یہ بھولے بھکت ہیں یا ’شعلے بھکت!‘...سہیل انجم
یوں تو کانوڑیوں کی اکثریت امن پسند ہے لیکن ان امن پسند کانوڑیوں میں غیر سماجی عناصر بھی گھس گئے ہیں۔ ایسے لوگ ان میں داخل ہو گئے ہیں جن کو غنڈے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا
سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں کو ’بھولے بھکت‘ کہا جائے یا ’شعلے بھکت‘۔ ان کی جو حرکتیں ہیں وہ ایسی نہیں ہیں کہ انھیں بھولے یعنی شیو جی کا بھکت کہا جائے۔ ٹھیک ہے شیو جی جب غصے میں آتے ہیں تو تانڈو ناچ کرتے ہیں لیکن وہ تب کرتے ہیں جب ایسا کرنا بہت ضروری ہو جائے۔ ورنہ وہ تو اپنے گلے میں سانپ کو بھی لپیٹے رہتے ہیں اور اس کا زہر یعنی وِش پیتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ کیسے شیو بھکت ہیں جو معمولی معمولی باتوں پر تانڈو ناچ کرنے لگتے ہیں۔ جو یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا غصہ نہ صرف ملکی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ لا اینڈ آرڈر کے لیے بھی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ اور پھر غصے کی کوئی وجہ بھی تو ہو۔ اس قدر تشدد برپا کرنے کی یہ تو کوئی وجہ نہیں کہ کسی کی کار کانوڑ سے ٹکرا گئی یا کوئی رانگ سائڈ میں گاڑی چلا رہا تھا یا کوئی پیٹرول پمپ پر بیڑی پینے سے منع کر رہا تھا۔ بھلا یہ بھی کوئی وجوہات ہیں کہ لوگوں پر بھیانک تشدد کیا جائے اور ان کی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی جائے۔
ہم یہاں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری مراد تمام شیو بھکتوں یعنی کانوڑیوں سے نہیں ہیں۔ کانوڑیوں کی اکثریت امن پسند ہے۔ لیکن ان امن پسند کانوڑیوں میں غیر سماجی عناصر بھی گھس گئے ہیں۔ ایسے لوگ ان میں داخل ہو گئے ہیں جن کو غنڈے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جو امن پسند نہیں تشدد پسند ہیں اور جن کو قوانین و ضوابط سے کوئی غرض نہیں۔ غرض ہے تو اپنی پرتشدد خواہشوں کی تکمیل سے ہے۔ ان کی حرکتوں سے اخبارات بھی بھرے پڑے ہیں اور نیوز چینل بھی۔ سوشل میڈیا پر بھی ان کی خبریں آ رہی ہیں اور ان کے تشدد کی تصاویر پوسٹ کی جا رہی ہیں۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت نے ان لوگوں کو اتنی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے۔ ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ پولیس کی موجودگی میں تشدد برپا کیا گیا اور پولیس نے ان لوگوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
ایسے مناظر ان راستوں پر دیکھے جا رہے ہیں جن کو ’کانوڑ روٹ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ راستہ مغربی اترپردیش کے مظفر نگر سے ہوتے ہوئے جاتا ہے۔ مظفر نگر ایک حساس شہر ہے۔ وہاں بدترین فساد ہو چکا ہے جن میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ 26 جوئی بروز جمعہ شام کے وقت دہلی میرٹھ ایکسپریس وے پر کانوڑیوں نے ایک گاڑی کو روکا۔ ان کا الزام ہے کہ وہ رانگ سائڈ سے آ رہی تھی اور اس نے کانوڑیوں کو ٹکر ماری جس سے ان کی کانوڑ کھنڈت ہو گئی یعنی ٹوٹ گئی۔ بس پھر کیا تھا وہ سب کار پر پل پڑے۔ اس میں چار مسلمان تھے۔ تین تو بھاگنے میں کامیاب ہو گئے مگر ایک کو جو کہ ساٹھ ستر سال کے باریش بزرگ تھے پکڑ لیا گیا۔ ان کی بری طرح پٹائی کی گئی۔ ان کی گاڑی میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ بہت دیر کے بعد پولیس کانوڑیوں کو خاموش کرنے میں کامیاب ہوئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کو سمجھا بجھا کر اور وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا۔ فریقین نے کوئی کارروائی کرنے کی شکایت نہیں کی۔
یہ کیا تھا؟ اگر واقعی وہ گاڑی رانگ سائڈ سے آ رہی تھی تو اس کو روکنے کی ڈیوٹی کانوڑیوں کی نہیں بلکہ ٹریفک پولیس کی تھی اور پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ دہلی میرٹھ ایکسپریس وے پر اتنی تیز رفتار سے گاڑیاں چلتی ہیں کہ رانگ سائڈ سے آنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ اگر اس کی ٹکر ہو گئی تھی تو اس کی شکایت پولیس سے کی جاتی۔ قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت تو نہیں۔ یہ بھی خوب ہے کہ پولیس نے فریقین کو سمجھا بجھا کر واپس کر دیا اور دونوں نے کسی کارروائی کی شکایت نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ کار رانگ سائڈ سے آ رہی تھی تو اس کی شکایت ٹریفک پولیس سے کی جانا چاہیے تھی۔ دوسری بات یہ کہ گاڑی میں توڑ پھوڑ کرنے اور اس کے سوار پر تشدد کرنے کا کیس کانوڑیوں پر قائم کیا جانا چاہیے تھا جو کہ نہیں کیا گیا۔
جولائی کی 24 تاریخ کو مظفرنگر کے آشوتوش شرما کے پٹرول پمپ کے احاطے میں کچھ کانوڑیے آرام کر رہے تھے۔ وہاں کے ایک ملازم نے دیکھا کہ کانوڑیے سگریٹ پی رہے ہیں۔ پیٹرول پمپ پر سگریٹ پینا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ملازم نے جس کا نام منوج کمار تھا وہاں سگریٹ پینے سے منع کیا۔ پھر کیا تھا۔ کانوڑیوں کو غصہ آگیا اور وہ لگے منوج کمار کی پٹائی کرنے۔ پمپ کے منیجر شرما کا کہنا ہے کانوڑیوں نے ایک بیٹ سے منوج کے سر پر مارا۔ چاروں طرف خون ہی خون پھیل گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے کمپیوٹر، کیش کاونٹنگ مشین، بایو میٹرک مشین، پرنٹر ارو دیگر اشیا کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ منوج کمار کی حالت اتنی سنگین ہو گئی کہ اسے اسپتال کے آئی سی یو میں داخل کرانا پڑا۔ اسی طرح 19 جولائی کو نیشنل ہائی وے 58 پر انھوں نے ایک ہوٹل میں ہنگامہ کیا۔ انھوں نے ایک ڈھابے پر کھانا منگایا اور اس کے بعد یہ کہہ کر ہنگامہ شروع کر دیا کہ کھانے میں لہسن اور پیاز ملا ہوا تھا۔ باورچی ایک مسلمان تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ کانوڑیے تشدد پر آمادہ ہیں تو وہ فرار ہو گیا۔
یہ تو چند واقعات تھے ورنہ کانوڑیوں کی جانب سے تشدد کی وارداتیں تقریباً روزانہ ہی ہو رہی ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ پولیس ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ اترپردیش کی حکومت بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور مرکزی حکومت بھی۔ نہ تو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی بیان سامنے آ رہا ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت کا کوئی وزیر کوئی بیان دے رہا ہے۔ بی جے پی کے لیڈران بھی خاموش ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان واقعات کی مذمت کی جا رہی ہے لیکن حکومت کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
جب اتر پردیش کی حکومت نے ہوٹلوں، ڈھابوں اور چائے خانوں اور دکانوں پر نام لکھنے کا حکم دیا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو یوپی حکومت اس حکم کا دفاع کرنے لگی۔ وہ کہتی ہے کہ ایسا حکم اس لیے دیا گیا کہ لا اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ لیکن اس کو اب لا اینڈ آرڈر میں کوئی خرابی نظر نہیں آ رہی ہے۔ سڑکوں پر ہنگامہ مچایا جا رہا ہے۔ راہگیروں کا چلنا دوبھر ہے۔ گاڑیوں والے اس راستے پر چلنے سے ڈر رہے ہیں۔ جب سے ایک بیٹری رکشہ میں تور پھوڑ کی گئی بیٹری رکشہ والے بھی ادھر سے گزرنے میں خوف محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن واہ رے یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ا س کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کے نزدیک سب امن و چین ہے۔ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ذرا سوچیے اگر تشدد کا کوئی ایک معمولی سا بھی واقعہ کسی دوسرے کے ہاتھوں ہوا ہوتا تو اب تک نہ صرف یوگی کی پولیس حرکت میں آ گئی ہوتی بلکہ ان کا بلڈوزر بھی دندناتا پھر رہا ہوتا۔ جانے کتنے مکانات اب تک زمین بوس کر دیے گئے ہوتے۔ کتنے گھروں کو اجاڑ دیا گیا ہوتا۔ کتنے خاندان بے یار و مددگار ہو گئے ہوتے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ تشدد برپا کرنے والوں کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں۔ لوگ چپکے سے کارروائی کر کے نکل جا رہے ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ یہ سب دن دہاڑے ہو رہا ہے اور ہنگامہ کرنے والوں کے چہرے سوشل میڈیا میں صاف صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن سیاسی مفاد پرستی کی خاطر حکومت اور پولیس نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ہم پھر کہیں گے کہ ہمارا اشارہ تمام کانوڑیوں کی طرف نہیں ہے۔ کانوڑیوں کی اکثریت تو امن پسند ہے۔ وہ لوگ کھانا کھانے میں بھی کسی بھید بھاؤ سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ بلکہ وہ ہندو مسلمان سب کے ہوٹلوں میں کھا رہے ہیں۔ سب کے ہوٹلوں میں آرام کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ مسلم ہوٹلوں میں ان کے ٹھہرنے اور آرام کرنے کے بہتر انتظامات ہیں۔ لیکن چند مٹھی بھر کانوڑیے اس پوری یاترا کو بدنام کر رہے ہیں۔ ہنگامہ برپا کرنے والوں کی عمریں زیادہ نہیں ہیں۔ وہ اٹھارہ، بیس اور بائیس سال کے لگتے ہیں۔ ان حرکتوں میں ادھیڑ یا معمر لوگ ملوث نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان لوگوں کو امن و شانتی میں یقین نہیں ہے۔ بلکہ وہ امن و شانتی کو شعلوں میں گھرا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ انھیں بھولے بھکت کہا جائے یا شعلے بھکت۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔