امام حسین کی انقلابی مہم میں خواتین کا کردار... نواب علی اختر

اضطراب و بے چینی کی قیامت خیز رات حسین کی بہنوں نے عباس کی طرح پہرہ دیتے ہوئے ٹہل ٹہل کر گزار دی۔

<div class="paragraphs"><p>GettyImages</p></div>

GettyImages

user

نواب علی اختر

کربلا کی شہادت و اسیری کے دوران خواتین نے اپنی وفاداری اور ایثار و قربانی کے ذریعہ اسلامی تحریک میں وہ رنگ بھرے ہیں کہ جن کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے۔ باپ، بھائی، شوہر اور کلیجے کے ٹکروں کو اسلام و قرآن کی بقا کے لیے راہ خدا میں مرنے کی اجازت دے دینا اور زخم و خون سے رنگین جنازوں پر سجدہ شکر ادا کرنا آسان بات نہیں ہے۔ اسی چیز نے ضمیر فروش قاتلوں کو انسانیت کی نظروں میں ذلیل و خوار کر دیا۔ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ضبط اشک نے مردہ دلوں کو بھی جھنجھوڑ کے رکھ دیا، مگر وہ خود پورے وقار و جلال کے ساتھ قتل و اسیری کی تمام منزلوں سے گزر گئیں اور شکوے کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ آیا۔ نصرت اسلام کی راہ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہیں اور اپنے عزم و ہمت کے تحت کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں حسینیت کی فتح کے پرچم لہرا دیے۔

شہزادی حضرت زینب اور ان کی ہم قدم و ہم آواز ام کلثوم، رقیہ، رباب، لیلا، ام فروہ، سکینہ، فاطمہ اور عاتکہ نیز امام کے اصحاب و انصار کی صاحب ایثار خواتین نے شجاعت اور ایثار و قربانی کے وہ لازوال نقوش ثبت کئے ہیں جن کو کسی بھی صورت مٹایا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ عصر عاشورا کو امام حسین کی شہادت کے بعد، جب اہل حرم کے خیموں میں آگ لگا دی گئی، بیبیوں کے سروں سے چادریں چھین لی گئیں تو جلتے خیموں سے نکل کر مصیبت زدہ خواتین اور بچے کربلا کی جلتی ریت پر بیٹھ گئے۔


امام وقت سید سجاد غشی کے عالم میں تھے، جناب زینب نے اپنی بہن ام کلثوم کے ساتھ آگ کے شعلوں سے خود کو بچا بچا کر بھاگتے بچوں کو ایک جگہ جمع کیا، کسی بچے کے دامن میں آگ لگی تھی تو کسی کے رخسار پر طمانچوں کے نشان تھے، کوئی ظالموں کی یلغار کے دوران پاؤں تلے دب کر جان دے چکا تھا تو کوئی پیاس کی شدت سے جاں بلب تھا۔ اضطراب و بے چینی کی قیامت خیز رات حسین کی بہنوں نے عباس کی طرح پہرہ دیتے ہوئے ٹہل ٹہل کر گزار دی۔11 محرم کی صبح اسیری کے پیغام کے ساتھ نمودار ہوئی۔ لشکر یزید شمر اور خولی کی سرپرستی میں رسیاں اور زنجیریں لے کر آگیا۔ عورتیں رسیوں میں جکڑ دی گئیں اور بیمار سید سجاد کے گلے میں طوق اور ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈال دی گئیں، بے کجاوہ اونٹوں پر سوار، عورتوں اور بچوں کو قتل گاہ سے لے کر گزرے اور بیبیاں کربلا کی جلتی ریت پر اپنے وارثوں اور بچوں کے بے سر لاشے چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوگئیں۔

اس ہولناک اسیری کی دھوپ میں بھی اہل حرم کے چہروں پرعزم و استقامت کی کرنیں بکھری ہوئی تھیں۔ نہ گھبراہٹ، نہ بے چینی، نہ پچھتاوا نہ شکوہ۔ اعتماد و اطمینان سے سرشار نگاہیں اور نور یقین سے گلنار چہرے۔ مظلومیت کا یہی وہ رخ ہے جو بتاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنی اس انقلابی مہم میں اہل حرم کو ساتھ لے کر کیوں نکلے تھے؟ اور جناب زینب کو کیوں بھائی کی ہمراہی پر اس قدر اصرار تھا؟ اور ابن عباس کے منع کرنے پر کیوں امام حسین نے کہا تھا کہ ’خدا ان کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے‘۔ صرف ماؤں کی گودیوں سے شیر خوار بچوں کی قربانیاں، اصل مقصود نہیں ہو سکتیں۔ جوان بیٹوں اور بھائیوں اور نوخیزوں اور نونہالوں کے لاشوں پر صبر و شکر کے سجدے بھی خواتین کی ہمراہی کا اصل سبب نہیں کہے جا سکتے۔


اہل حرم کی اسیری، کتاب کربلا کا ایک مستقل باب ہے۔ اگر حسین عورتوں کو ساتھ نہ لاتے اور انہیں اسیروں کی طرح کوفہ و شام نہ لے جایا جاتا تو حکمران وقت کے شاطر نمک خوار صحرائے کربلا میں پیش کی گئی خاندان رسول کی عظیم قربانیوں کو رائیگاں کر دیتے۔ یزیدی ظلم و استبداد کے دور میں جان و مال کے خوف اور گھٹن کے ساتھ حصول دنیا کی حرص و ہوس کا جو بازار گرم تھا اور کوفہ و شام میں بسے مال و زر کے بندوں کے لیے بیت المال کا دہانہ جس طرح کھول دیا گیا تھا، اگر حسین کے اہل حرم نہ ہوتے اور حضرت زینب اور امام سجاد کی قیادت میں اسرائے کربلا نے خطبوں اورتقریروں سے جہاد نہ کیا ہوتا تو سرزمین کربلا پر بہنے والا شہدائے راہ حق کا خون رائیگاں چلا جاتا اور رسل و رسائل سے محروم دنیا کو برسوں خبر نہ ہوتی کہ آبادیوں سے میلوں دور کربلا کی گرم ریت پر کیا واقعہ پیش آیا اور اسلام و قرآن کو کس طرح تہہ تیغ کر دیا گیا۔

دراصل یزیدی لشکر اہل حرم کو بازاروں اور درباروں میں (معاذاللہ) ذلیل و رسوا کر دینے کے لیے لے گیا تھا مگر عزت و سرفرازی کے مرکز و محور خاندان رسول نے اپنی حق گوئی و حق نمائی کے ذریعے خود یزید اور یزیدیوں کو قیامت تک کے لئے ذلیل و ناکام کر دیا۔ جناب زینب کبریٰ کی اس عظیم خدمت کے تحت شاعر نے بالکل صحیح کہا ہے:

زینب کا معجزہ ہے کہ کرب و بلا کے بعد

تبدیل کرسکا نہ کوئی واقعات کو

ظالم کو منہ چھپانے کی مہلت نہ مل سکی

اس طرح سے پلٹ دیا کل حادثات کو


اہل بیت علیہم السلام کے حرم کی اسیری کی پہلی رات سے ہی قیام امام حسین کا رد عمل شروع ہو گیا اور اسی رات جنگ جمل اور جنگ صفین میں دونوں آنکھوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بزرگ رہنما عبداللہ بن عفیف ازدی نے اپنے بیٹوں اور غلاموں کے ہمراہ ابن زیاد کے خلاف قیام کیا۔ وہ پوری رات نابینا ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کی مدد سے یزیدی فوجیوں کے خلاف لڑے اور ابن زیاد کے متعدد فوجیوں کو فی النار کرنے کے بعد شہید ہوئے اور یوں فتح کا جشن اموی بادشاہت کے لئے ڈراؤنے سپنے میں تبدیل ہو گیا اور یہی سلسلہ شام کی طرف جاتے ہوئے مختلف شہروں اور قصبوں میں بھی عوامی تحریکوں کی صورت میں جاری رہا۔

10 محرم سن 61 ھجری کو کربلا میں امام حسین اور احیائے اسلام کے دیگر شہداء نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کر کے اسلام کو حیات ابدی عطا کر دی۔ عاشورا کے مختصر سے لشکر کے قائد اور اس کے ہر سپاہی نے دنیا والوں کو ظلم کے خلاف پورے قد سے کھڑے ہونے کا درس دیا اور انہیں بتایا کہ اس راہ میں مرنے والے مرتے نہیں بلکہ ان کے دشمن لعن دائم کے حقدار ٹھہرتے اور وہ خود ابد تک زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے خون نے اسلام کو زندہ کیا ہوتا ہے اور جب تک اسلام زندہ و پائیدار ہے اسلام کی راہ میں مرنے والوں کو بھی زندہ ہی رکھتا ہے۔


امام حسین علیہ السلام ہمیشہ کے لئے دینداروں اور حریت پسندوں کے نزدیک اعلی و ارفع مقام پر فائز ہوئے اور عدل و انصاف کے علمبرداروں کے لئے عملی نمونہ بن گئے اور مومنوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے 50 برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ سنہ 61 ہجری میں ذی القربی کا حق ادا کرتے ہوئے ظالم و جابرحکمرانوں نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا۔ امام نے اپنے عزیز قربان کر دیئے، خاندان رسول اللہ بے چین، دختران رسول اللہ بے پناہ، فرزندان رسول اللہ اسیر، مصیبت و مظلومیت کے مناظر تاریخ کی آنکھوں میں ثبت اور صدائے ہل من ناصر ابدیت کی سماعتوں میں ضبط ہو گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔