ہڑپا اور گھوڑے کی کہانی، رگ وید کیا ثابت کرتا ہے؟

جو لوگ سارے ثبوتوں کے بعد بھی یہ نہیں مانتے کہ آرین باہر سے آۓ تھے، ان کے لیے ضروری ہے کہ یہ بھی مانیں کہ ہڑپا کی تہذیب بھی ویدک ہے یعنی آریوں سے وابستہ ہے، جنہوں نے ویدوں کو تیار کیا

<div class="paragraphs"><p>ہڑپا اور گھوڑے کی کہانی...44 ویں قسط</p></div>

ہڑپا اور گھوڑے کی کہانی...44 ویں قسط

user

وصی حیدر

پہلے ہم یہ جان لیں کے ہڑپا کی تہذیب کے سلسلہ میں گھوڑے کا مسئلہ کیوں اتنا اہم ہے۔ مسئلہ یہ ہے ہڑپا تہذیب کی تمام جگہوں پر کھدائی میں حاصل ہوئی چیزوں میں گھوڑا غائب ہے نہ اس کا کوئی ڈھانچہ اور نہ ہی ہزاروں کی تعداد میں ملی مہروں پر گھوڑے کی کوئی تصویر موجود ہے۔

اس کے برعکس رگ وید میں گھوڑے کی بہت اہمیت ہے یہاں تک کہ دو خاص دیوتا اشونی اور اشوِن گھڑ سوار ہیں۔ جبکہ دو اور دیوتا اوشاس اور اگنی گھوڑے گاڑی پر ہی چلتے ہیں۔ ایک منتر میں خیالی مقدس دریا سرسوتی کا ذکر یہ ہے کے وہ فتوحات کے لیے شاندار گھوڑا گاڑی کی طرح بنی ہے۔ رگ وید میں گھوڑے کے برابر کسی دوسرے جانور کی اہمیت نہیں ہے۔ اس میں گھوڑے کی خوبیوں پر پانچ منتر ہیں جبکہ بیل، بکری اور چڑیا پر صرف ایک ایک منتر ہے۔ مذہبی رسومات میں دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے گھوڑے کی قربانی اور اس کے مختلف حصوں کی خوبیوں کا ذکر بھی منتروں میں ہے۔

ان لوگوں کے لیے جو سارے ثبوتوں کے بعد بھی سیاسی وجہ سے یہ نہیں مانتے کہ آرین باہر سے آۓ تھے، ان کے لیے ضروری ہے کہ یہ بھی مانیں کہ ہڑپا کی تہذیب بھی ویدک ہے یعنی آریوں کی بنائی ہوئی ہے، جنہوں نے ویدوں کو تیار کیا۔ یہ لوگ ہڑپا میں گھوڑے یا گھوڑا گاڑی کے کسی بھی طرح کے نشان نہ پاۓ جانے کی تین وجوہات بیان کرتے ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ہڑپا تہذیب کے ختم ہونے کے بعد بھی گھوڑے کا کوئی ڈھانچہ برآمد نہیں ہوا، جبکہ اس میں کسی کو بھی شبہ نہیں ہے کہ رگ وید کے زمانے میں گھوڑا موجود تھا۔ دوسرا یہ کہ اس علاقہ کی گرم مرطوب آب و ہوا میں گھوڑے کی ہڈیوں یا لکڑی کی گھوڑا گاڑی کے اتنے دنوں بعد کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ ہڑپا کے ویدک ہونے کے بڑے علم بردار بی بی لال کا بھی یہی کہنا ہے۔


تیسرا یہ کہ اس تہذیب سے منسلک گجرات کے سرکوٹڑا علاقہ میں صرف ایک گھوڑے کی ہڈی ملی جو 2100 قبل مسیح سے 1700 قبل مسیح کی ہے۔ ماہرین کی تحقیق کے بعد یہ ثابت ہوا یہ گھوڑا جنگلی نہیں بلکہ پالتو تھا کیونکہ سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ پلائسٹوسین 11700 قبل مسیح کے بعد تک ہندوستان میں جنگلی گھوڑا موجود نہیں تھا۔ گھوڑے کا پالتو بننا 3500 قبل مسیح کے بعد ہی شروع ہوا۔

جیولوجی کے ماہر بوکونائی کی دو دلائل اہم ہیں، پہلا تو یہ کہ پلائسٹوسین زمانہ جو تقریباً 26 لاکھ سال سے 11700 سال پہلے کا وقفہ ہے۔ اس زمانہ میں ہندوستان میں کوئی جنگلی گھوڑا نہیں تھا، اس لیے جس اکلوتے گھوڑے کی ہڈی ملی وہ نہ صرف یقیناً پالتو تھا بلکہ باہر سے لایا گیا تھا۔ اگر ان دلائل کو نہ بھی مانیں تو یہی کافی ہے کہ ویدوں میں گھوڑے کی بہت اہمیت ہے جبکہ ہڑپا تہذیب کی ملی ہزاروں مہروں اور مورتیوں میں گھوڑا سرے سے غایب ہے۔ اگر اس وقت گھوڑا ہوتا تو ہڑپا کے لوگوں نے جہاں اور جانوروں، افسانوی یوونیکارن، بیل، بھیڑ، مور، ہاتھی، چیتا اور گینڈے کی تصویریں بنائیں ہیں، تو وہ گھوڑے کی تصویر کیوں نہ بناتے؟گرم اور مرطوب آب و ہوا کی وجہ سے گھوڑے کی باقیات کا نہ ملنا تو سمجھ آتا ہے لیکن کسی بھی مہر پر گھوڑا موجود نہ ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔

اگر چند گھوڑوں کی ہڈیاں کھدائی میں برآمد ہوتیں تو اس میں کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ اپنے شباب کے زمانہ میں ہڑپا کے لوگوں کا اس پاس کی دیگر تہذیبوں اور خاص کر میسوپوٹامیا سے بہت گہرے تجارتی تعلقات تھے اور اس کے ثبوت ہیں کہ وہ یہاں سے ہاتھی، بیل اور مور میسوپوٹامیا لے گئے تو وہاں سے کچھ پالتو گھوڑے لانے کا امکان ہے۔ ان سب باتوں کے علاوہ رگ وید میں گھوڑے کی اہمیت اور ہڑپا میں اس کا کسی بھی طرح کوئی ذکر نہ ہونا اس کا ثبوت ہے کہ ہڑپا اور رگ وید کے لوگوں میں کوئی تعلق نہیں تھا۔


پرانے زمانے کی کھدائی کے ماہر ایم کے دھوالکر نے اپنے بیان میں گھوڑے دلچسپ انداز میں یوں ذکر کیا ہے، ’’اگر اپ کوئی کہانی پڑھ رہے ہوں تو یہ کیسے پتہ کریں کہ وہ کس زمانہ کی ہے؟ اگر کہانی میں موبائل فون کا ذکر ہے تو وہ یقیناً بیسویں صدی یا اس کے بعد کی ہے۔ رگ وید میں دو چیزیں وقت کی نشان دیہی کرتی ہیں۔ پہلی تو گھوڑے کی موجودگی، یہ بہت اہم ہے کیونکہ گھوڑا آریوں کا سب سے زیادہ پسندیدہ جانور ہے اور ان کی مذہبی رسومات میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔ دوسرا رگ وید میں آیاس یعنی تانبے کا ذکر ہونا۔ چونکہ لوہا تانبے کے بعد دریافت ہوا تھا، اس لئے انہوں نے اس کا نام 'کرسنا آیاس' یعنی کالا تانبا رکھا تھا۔ آثار قدیمہ کے ثبوتوں پر انحصار کریں تو پالتو گھوڑا 1900 قبل مسیح کے آس پاس ہندوستان میں آیا جو ہڑپا تہذیب کے خاتمہ کا وقت (1900-1500 قبل مسیح) ہے۔ لوہے کی موجوگی کے ثبوت 1400-1500 قبل مسیح میں ملنا شروع ہوتے ہیں۔ ان باتوں کے ذکر سے یہ ثابت ہوا کی رگ وید 2000-1400 قبل مسیح کے دوران ہی تخلیق کیا گیا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب سے پرانا وید، رگ وید ہڑپا تہذیب کے بعد کا ہے یعنی ہندوستان کی پہلی عظیم تہذیب کا ویدوں سے کوئی تعلق نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔