استعماریت کا رجحان جمہوریت کے لیے خطرناک

بہتر ہوگا کہ ہم اپنے نظریات کو اپنی ذات تک محدود رکھیں اور مذہب کے سیاسی استعمال کو ختم کرنے پر مضبوط لائحہ عمل ترتیب دیں

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

user

نواب علی اختر

انسان کے تلون مزاجی، طوطا چشمی اور موقع پرستی زمانے کے مزاج کے ساتھ لفظوں کے معنوی قوت میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ موجودہ عہد میں یہی ماحول ہماری عالمی سیاسیات و سماجیات کی منافقت کا ایک بھر پور استعارہ بن چکا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے سیاسی سماج پر اب کھل کر بحث ہونی چاہئے اس لئے کہ عوامی بیداری کے لئے یہ بہت ضرور ی ہے۔ حالانکہ آج کے دور میں ہر دور اندیش شخص اس بات کو اچھی طرح سے جانتا اور سمجھتا ہے کہ ہماری موجودہ سیاست کے کتنے چہرے اور کتنے رنگ ہوتے ہیں۔اس سیاست کا روپ سروپ دور سے جتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے ،قریب سے اتنا ہی بھیانک ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ موجودہ عہد میں سیاست محض سیاست نہیں رہی بلکہ موجودہ سیاست کو سامراجی ، فسطائی اور استعماری طاقتوں نے یرغمال بنا لیا ہے۔

لہذا اب سیاست کا کام عوامی مہم جوئی ،پسماندہ اور کمزور عوام کے حقوق کی بازیابی اور دنیا میں امن و امان کی بحالی کے بجائے مٹھی بھر طاقتور لوگوں کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کا نام سیاست بن کر رہ گیا ہے۔ جمہوریت کی یہ داشتہ ان طاقتور لوگوں یا (ممالک) کے توسیع پسندانہ نظریات کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اپنے اسی مزموم مقاصد کے حصول کے لیے پورے انسانی سماج کو نیشنل ازم، مذہب، مسلک ، ذات پات، رنگ و نسل کے نام پر تقسیم کرنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ گویا دنیا میں ایک ایسی آگ کو ہوا دی جا رہی ہے جس کی نفرت انگیز حرارت سے زمین کی ’کوکھ ‘تک جل کر راکھ ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے اور یہ استعماری سیاست اپنے ہدف کے حصول کے لئے دنیا کے تمام تر جدید ذرائع ابلاغ و ترسیل کا بھر پور استعمال کر رہی ہے۔

آج دنیا کا ہر ملک اس کی زد میں ہے۔ جس کی ایک تجربہ گاہ ہمارے ہندوستان جیسا سیکولر ملک بھی ہے۔ ہماری جمہوریت کے سینے میں تہذیب و ثقافت، مذہب و مسلک ذات و پات کے نام سے دھدھکنے والی آگ دھیرے دھیرے جوالا مکھی کی شکل اختیار کر رہی ہے، جو ہمارے ملک کے امن و امان کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ لہذا ابھی وقت ہے کہ اس مسئلہ پر ہمارے ملک کے دانشوروں کو اپنے خیال کے اظہار کو محض اظہار افسوس کے دائرے تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے۔ اس جمہوریت کی بحالی کے لئے کسی عملی اقدام کی سخت ضرورت ہے۔ دنیا کے تمام جمہوری ممالک کو اس بات کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے کہ استعماریت کا بڑھتا ہوا غلبہ جمہوریت کی بنیادوں کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔

 بظاہر انتہا پسندی کا تعلق میدان سیاست سے رہا ہے مگر آج انتہا پسندی زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہو چکی ہے۔ چونکہ آج سرمایہ دار اور حکمراں طبقہ سیاسی حیلہ گری سے زیادہ مذہب کی آڑ میں سیاسی شعبدہ بازی کا حامی ہے اس لئے انتہا پسندی سیاسی طبقہ سے زیادہ مذہبی طبقہ میں حلول کر گئی ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی سیاسی انتہا پسندی سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ سیاست کی فریب کاریوں اور نظریاتی تحفظات کو سمجھنا گو کہ آسان نہیں ہے مگر پھر بھی عام انسان سیاست مداروں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ سیاسی شعبدہ بازی اور سیاست مداروں کی عیاریوں سے ایک زمانہ واقف ہے مگر اس واقفیت کے بعد بھی عوام سیاسی پروپیگنڈہ کا شکار ہوتی ہے اور اپنی معلومات پر غفلت اور لاعلمی کا کفن ڈال لیتی ہے۔


مذہب کا معاملہ سیاست سے قدرے مختلف ہے۔ مذہب کچھ لوگوں کے لئے منفور ہو سکتا ہے مگر دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی مذہب، مذہبی رہنماؤں اور ان کے نظریات کی پابند ہوتی ہے۔ یہ رہنما مذہب کی ترقی اور بقا کے لئے عوام کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں کیونکہ جس مذہب کی ترقی اور بقا کے لئے وہ جدو جہد کر رہے ہوتے ہیں در اصل انکے یا ان جیسوں کے ذاتی نظریات پر مشتمل مذہب ہوتا ہے جسے عوام پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اصل مذہب صرف کتابوں اور مسودوں میں قید ہوتا ہے جس کی حقیقت عوام کے سامنے آشکار نہیں کی جاتی۔ دراصل یہ طبقہ عوام کو مذہبی جارحیت اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے تاکہ سیاست اور سماج میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھ سکے یا میدان سیاست میں اپنے مفاد کے لئے تگ و دو کر سکے۔ چونکہ مذہب ایک مقدس نظام کا آئینہ دار ہوتا ہے اس لئے عوام مذہبی رہنماؤں کو بھی مقدس سمجھ لیتے ہیں اور انکے پروپیگنڈہ کے شکار ہو جاتے ہیں۔

انسانوں میں اختلاف رائے ایک فطری جذبہ ہے۔ اس جذبہ کی مذمت نہیں کی جا سکتی کیونکہ اختلاف رائے ایک صحت مند رائے کو استوار کرتی ہے۔ نظریوں کا اختلاف فکری اختلاف کو جنم دیتا ہے اور فکری اختلاف انسان کو تحقیق کے میدان میں عرق ریزی پر ابھارتا ہے۔ تحقیق انسان کو ایک صحت مند نظریہ کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسا نظریہ جو سماج اور معاشرہ کے لئے کارآمد اور صحت مند سماج کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صحت مند اختلاف کے لئے لازم ہے کہ وہ زندہ موضوعات پر ہو اور نتیجہ خیز بھی ہو۔ اختلاف اور عداوت میں بال کے برابر حد فاصل ہوتی ہے جسے ارباب نظر سمجھتے ہیں مگر صاحبان سیاست اور کم نظر علمائے مذہب اس حد فاصل کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں تاکہ اپنے مفاد کو حاصل کر سکیں۔

سیاست اور مذہب دونوں جگہ اختلاف رائے کو مذموم تصور نہیں کیا گیا ہے بلکہ نظریاتی اختلاف کو علمائے سیاست و مذہب نے بہت اہم قرار دیا ہے۔ آج دنیا میں جتنی بھی ترقی ہمارے سامنے ہے اس کی بنیادی وجہ نظریوں اور آراء کا اختلاف ہے اور اس اختلاف کے بعد جو نئی تحقیق ہوتی ہے وہ نئی ترقیاتی راہوں کو ہموار کرتی ہے۔ یہ اختلاف اس وقت خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے جب انسان اس فکری و نظریاتی اختلاف کو ذاتی اختلاف سمجھ لیتا ہے اور اس اختلاف کو ایک پروپیگنڈہ کی شکل دے دیتا ہے۔ یا ایک نظریہ کو اس طرح رد کر دیا جائے کہ اس کے دلائل پر بھی غور و خوض نہ کیا جائے۔ خطرناک ترین صورتحال اسی ماحول کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور ایک انسان پوری انسانیت کو گمراہی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔

ہندوستان کا موجودہ سماج تیزی سے شدت پسندی اور مذہبی جنون کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایسا سماج جہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ خواہ وہ سیاست مدار ہو یا مذہبی مقدس افراد۔ ہر طرف انتہا پسندی کا عروج ہے۔ ایسا سماج وجود میں آ چکا ہے جو اپنے نظریات و افکار کو جبراً تسلیم کرانے یا اپنی سوچ کے خلاف سوچنے والے افراد کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرہ میں ’عدم برداشت’ کا بڑھتا ہوا رجحان رواداری کا ختم ہوتا ہوا ماحول ہے۔ نظریاتی طور پر مفلوج انسان فکشن کو حقیقت کا روپ دے دیتا ہے اور حقیقت اس کے لئے فکشن بن جاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں خطرناک صورتحال جنم لیتی ہے جو سماج و معاشرہ کے لئے مہلک بن جاتی ہے۔


ہمارا سماج یوں تو روشن خیالی کا دعویدار ہے مگر ہر طبقہ کے افراد میں تحمل کا جذبہ ناپید ہے۔ عدم برداشت کے ماحول نے انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔ یہ سماج کبھی جانوروں کے مذہبی تقدس کے نام پر انسانوں کا بے دریغ خون بہا دیتا ہے اور کبھی سیاست مداروں کے ورغلانے پر ’لَو’ کو جہاد کا نام دے کر قتل کے جواز تلاش کرتا ہے۔ اگر ہم اس صورتحال سے نپٹنے میں ناکام رہتے ہیں اور برسر اقتدار طبقہ یا دیگر جماعتیں اور تنظیمیں اسی طرح مذہب کو سیاسی مفاد ات کے حصول کے لئے استعمال کرتے رہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ایوان سیاست اور مذہبی عبادت گاہوں میں دہشت گردوں کے ٹولے نظر آئیں گے۔ بہتر ہوگا کہ ہم اپنے نظریات کو اپنی ذات تک محدود رکھیں اور مذہب کے سیاسی استعمال کو ختم کرنے پر مضبوط لائحہ عمل ترتیب دیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔