تحریک آزادی کا گمنام سپاہی- محمد عمر سبحانی...98 ویں برسی کے موقع پر خصوصی پیشکش

کامیاب تاجر اور کاٹن کنگ کہلانے والے عمر سبحانی کو برطانوی غلامی بے چین رکھتی تھی چنانچہ انہوں نے آزادی کی مہم میں سرگرم حصہ لینے کا عزم کیا اور انڈین نیشنل کانگریس کی رکنیت حاصل کی

<div class="paragraphs"><p>تصویر شاہد صدیقی علیگ</p></div>

تصویر شاہد صدیقی علیگ

user

شاہد صدیقی علیگ

ہندوستان کی 190 سالہ طویل جدوجہد آزادی میں بلاتفریق ہر کس و ناکس نے حصہ لیا۔ جن کی بے لوث جاں نثار یوں کی بدولت ہی آ ج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ تاہم ان عظیم سورماؤں میں کچھ ایسی ہستیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف عملی طور پر تحریک میں شرکت کی بلکہ برطانوی نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے خزانے کی تجوری کا منھ بھی کھول دیا تھا۔ محمد عمر سبحانی ایسے ہی ثروت مند مجاہدین کی فہرست میں شامل ہیں لیکن انہیں اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔

محمد عمر سبحانی 1890 میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد یوسف سبحانی ایک مشہور صنعت کار تھے۔ جن سے محمد عمر نے کم عمری میں ہی کاروبار کی بنیادی نکتوں سے واقفیت حاصل کر لی اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ ایک کامیاب تاجر بن گئے اور کاٹن کنگ کہلائے۔ لیکن برطانوی غلامی انہیں بے چین رکھتی تھی چنانچہ انہوں نے آزادی کی مہم میں سرگرم حصہ لینے کا عزم کیا اور انڈین نیشنل کانگریس کی رکنیت حاصل کی۔ مہاتما گاندھی بھی ان کی اعلیٰ منتظم صلاحتیوں سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں اسٹیج مینیجر کے لقب سے نوازا۔


محمد عمر سبحانی نے انڈین نیشنل کانگریس کے ہر احتجاجی مظاہرے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مالی اخراجات بھی برداشت کیے۔ جس کی بنا پر عمر سبحانی انگریز حکام کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگے۔ محمد عمر سبحانی نے 1916 میں اینی بسنٹ کی سرپرستی میں ہوم رول موومنٹ، 1921 میں خلافت اور تحریک عدم تعاون میں فعال کردار ادا کیا، سودیشی مہم کے زیر اہتمام اپنے تمام مہنگے ولایتی کپڑوں کو نذر آتش کر دیا۔ دریں اثنا، 31 مارچ 1921 کو مہاتما گاندھی نے کانگریس فنڈ کے لیے 31 جولائی تک ایک کروڑ روپے جمع کرنے کی اپیل کی لیکن رقم اتنی زیادہ تھی کہ انہیں 15جولائی کو دوبارہ مخلصانہ التجا کرنی پڑی کہ اب تک آدھی بھی رقم جمع نہیں ہوپائی۔ جس کے مدنظر مقرر ہ تاریخ کو بھی بڑھانا پڑا۔ جس کے بعد کاٹن کنگ عمر سجانی نے مہاتما گاندھی کو ایک خالی چیک دیا اور کہا کہ وہ دسمبر 1921 تک تحریک عدم تعاون کے ایک کروڑ روپے کے ہدف تک پہنچنے کے لیے درکار رقم کو بھر سکتے ہیں۔

مزید برآں اپنے دیگر ساتھی تاجروں سے چالیس لاکھ کا عطیہ جمع کیا۔ انہوں نے اپنا بنگلہ ’سبحانی ولا‘ ایک لاکھ روپے کے فراخ دلانہ عطیہ کے ساتھ خلافت کمیٹی کو تحفے میں دے دیا۔ برطانوی حکام نے عمر سبحانی کے انڈین نیشنل کانگریس کو کلیدی مالی اعانت کرنے کی بنا پر ان کے کاروبار پر پابندیاں عائد کر دیں اور ایسی صورت پیدا کر دی کہ انہیں اپنے رہائشی مکانات تک بھی فروخت کرنے پڑ گئے۔ لیکن حب الوطنی کے پیکر عمر نے جابر انگریز حکام کے آگے سر خم تسلیم نہیں کیا اور کانگریس کی تمام سرگرمیوں اور میٹنگوں میں متواتر حصہ لیتے رہے۔ برطانوی حکام نے بھی انہیں معاشی گرداب میں دھکیلنے کا تہیہ کر لیا تھا چنانچہ ان کی عائد نئی نئی پابندیوں کی وجہ سے ان کا کاروبار تباہ و برباد ہو گیا فروری 1922 میں انہیں تین کروڑ چالیس لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ جس کی بھرپائی ہونا ناممکن تھی اور ایسے ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے کہ انہیں 6 جولائی 1926 کو خودکشی جیسے فعل پر مجبور ہونا پڑا۔

مہاتما گاندھی نے ان کی موت پر لکھا تھا، ’’عمر سبحانی حب الوطنی کا جو نمونہ ہمارے سامنے چھوڑ کر گئے ہیں۔ اس طرز عمل کو جاری رکھنے کی خدا ہم سب کو توفیق دے۔ ان کی زندگی نوجوان دولت مندوں کے لیے ایک نمونہ ہے۔“

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔