سکے گا؟ اگر مرد عورت کو طلاق دینا ہی چاہے گا تو ہر مہینے طلاق دے دے گا، پھر عورتوں کا فائدہ کیسے ہوا؟‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’ہمیں عورتوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس آرڈیننس سے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ حکومت انھیں صرف بے وقوف بنا رہی ہے۔ مسلم تنظیموں کو بھی اس سلسلے میں متحد ہو کر متفقہ طور پر مثبت اقدام کرنا چاہیے، لیکن افسوس ہے کہ مسلم تنظیمیں تو خود آپس میں انتشار کی شکار ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
- Triple Talaq
- Muslim Women
- narendra modi
- mufti mukarram
- Muslim Ulema
- BJP Politics
- Muslim Minority
- Ordinance
- Zafarul Islam Khan
- Central Cabinet
- Religious Issue