انتخابات میں ’کالے دھن‘ کا استعمال جائز ہونا چاہیے، جانیں کیوں؟
ہر سطح سے آواز اتھائی جاتی ہے کہ انتخابات کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے کالے دھن کے استعمال پر پابندی لگائی جائے لیکن سچائی یہی ہے انتخابات میں جو رونق نظر آتی ہے اس کے پیچھے اسی دولت کا ہاتھ ہے
انتخابی اخراجات پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق عام انتخابات کے ایک مرحلہ میں تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے کا ’کالا دھن‘ خرچ کیا گیا۔ یہ رقم حکومت کی اہم اسکیم ’منریگا‘ کے سالانہ اخراجات کے برابر، دہلی حکومت کے سالانہ بجٹ یا ہماچل پردیش کے پلان بجٹ سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
پانچ سو سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑا جاتا ہے، ہر سیٹ پر کم از کم 10 امیدوار ہوتے ہیں اور ہر امیدوار 10 سے 15 کروڑ روپے خرچ کرتا ہے، اس کو مدنظر رکھا جائے تو یہ ایک معقول تخمینہ ہے۔ ریاستی انتخابات میں ہونے والے اخراجات الگ ہیں۔ یقیناً اس کا زیادہ تر حصہ وہ ہے جس کا کوئی حساب نہیں ہوتا یعنی یہ ’کالا دھن‘ ہے۔
روایتی طور پر اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اس لعنت کو ختم کیا جانا چاہیے، کہ یہ جمہوری عمل کی پاکیزگی کے لیے برا ہے اور معیشت کے لیے تباہ کن ہے، کہ اس مقصد کے لیے کالے دھن کو استعمال کرنے کے بجائے انتخابات کے انعقاد کے لیے حکومتی فنڈنگ کو لاگو کیا جانا چاہیے۔
اب یہ سوال مختلف ہے کہ آپ اور مجھے اقتدار پر قابض رہنے اور مزید کالا دھن پیدا کرنے کے لیے دھوکہ بازوں کے ایک گروپ کی مالی معاونت کیوں کرنی چاہیے۔ فی الحال میں روایتی دانشمندی کو چیلنج کرتا ہوں اور دلیل دیتا ہوں کہ انتخابات میں کالا دھن ملک اور معیشت کے لیے سود مند ہے اور ہمیں ماتم کرنا اور رونا دھونا بند کرنا چاہیے۔ یقینی طور پر کوئی بھی ماہر معاشیات اسے تسلیم نہیں کرے گا لیکن پھر، ماہرین اقتصادیات اس وقت تک کوئی رائے ظاہر نہیں کریں گے، جب تک عالمی بینک یا آئی ایم اسے تسلیم نہ کر لے!
دراصل، انتخابات کے دوران یہ کالا دھن (کم از کم 50 ہزار کروڑ روپے) معیشت کو ایک نئی رفتار عطا کرتا ہے۔ انتخابات میں اس کا استعمال انتہائی کثیر جہتی اور موثر ہے اور اس کا استعمال 'پارٹی ورکرز' کو ملازمت دینے اور ریلیوں میں ہجوم کو اکٹھا کرنے، بیل گاڑیوں سے لے کر ہیلی کاپٹر تک ہر قسم کی گاڑیوں کو کرایہ پر لینے، تشہیری مواد- بینرز، اسٹیکرز، پوسٹرز، کیپ، ٹی شرٹس، جلسوں کا اہتمام کرنے، شراب تقسیم کرنے اور ووٹروں میں رشوت کے طور پر نقدی تقسیم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ان میں سے کچھ اخراجات جائز رقم سے ہوتے ہیں اور ان کی اطلاع الیکشن کمیشن کو دی جاتی ہے لیکن چند سال پہلے ’ہندوستان ٹائمز‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ امیدواروں نے عام طور پر اتنے کم اخراجات کی اطلاع دی کہ (اب ریٹائر ہو چکے) چیف الیکشن کمشنر نے اخراجات کی حد کو کم کرنے کی تجویز تک دے ڈالی تھی! اس لیے جناب، انتخابات کی لائف لائن کالا دھن ہے اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔
یہ اس کے ناقابل تردید فوائد کی ایک مختصر فہرست ہے۔ خواہ چند مہینوں کے لیے ہی سہی، کالا دھن لاکھوں ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم فی شخص 300 روپے روزانہ فرض کریں تو یہ لوگوں کو ملازمت پر رکھنے پر خرچ ہونے والے 50 ہزار کروڑ روپے کا آدھا بھی خرچ ہوتا ہے، تو انتخابات 833 ملین کام کے دن پیدا کرتا ہے! یہ تقریباً منریگا کی طرح ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہ پیسے فوراً ادا کیے جاتے ہیں جبکہ منریگا میں مہینوں بعد!
مختلف مصنوعات اور خدمات کی طلب بالواسطہ روزگار اور فنکاروں، فیکٹری کارکنوں، ڈرائیوروں، کیٹررز، بینڈ پارٹیوں، غنڈوں اور اس طرح کے دیگر فوائد کی صورت میں مزید ملازمتیں پیدا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر عام آدمی پارٹی کے ٹوپی کا رجحان شروع کرنے کے بعد ہر پارٹی نے گاندھی ٹوپی کا اپنا انداز بنایا اور دہلی، کانپور اور بھوپال کی گلیوں میں ایک پوری صنعت نے جنم لیا، جہاں کروڑوں ٹوپیاں تیار ہوتی ہیں۔ اسی طرح جب سے عام آدمی پارٹی نے جھاڑو کو اپنا نشان بنایا ہے، اس سے غریب دیہی خواتین کو فائدہ ہوا ہے، جو اسے بنانے کے لیے مواد تیار کرتی ہیں۔
کالے دھن کے ذریعے انتخابات وہ حاصل کر لیتے ہیں جو پچھلے 50 سالوں میں زیادہ تر حکومتی پالیسیاں حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ پیسہ محنت کش طبقے کے درمیان کسی احتجاج یا جھگڑے کے بغیر انتخابات میں استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی انتخابات کو بجا طور پر دنیا بھر میں 'جمہوریت کا تہوار' کہا جاتا ہے۔ ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کو سیاسی حراست میں رکھا جاتا ہے، پولنگ بوتھوں کے باہر چائے، فرضی شناختی کارڈ، ہر قسم کے ملبوسات اور نقاب پوش لوگ ملتے ہیں، ہر درخت اور لیمپ پوسٹ پر پوسٹر چسپاں رہتے ہیں۔
ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس امیدوار کو آپ نے ووٹ دیا وہ کل کسی دوسری پارٹی میں جا سکتا ہے۔ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد دوگنی تک شمار ہو سکتی ہے لیکن یہ سب مذیدار ہے! لیکن مجھے کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی لطف کالے دھن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میں وزیر اعظم کی ’ون انڈیا، ون الیکشن‘ تجویز کی مخالفت کرتا ہوں، یہ معیشت کے لیے اچھا نہیں ہے اور اس سے زندگی کا مزہ ختم ہو جائے گا۔ ہمیں اس بات کی تعریف کرنی چاہئے کہ ہندوستانی سیاست دانوں نے 75 سالوں میں معاشی ماہرین، ای ڈی اور انکم ٹیکس کے دستوں، منصوبہ سازوں، آر بی آئی کے گورنروں اور چیف اکنامک ایڈوائزروں کی فوج نے جو کیا ہے، اسے نیتی آیوگ کی عمارت کے سامنے اپنا مجسمہ نصب کرانا چاہیے – ہم اسے ’مجسمہ استثنیٰ‘ کا نام دے سکتے ہیں۔
میری رائے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سے الیکشن میں سفید دھن کے استعمال پر پابندی لگانے کی درخواست کی جائے!
ابھے شکلا ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر اور مصنف ہیں۔ یہ avayshukla.blogspot.com کے مضمون کے ترمیم شدہ اقتباس ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔