طبیہ کالج قرول باغ کی روایت تارتار...

مسیح الملک کی روح کوتڑپا رہی ہے دہلی حکومت! دعا کیجئے کہ حکومت دہلی نے جو نا اہلانہ فیصلہ لیا ہے وہ اس کو واپس لے لے اور کالج کی تاریخ ایک بار پھر اس کے ماضی سے استوار ہوجائے۔

طبیہ کالج کی فائل تصویر
طبیہ کالج کی فائل تصویر
user

قومی آواز بیورو

ڈاکٹراسلم جاوید

مسیح الملک حکیم اجمل خان رحمہ اللہ کے خون سے سینچے ہوئے چمن آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج قرول باغ پرحکومت دہلی اور محکمہ تعلیم نے خزاں طاری کردیا ہے اور یہاں صدیوں سے قائم موسم بہار دیکھنے کو اب نگاہیں ترسنے لگی ہیں۔ کبھی اسی ایک چھت کے نیچے یونانی اور آیورویدک دونوں طریقہ علاج کی تعلیم انتہائی فراخدلانہ اور سیکولرماحول میں دی جاتی تھی۔ دونوں فن علاج کیلئے ایک پرنسپل ہوا کرتے تھے اور سبھی آپس میں مل کر دونوں ہی دیسی طریقہ علاج کی افادیت سے مستفید ہوتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہاں کے تعلیم یافتہ اطباء کا وقار قابل رشک ہوا کرتا تھا، اس لئے کہ وہ یونانی اور آیورویدک دونوں طریقہ علاج کے شناور ہوا کرتے تھے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے ساتھ سیکولرزم کی صحیح معنی میں نمائندگی بھی۔ مگر شاید اب یہ ممکن نہ ہو، اس لئے کہ ایک ہی چھت کے درمیان آیورویدک اور یونانی کے لئے ایک موٹی خلیج ڈال دی گئی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اب کالج میں یونانی اور آیورویدک کے لئے الگ الگ پرنسپل کا تقرر ہوا ہے جو کالج کی سینکڑوں برس پرانی روایت کے خلاف اور دونوں طریقہ علاج کے درمیان کھائی پیدا کرنے کی ایک ناپاک سازش معلوم ہوتی ہے۔ دعا کیجئے کہ حکومت دہلی اپنے اس نااہلانہ فیصلہ کو واپس لے لے اور کالج کی تاریخ ایک بار پھر اس کے ماضی سے استوار ہوجائے۔

یہ ایک معمہ ہے جسے غیر معمولی عقل کے حامل دانشوران بھی حل کرنے سے قاصر ہیں کہ جن حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی تمام سرگرمیاں سیکولر خطوط اور پالیسیوں پر مربوط ہیں اور ملک میں رہنے بسنے والے امیر غریب، اشرافیہ و دلت اوراقلیت واکثریت سبھی کیلئے ان کے دروازے کھلے ہیں اور ان کے یہاں لسانی، طبقاتی یا کسی بھی قسم کا مذہبی بھید بھاؤ نام کو بھی نہیں پایا جاتا، مگر المیہ ہے کہ یہ سارے ہوا ہوائی دعوے کرنے والی حکومتیں علوم وفنون کو بھی مذہب اور اقلیت و اکثریت کی عینک سے دیکھنے لگی ہیں۔ آخر اس قسم کے گھناونے اقدامات کرکے یہ حکومتیں کیا پیغام دینا چاہتی ہیں، یہ ایک لاینحل معمہ ہے جسے حل کرنے سے بڑے بڑے عالی دماغ بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمہید کا مقصد ہمیں عوام الناس کی توجہ ہندو مسلم اتحاد کی علامت اور نقطہ ارتکاز باور کی جانے عظیم ہستی، جنگ آزادی کے باوقار قائد مسیح الملک حکیم اجمل خان مرحوم کے لگائے ہوئے طبی آشیانے کو اجاڑنے کی سازشوں کی طرف مرکوز کراناہے۔ یہ خونچکاں معاملہ مسیح الملک حکیم اجمل خان کے قائم کردہ طبی مدرسہ ’’آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج قرول باغ‘‘کا ہے۔ جس کے قیام کا مقصد طب یونانی سمیت اہم دیسی طریقہ علاج آیور ویدک کی تعلیم وتدریس کا انتظام بھی ایک ہی چھت کے نیچے کرنا تھا۔

مسیح الملک مرحوم نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اور دونوں دیسی طبوں کی تعلیم کی منظم دانش گاہ کے قیام کی ضرورت کیوں درپیش آئی تھی۔ اگر دہلی کی عام آدمی پارٹی سرکار، وزیر اعلیٰ اروند کجریوال اوروزیر صحت حکومت دہلی ستیندر جین اس کی تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی کرلیتے تو یقین تھا کہ ان کی آ نکھوں پر پڑی عصبیت کی پٹی اتر جاتی اور جنگ آزادی میں ہندو مسلم اتحاد کا گواہ بننے والا یہ عظیم ادارہ ان کی خطرناک متعصبانہ حرکتوں سے لہو لہان بھی نہیں ہوتا۔ چونکہ یہ لوگ اور ان کے اجداد نے ملک کی آزادی میں کوئی کردار نہیں نبھایا ہے اور انہیں یہ علم بھی نہیں ہے کہ ظالم انگریز صرف ہندوستان کو لوٹنے ہی نہیں آئے تھے، بلکہ وہ ظالم ان سبھی علوم وفنون کو نیست ونابود کردینے کی سازش پر کاربند تھے جن کا تعلق راست طور پر ہندوستان اور ہندوستانیوں کی ثقافت سے تھا۔ ظاہر سی بات ہے اس سازش کے زد میں طب یونانی، آیورویدک اور دیگر سبھی دیسی طریقہ علاج آچکے تھے، اس لئے کہ یہ تمام طریقہ ہائے علاج ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے سینکڑوں، بلکہ ہزاروں برس پہلے سے رائج اور عوام کے درمیان مقبول تھے اوران فنون کو ڈبوئے بغیر انگریز ی استبداد کے دجال اپنے زہر آلود ایلوپیتھک طریقہ علاج کویہاں رائج بھی نہیں کرسکتے تھے۔

چناںچہ 1905کے ابتداء سے ہی انگریزی حکومت طب یونانی اور آیوریدک کے خلاف ایکٹ بنانے کیلئے مسودہ تیار کرنے لگی تھی۔ مگر قائد جنگ آزدی مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کی دوررس نگاہ نے گوروں کی اس سازش کو وقت رہتے دیکھ لیا اور اس کے خلاف مسلسل جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں1911ء کے اواخر میں حکومت نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ انگریزی سامراج کا دعویٰ تھا کہ ہندوستان میں مروجہ دیسی طریقہ علاج کی بنیاد سائنسی اصولوں پر مربوط نہیں ہے، جبکہ مسیح الملک ؒ نے مدلل طریقے سے انگریزوں کے دعووں کو مسترد کردیا اور یہ ثابت کیا کہ طب یونانی اور آیور ویدک کی بنیاد ہر سطح پر سائنسی اصولوں پر ہی رکھی گئی ہے۔

تاریخ طب کی کتابیں بتاتی ہیں کہ1919ء میں کراچی میں طبی کانفرنس کا اجلاس ہوا۔ وہاں اپنے خطاب میں حکیم صاحبؒ نے بتایا کہ طب یونانی شروع ہی سے سائنسی خطوط پر کام رہی ہے، چنانچہ جالنیوس نے لکھا ہے کہ میری یہ عادت نہیں کہ صرف قیاس سے کام لوں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تجربے سے تصدیق حاصل کرتا ہوں اور یہی سائنٹیفک طریقہ کار ہے!

بس انگریزوں کی اسی پرفریب سازشوں سے دیسی طریقہ ہائے علاج کو بچائے رکھنے کیلئے آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج قرول باغ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ تاریخ کہتی ہے کہ یونانی اورآیورویدک طب کو فروغ دینے کی غرض سے انہوں نے کالج کے لئے 29 ایکڑاراضی حاصل کی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ آج تقریباً 20ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہوچکا ہے۔ مگر اس کا جواب دینے کیلئے نہ دہلی کی عام پا ر ٹی سرکار، نہ میونسپل کارپوریشن اورنہ ڈی ڈی اے اور نہ کالج انتظامیہ کچھ بولنے کو تیار ہے، اس سے سبھی کی ملی بھگت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ان مسائل کی طرف دہلی حکومت کو توجہ دلانے کی کوششیں نہیں کی گئیں۔ بذریعہ مکتوب متعدد بار اور وزیر اعلیٰ اروند کجریوال ووزیر صحت ستیندر جین سے راست طور پر ملاقات کرکے مسیح الملک حکیم اجمل خان میموریل سوسائٹی کے ذمہ دارن نے کالج کی صورت حال بیان کی ہے اور اس تاریخی وراثت کے ساتھ کی جانے والی غنڈہ گردی پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ ستیندر جین نے اس معاملہ کو حل کرنے کا یقین بھی دلایا مگر ابھی تک وزیر صحت دہلی کا وہ وعدہ ایک سراب ہی نظرآرہا ہے۔

اب ذرا کالج کی تاریخ پر ایک سرسری نظر، 29مارچ 1916ءکو مسیح الملک ؒ نے لارڈ ہارڈنگ کے ذریعہ باضابطہ طور سے آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھوایا تھا۔ تاکہ انگر یز و ں کی متعصبانہ سازشیں دیسی طبوں کی باد بہاری کو زہر آلود نہ کرنے پائیں اوریہ سبھی فنون ہمیشہ کیلئے امر ہوجائیں۔ کالج کے سنگ بنیاد کے ساتھ ہی وہاں طب کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ کالج کے مصارف کے مستقل انتظام کیلئے انہوں نے ایک شاندار دوا خانہ قائم کیا۔ ’’ہندوستانی دوا خانہ دہلی‘‘ کے نام سے، اس کی آمدنی کالج کیلئے وقف تھی۔ ملک اور قوم کیلئے ان کا دل کس قدر فیاض تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ مولانا اخلاق حسین دہلویؒ اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ سردی کا موسم، کڑا کے کا جاڑا، رات کا وقت، بارہ ایک کا عمل، بازاروں میں سناٹا۔ وہ کسی تقریب میں شریک ہو کر آ رہے تھے۔ جامع مسجد پہنچے تو دیکھا کہ ہلکے ہلکے بگھی آئی اور جنوبی دروازے کی سیڑھیوں کے پاس ٹھہر گئی۔ حکیم محمد اجمل خاںؒ باہر نکلے۔ سیڑھیوں پر جو لوگ سکڑے سکڑے پڑے تھے، گاڑی میں سے لحاف نکالتے اور ہر ایک کو آہستہ سے اوڑھا دیتے۔ جب سب کو اڑھا چکے تو گاڑی ہلکے ہلکے ہرے بھرے صاحب کے مزار کی طرف چلی گئی۔ یہ تھا کالج کے بانی کا حسن اخلاق اور غریبوں، بے سہاروں اور مسکینوں کیلئے ان کے دل میں ہمدردی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا جذبہ۔

دوسری طرف تھی ان کی اپنے ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والے شہریوں سے بے پناہ محبت جس کی مثالیں کم نہیں تو معدوم ضرور ہیں۔ وہ ایک طرف کانگریس کے مضبوط لیڈر تھے تو اسی کے ساتھ ہندومہاسبھا کے قابل اعتبار ذمہ دار بھی۔ ان کی قربانیوں اور خوابوں کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اس کوو سعت دی جاتی کالج کو ترقی دیکر یونانی اینڈ آیورویدک یونیورسٹی کا درجہ دیا جاتا جہاں سیکولر اور ہندومسلم اتحاد کا مثالی ماحول دنیا کیلئے درس عبرت ثابت ہوتا۔ مگر ہائے افسوس کہ حکومتیں اس کی جڑیں کاٹنے میں ہی سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Apr 2018, 11:37 AM