بیٹیوں کے ’پجاری‘ رہزن کے کردار میں!
وزیر اعظم مودی اور ان کے ہم خیال لوگ جو ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے ہیں، وہ سرعام رو رہی بیٹیوں کو انصاف دے کر ان کے آنسو پوچھنے کے موڈ میں قطعی نظر نہیں آرہے ہیں۔
عالمی سطح کے مختلف مقابلوں میں اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ہندوستان کا نام روشن کرنے والے پہلوان گزشتہ 8 روز سے سراپا احتجاج ہیں۔ مگر افسوس کہ دہلی میں مرکز سیاست کی ناک کے نیچے جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھی ملک کی بیٹیوں کی آواز بھی پولیس اور حکومت کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پولیس کو دو ایف آئی آر درج کرنا پڑی ہیں مگر ملزم کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے کیونکہ پولیس کا کہنا ہے کہ معاملہ کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے لیے سرعام بلکتی بیٹیوں کے آنسو کوئی معنیٰ نہیں رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : یوم قدس صہیونی حکومت پر دباؤ کی علامت
یاد رہے کہ یہ وہی ملک ہے جہاں نربھیا واقعہ کی چتا کی راکھ ابھی تک نہیں بجھ سکی ہے۔ وہی ملک جو اپنی ایک بیٹی کی عصمت دری کے بعد درد ناک موت کے غم میں پولیس کی لاٹھی کھانے سڑکوں پر اترا تھا، جس نے پارلیمنٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک کی نیند حرام کردی تھی۔ جس کے بعد عصمت دری کے قانون میں تبدیلی کرکے اسے مزید سخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ویسے قانون بہت سخت ہو گیا ہے۔ اس قدر سخت کہ بیٹیوں کے آواز اٹھانے پر بھی پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی۔ معمولی ایف آئی آر کے اندراج کے لیے ملک کی عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین جج کو حکم دینا پڑتا ہے۔
بتا دیں کہ پہلوانوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے ملزم ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ پر کارروائی کے لیے اولمپک میڈلسٹ بجرنگ پونیا اور ساکشی ملک، ایشین اور کامن ویلتھ گیمز میں میڈلسٹ وینیش پھوگاٹ سمیت ہندوستان کے متعدد چوٹی کے پہلوان جنتر منتر پر انصاف کا مطالبہ اور ملزم کے خلاف کارروائی کی مانگ کرتے ہوئے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ اقتدار کے نشے میں مست اس بارسوخ آدمی کے خلاف ملک کی بہادر بیٹیوں نے ڈر، شرم، ہچکچاہٹ کو پیچھے چھوڑ کر آواز اٹھانے کی ہمت کی ہے جسے دیر سویر بے حس حکمرانوں کو ضرور سننا پڑے گی۔
برج بھوشن کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ وہ بڑی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، بار بار الیکشن جیت کر پارلیمنٹ پہنچ جاتے ہیں، درجنوں اسکول، کالجوں اور کروڑوں کی املاک کے مالک ہونے کے ساتھ اتنے شہ زور ہیں کہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے دفتر میں ایس پی پر ہی بندوق تان سکتے ہیں۔ مسٹر سنگھ اقتدار کے سگے ہیں اور اقتدار کبھی اپنی بیٹیوں، اپنے ملک کی خواتین کا سگا نہیں ہوا ہے۔ اقتدار صرف طاقت کا سگا ہوتا ہے اور طاقت صرف طاقت کی غلام ہوتی ہے۔ یہ انصاف اور مساوات کی باتیں، بیٹیوں کو عزت دینے، بیٹیوں کو پیار کرنے، بیٹیوں کو برابر سمجھنے کی باتیں سب جھوٹ ہیں۔ بیٹیوں کے ’پجاری‘ آج رہزن کے کردار میں نظر آ رہے ہیں۔
پہلوانوں کا جنسی استحصال کرنے والا کوئی معمولی شخص ہو تو اسے پھانسی پر چڑھا دینا آسان ہے لیکن کثیر منزلہ دیو قامت محل جیسی حویلی میں رہنے والا، لکژری گاڑی سے چلنے والا، اربوں کی جائیداد کا مالک اور اقتدار کا قریبی ہو تو اس کے خلاف ایف آئی آر بھی بڑی مشکل سے درج ہوتی ہے۔ شکر ہے کہ ساکشی ملک، ونیش پھوگاٹ جیسی خواتین خود بین الاقوامی سطح کی کامیاب پہلوان ملک کے لئے تمغے جیتنے والی، ملک کا نام روشن کرنے والی بیٹیاں ہیں۔ اگر کوئی گمنام معمولی سی لڑکی ہوتی تو پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہوتا۔ اگر ہوٹل کی ریسپشنسٹ ہوتی تو جلا دی جاتی، تندور میں جھونک دی جاتی، مار کر مگرمچھوں کو کھلا دیا جاتا۔
اس ملک میں لڑکیوں کی اتنی ہی قدر اور عزت ہے۔ جب تک منہ بند رکھے، خاموشی سے طاقتور مردوں کی زیادتیوں کو برداشت کرتی رہے، تب تک سب ٹھیک ہے مگر جس دن وہ اقتدار کے خلاف، پدرانہ نظام کے خلاف، مردوں کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانا شروع کرتی ہے، گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔ وہ دلاری بیٹیاں نہیں رہتیں، نہ ملک کی بیٹی رہتی ہے۔ پھر وہ صرف حکمران کی آنکھوں کا کانٹا بن جاتی ہے۔ تصور کریں کہ اتنی مضبوط اور طاقتور لڑکیاں ہمارے معاشرے میں مرد کی طاقت کے سامنے اتنی کمزور اور لاچار ہو سکتی ہیں تو ان حالات میں عام لڑکیوں کی کیا حیثیت ہو گی۔
یہ بے حس معاشرہ عورت کی بات اس وقت تک نہیں سنتا جب تک کہ اس کی آواز اتنی بلند اور اتنی بڑی نہ ہو جائے کہ پوری کائنات میں گونجنے لگے۔ ایسا کچھ سال پہلے بھی ہوا ہے، ہر ملک میں، ہر شہر میں، ہر دفتر، گلی، محلے میں ہوا۔ ہر لڑکی خوف کے مارے چپ رہتی اور ہر مرد مزید بے شرم اور بے لگام ہوتا چلا گیا۔ اگر غلطی سے کسی ایک لڑکی نے بول بھی دیا تو پورا سماج مل کر متاثرہ سے ہی سوال کرنے، جھوٹا ٹھہرانے، اسے غلط ثابت کرنے میں اپنی پوری طاقت جھونک دیتا۔ یہاں تک کہ اگر وہ عدالت کا سہارا لیتی تو برسوں گزر سکتے تھے اور اس دوران اس مجرم مرد کا پیسہ، طاقت اور دنیا میں اس کی شان بڑھتی ہی چلی جاتی۔
مگراس بارحالات مختلف ہیں، ساکشی ملک اور ونیش پھوگاٹ معاملے کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ لڑکیاں اکیلی نہیں ہیں۔ یہ کم ظرف لوگوں کے فیصلے سے ڈرنے والی نہیں ہیں، کسی زنانہ خاموشی اور شرمندگی سے یہ خائف نہیں ہیں۔ انہیں خود پر یقین ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ متحد ہیں۔ خواتین پہلوانوں کے معاملے نے ایک بات ضرور صاف کردی ہے کہ خواتین کا اتحاد ہی پدرشاہی کو جڑ سے اکھاڑ پھینک سکتا ہے۔ مردوں کے اتحاد کی بنیاد پر پدرانہ نظام بھی اسی زمین پر اتنے سالوں سے مضبوطی سے کھڑا ہے۔ یہ اس قدر متحد ہیں کہ ہر قسم کے گناہ کرنے والے اپنے مرد ساتھی کا ساتھ نہیں چھوڑتے، ایک دوسرے کے جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ وزیراعظم مودی اوران کے ہم خیال لوگ جو گلے پھاڑ پھاڑ کر’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے ہیں، وہ سرعام رو رہی ملک کی بیٹیوں کو انصاف دے کران کے آنسو پوچھنے کے موڈ میں قطعی نظر نہیں آرہے ہیں۔ جنتر منتر پر رونے والی پہلوانوں میں ونیش پھوگاٹ ایک ایسی بیٹی ہے جو کامن ویلتھ گیمز اور ایشین گیمز میں ہندوستان کے لیے گولڈ میڈل جیتنے والی پہلی ہندوستانی لڑکی تھی۔ وہ واحد لڑکی تھی جس نے ایک درجن سے زیادہ بین الاقوامی چیمپئن شپ میں ہندوستان کے لیے تمغے جیتے تھے۔وہ پہلی ہندوستانی کھلاڑی تھی جس کا نام لاریئس ورلڈ اسپورٹ ایوارڈ کے لیے نامزد ہوا۔
ونیش پھوگاٹ کو حکومت ہند نے بھی میجر دھیان چند کھیل رتن، ارجن ایوارڈ اور پدم شری سے نوازا۔ اتنی حصولیابیوں، اعزاز اور احترام کے بعد بھی وہ لڑکی اتنی کمزور تھی کہ ایک مرد صرف اپنے عہدے اور سیاسی تسلط کی وجہ سے اس کا جنسی استحصال کر سکتا تھا۔ یہ اکیلی لڑکی نہیں، اس جیسی کئی لڑکیاں تھیں۔ اب وزیراعظم مودی اگر واقعی بیٹیوں کے لیے ایماندار ہیں تو انہیں اخلاقی ذمہ داری نبھاتے ہوئے برج بھوشن کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا حکم جاری کرکے ان کے خلاف غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانا چاہئے تاکہ ملک کی دیگر بیٹیوں کو حکمرانوں کے قول وفعل پر اعتماد برقرار رہ سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔