کھیل کے جذبے کو بھی منافرت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا... سہیل انجم

اگر سیاست اتنی نچلی سطح پر گر جائے کہ ہر کام میں سیاسی مفاد کو ہی ترجیح دی جائے اور اسی کو ہی مقدم سمجھا جائے تو اس سے اسپورٹس مین اسپرٹ کا جنازہ نکل جاتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>نریندر مودی اسٹیڈیم احمد آباد، تصویر یو این آئی</p></div>

نریندر مودی اسٹیڈیم احمد آباد، تصویر یو این آئی

user

سہیل انجم

کھیل کے بارے میں ’اسپورٹس مین اسپرٹ‘ کی اصطلاح بہت پرانی ہے۔ یعنی کھیل کو کھیل کی حیثیت سے لینا چاہیے کسی اور حیثیت سے نہیں۔ کھیل کے جذبے کو کسی اور جذبے کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کھیل میں ہار اور جیت کو نہ تو اپنی انا کا مسئلہ بنانا چاہیے اور نہ ہی کسی سے دشمنی نکالنے کا ذریعہ۔ اسی طرح کھیل کے سیاسی استعمال کو بھی سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ ہاں دو ملکوں کے درمیان کھیل ڈپلومیسی ضرور دیکھی گئی ہے۔ اس ڈپلومیسی کا مقصد کسی دوسرے ملک کے ساتھ نفرت کا کھیل کھیلنا نہیں ہوتا بلکہ دو ملکوں کے درمیان دوستانہ مراسم کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کھیل ڈپلومیسی کا مشاہدہ ماضی میں کیا جا چکا ہے۔

لیکن اگر سیاست اتنی نچلی سطح پر گر جائے کہ ہر کام میں سیاسی مفاد کو ہی ترجیح دی جائے اور اسی کو ہی مقدم سمجھا جائے تو اس سے اسپورٹس مین اسپرٹ کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ پھر کھیل کھیل نہیں رہتا کچھ اور ہو جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہندوستان میں کھیل کو بھی سیاسی مفاد پرستی کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کی آڑ میں مخالفین کو نشانہ بھی بنایا جانے لگا ہے۔ کرکٹ ایک بے حد مقبول کھیل ہے۔ ماضی میں بھی حکمراں کرکٹ میدان میں جا کر کرکٹ کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ان کا مقصد اس کا استحصال نہیں رہا۔ بلکہ کھیل سے صرف لطف اٹھانا رہا ہے۔


مبصرین کا خیال ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ہر معاملے کو سیاسی چشمے سے دیکھتے ہیں خواہ وہ ملکی معاملہ ہو یا غیر ملکی۔ قومی ہو یا بین الاقوامی۔ یہاں تک کہ انھوں نے کرکٹ کے مقابلے سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اس وقت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اسی دوران ہندوستان میں کرکٹ کا عالمی مقابلہ منعقد ہوا۔ فائنل میچ ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان ہوا۔ اور میچ کہاں ہوا احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں۔ پہلے اس کا نام سردار پٹیل اسٹیڈیم تھا لیکن وزیر اعظم مو دی نے اس میں توسیع کی اور پھر اس کا نام اپنے نام پر رکھ لیا۔ کسی برسرکار وزیر اعظم نے اس سے قبل کسی اسٹیڈیم کا نام اپنے نام پر نہیں رکھا تھا۔

بہرحال وزیر اعظم بھی اس مقابلے سے لطف اندوز ہونے کے لیے گئے۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد کھیل سے لطف اندوز ہونا نہیں بلکہ سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔ کانگریس کی سوشل میڈیا ہیڈ سپریا شرینیت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ راجستھان کے ایک بی جے پی لیڈر نے شرینیت کو بی جے پی کے پلان کے بارے میں بتایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس راز کو راز رکھیں۔ پلان کے مطابق اگر ہندوستان  جیت جاتا جس کی قوی امید تھی تو وزیر اعظم مودی ہندوستانی کرکٹ ٹیم اور ورلڈ کپ کی ٹرافی کے ساتھ جے پور میں ایک کھلی بس میں روڈ شو کرتے۔


یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے راجستھان میں ہندوستان کی جیت کے تعلق سے بڑی تعداد میں بینر اور پوسٹر چھپوا لیے تھے۔ ان پر وزیر اعظم کی ایک تصویر تھی جس میں وہ کرکٹ جرسی پہنے ہوئے ہیں اور انگریزی کے حرف وی یعنی وکٹری یعنی جیت کا نشان دکھا رہے ہیں۔ یعنی ورلڈ کپ کی جیت کو کیش کرانے کی پوری تیاری تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم مودی کے ساتھ وزیر داخلہ امت شاہ بھی اسٹیڈیم میں موجود تھے۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بی جے پی نے ہندوستانی ٹیم کی جیت کو سیاسی رنگ دے کر اس سے الیکشن میں فائدہ اٹھانے کا پلان بنایا تھا۔ لیکن افسوس کہ ہندوستانی ٹیم کی شکست ہو گئی۔ اگر چہ ہار اور جیت کا فیصلہ کارکردگی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ہندوستانی ٹیم پورے ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے اس لیے اس کی شکست پر ہمیں بھی افسوس ہے۔

لیکن اس معاملے نے اس وقت ایک ناخوشگوار موڑ لے لیا جب ہندوستانی ٹیم کی شکست کے بعد وزیر اعظم مودی کو پنوتی کہا جانے لگا۔ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ ان کے بارے میں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ان کے وہاں مو جود ہونے سے ٹیم نہیں ہاری بلکہ وہ اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہاری۔ لیکن پتہ نہیں کیوں کچھ اسپورٹس مین نے ہی ان کو پنوتی کہہ دیا اور کہا کہ اگر وہ اسٹیڈیم میں نہیں آئے ہوتے تو ہندوستان نہیں ہارتا۔ پنوتی کا عام مفہوم دراصل بدشگونی ہوتا ہے۔ ہم اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ وزیر اعظم کی وجہ سے بد شگونی ہوئی اور ہندوستان ہار گیا۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اگر کوئی بڑی شخصیت اور وہ بھی کوئی وزیر اعظم اسٹیڈیم میں پہنچ جائے تو اس ملک کے کھلاڑیوں پر نفسیاتی دباؤ پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان  کا فطری کھیل متاثر ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ وزیر اعظم کی موجودگی کی وجہ سے کھلاڑیوں کا دھیان بھنگ ہو گیا ہو۔


جب ایک بار سوشل میڈیا پر پنوتی لفظ ٹرینڈ کرنے لگا تو پھر ہر جگہ یہی لفظ چھا گیا۔ عوام نے بھی وزیر اعظم کو اسی نام سے یاد کرنا شروع کر دیا۔ سوشل میڈیا پر اس پر بحث ہونے لگی۔ گودی میڈیا پر بھی بحث ہوئی۔ البتہ سوشل میڈیا پر جہاں لوگوں نے لطف لیا وہیں گودی میڈیا نے وزیر اعظم کو اس نام سے یاد کرنے کو بہت برا مانا۔ عوام کے ذہنوں پر یہ لفظ وزیر اعظم کے نام کے ساتھ کیسے چھا گیا اس کا اندازہ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی کی ایک ریلی سے لگایا جا سکتا ہے۔ جب وہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو بھیڑ سے پنوتی پنوتی کی آواز آنے لگی۔ اس پر راہل نے بھی اس لفظ کو دو تین بار دوہرایا اور کہا کہ پنوتی نے ہرا دیا۔

بی جے پی کو یہ بات بہت بری لگی۔ وہ عوام کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتی تھی البتہ اس نے الیکشن کمیشن سے راہل گاندھی کی شکایت کر دی۔ الیکشن کمیشن بھی شاید ایسی ہی شکایتوں پر کارروائی کے لیے بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے فوراً راہل کو نوٹس بھیج دیا۔ جبکہ اس سے قبل خود وزیر اعظم مودی نے راہل کو مورکھوں یعنی احمقوں کا سردار کہا تھا۔ کانگریس نے ان کے خلاف کمیشن میں کوئی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کمیشن نے وزیر اعظم کو کوئی نوٹس بھیجا۔ جبکہ انصاف کی بات تو یہ تھی کہ الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم کو بھی نوٹس بھیجنا چاہیے تھا۔ اس سے قبل بھی انھوں نے ضابطہئ اخلاق کی خلاف ورزی کی تھی اور شکایت بھی ہوئی تھی لیکن کمیشن نے کوئی کارروائی نہیں کی۔


ادھر کچھ کرکٹ مداحوں نے آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں جس پر وہاں کے کھلاڑی خوف زدہ ہو گئے ہیں۔ اسی درمیان آسٹریلیا کے ایک کرکٹر مشیل مارش کی ایک تصویر وائرل ہو گئی جس میں وہ ورلڈ کپ کی ٹرافی کے اوپر پیر پھیلا کر رکھے ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں علیگڑھ کے ایک شخص پنڈت کیشو کو یہ بات بہت بری لگ گئی اور انھوں نے علیگڑھ میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی ہے۔ انھوں نے شکایت کی ایک کاپی وزیر اعظم مودی کے نام ارسال کر دی اور ان سے اپیل کی کہ اس کرکٹر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کیشو پنڈت کے مطابق مارش کے اس قدم سے ہندوستانی مداحوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اگر ہندوستان نے ٹرافی جیتی ہوتی اور اس پر کوئی کھلاڑی پیر رکھتا تو یہ بات سمجھی جا سکتی تھی کہ اس نے ہندوستان کی توہین کی ہے۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آسٹریلیا کے کرکٹر نے اپنی جیتی ہوئی ٹرافی پر پیر رکھا تو ہندوستان کے مداحوں کے جذبات کو کیسے ٹھیس لگ گئی۔ دوسری بات یہ کہ وہ ٹرافی ہے کوئی مذہبی کتاب نہیں جو اس پر پیر رکھنے سے توہین ہوئی اور جذبات بھڑک اٹھے۔ ممکن ہے کہ کیشو پنڈت کا تعلق بی جے پی سے ہو یا وہ وزیر اعظم سے ہمدردی رکھتے ہوں اور انھیں پنوتی کہنا انھیں بہت برا لگا ہو۔ برا تو ہمیں بھی لگا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس شرمندگی کا انتقام کسی اور سے لیا جائے۔ اسی کو کہتے ہیں کہ دھوبی پر بس نہیں چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دیے۔ جب ہر معاملے کو سیاسی مفادپرستی سے جوڑ دیا جائے گا اور اس کا استحصال کرنے کی کوشش کی جائے گی تو پھر ایسی ہی صورت حال جنم لے گی۔ یہ بات کھیل کے جذبے کے سراسر منافی ہے۔    

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔