دارالعلوم دیوبند کا ملک کی جنگ آزادی میں کردار... مولانا ارشد مدنی

ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے لاعلمی پر مبنی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مولانا ارشد مدنی

آج ہم یوم جمہوریہ کی 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ ہر طرف جشن اور خوشی کا ماحول ہے۔ لیکن یہی وہ موقع ہے کہ جب ہم اپنے ان اکابرین کو بھی یاد کریں جنہوں نے اس دن کے لئے عظیم قربانیاں دیں، یہاں تک کہ آزادی کے لئے ان میں سے بہت سے ہنستے ہوئے پھانسیوں پر جھول گئے۔ آزادی کی اس طویل جدوجہد اور سیکولر دستور سازی میں دارالعلوم دیوبند اور خاص طور پر جمعیۃ علماء ہند کا جو قائدانہ کردار رہا ہے وہ ہر اعتبار سے تاریخی ہے۔ صدیوں کی غلامی کے بعد آزاد ہوئی ایک عظیم مملکت کو اتحاد کی ڈور میں باندھ کر جمہوریت کے ستون پر اسے کھڑا کرنے میں دوسرے برادران وطن کے مقابلے ہمارے ملی قائدین کا کلیدی کردار تھا۔ ماضی کے بطن سے ہی تاریخ پیدا ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک اور قوم کے لئے اس کی تاریخ تحریک اور توانائی کا سرچشمہ ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں ایسا نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں نے تاریخ کو مسخ کرنے کے لئے جس طرح کا پروپیگنڈہ کیا اس سے ہماری تاریخ مفروضوں اور فرضی داستانوں کا مجموعہ سی بن کر رہ گئی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی جنگ آزادی میں علماء کا جو روشن کردار رہا ہے اسے تقریباً فراموش کیا جا چکا ہے۔ جب کہ تاریخی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی آزاد ی کی تحریک علماء اور مسلمانوں نے شروع کی تھی اور یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایا جب اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا تھا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت علماء نے ہی بلند کیا تھا اور جنگ آزادی کا صور بھی انہوں نے ہی پھونکا تھا۔

ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے لاعلمی پر مبنی ہے۔ آزادی کی تاریخ 1857ء سے نہیں بلکہ 1799ء میں اس وقت شروع ہوئی جب سلطان ٹیپو شہیدؒ نے سرنگاپٹم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا، جس وقت ان کے خون میں لتھڑی ہوئی لاش پر انگریز فوجی نے کھڑے ہو کر یہ بات کہی تھی کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘ اس کے بعد ہی انگریز یہ کہنے کی ہمت پیدا کر پائے کہ ’’اب کوئی طاقت ہمارا مقابلہ کرنے والی، ہمارے پنجے میں پنجہ ڈالنے والی نہیں ہے‘‘، اور پھر انہوں نے عملی طور پر چھوٹے چھوٹے نوابوں اور راجاؤں کو شکست دے کر ان کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا۔


شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کو بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، انھیں زہر دے دیا گیا، ان کی جائیداد کو قرق کر لیا گیا، ان کی آنکھوں کی بینائی اس زہر سے جاتی رہی، ان کو دہلی شہر سے در بدر کر دیا گیا۔ ان تمام سخت ترین حالات میں بھی انھوں نے اپنی موت سے پہلے دو روحانی شاگرد پیدا کر دیئے۔ ایک حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلویؒ، اور دوسرے شاہ اسماعیل شہیدؒ۔ ان لوگوں نے پورے ملک کے دورے کئے اور مسلمانوں سے جہاد کی بیعت لی اور اس بات کا عہد لیا کہ وہ مل کر ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کر دیں گے۔

اس کے بعد بالاکوٹ کے میدان میں ان دونوں بزرگوں کی قیادت میں وطن کی آزادی کے لئے جنگ لڑی گئی جس میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے آزادیٔ وطن کے لئے جنگ آزادی کی پہلی جنگ تھی جو دوسری آزادی کی جدوجہد (1857) کی بنیاد بنا۔ اس جنگ سے ناکامی کے بعد جو لوگ واپس ہوئے انہوں نے ایک بار پھر اِکائیوں کو جمع کیا اور افراد تیار کئے، اور چھبیس سال کی محنت کے بعد 1857 میں دوبارہ آزادیٔ وطن کے لئے جہاد شروع ہوا، جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے لیکن تاریخی سچائی یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی۔


آزادیٔ وطن کے لئے یہ دوسری جنگ بھی ناکام ہوئی۔ اس کی پاداش میں علماء کو گرفتار بھی کیا گیا اور کچھ علماء نے اپنے آپ کو نظر بند کر لیا۔ جب یہ علماء تین چار سال کے بعد جیل سے باہر نکلے اور عام معافی کا اعلان ہوا تو انھوں نے بڑی عجیب و غریب چیز دیکھی کہ وہ یتیم جن کے باپ جامِ شہادت نوش کر گئے، انگریز کی دشمنی کی وجہ سے ان کے یتیم بچے سڑکوں پر ہیں، ان کے سرپر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے جس کا فائدہ اٹھاکر انگریزوں نے فکری محاذ پر بھی اپنی لڑائی تیز کر دی۔ چنانچہ کرسچن اسکول، عیسائی پوپ اور چرچ کے لوگ باہر نکل کر ان یتیموں کا ہاتھ پکڑتے اور کہتے کہ ہمارے ساتھ چلو ہم تم کو کھانا، رہائش اور تعلیم مفت دیں گے۔ مقصد ذہنی اعتبار سے ان کو انگریز بنانا تھا۔ یہ وہ بچے تھے جن کے آباء و اجداد نے انگریز دشمنی میں جدوجہد آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا تھا، لیکن اب انہیں کی اولاد انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کو فکری اعتبار سے اپنا غلام بنانا چاہتے تھے۔ ان حالات کو دیکھ کر علماء کرام سر جوڑ کر بیٹھے اور کچھ فیصلے لیے۔ اب ہمیں آزادئ وطن کے لئے ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جہاں ملک کو آزاد کرانے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے افراد تیار کئے جا سکیں۔ چنانچہ مکمل سات سال کے بعد 1866 میں دارالعلوم دیوبند کی بنیادرکھی گئی اور ہمارے اکابرین کے ذریعہ بالکل وہی نعرہ دیا کہ ہم بچوں کومفت کھانا اور رہائش کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ کریں گے اور ان بچوں کو ان کے آباء و اجداد کی طرح جدوجہد آزادی کے لئے قوت بنائیں گے۔ لیکن یہ تو فقیر اور بوریا نشین تھے، ان لوگوں نے مدرسہ بنایا اور قوم کو پیغام دیا کہ ’’اگر غلامی کی لعنت کی زنجیر توڑ کر آزاد ہونا ہے تو اس مدرسہ کو زندہ رکھیں‘‘۔ پھر لوگوں نے دل کھول کر اس کی مدد کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند برسوں کے اندر بخارا، سمرقند، تاشقند اور ہندوستان کے شہر شہر سے بچے جمع ہونا شروع ہو گئے جن کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ ہمارے علماء قوم کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ اگر یہ مدرسہ زندہ ہے تو آپ زندہ ہیں، اور آپ کی اولاد زندہ ہے، آپ کے گھر میں اسلام کی روشنی زندہ ہے، اور آپ آزاد ہیں۔

ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جنگ آزادی، اسلام کی آبیاری، وطن کی حفاظت اور اسلام دشمن طاقتوں سے لوہا لینے کے لیے ایک تحریک کی شکل میں مجاہدین آزادی کو پیدا کرنے کے لئے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر دارالعلوم دیوبند نے ایسے ایسے سپوت پیدا کئے جنھوں نے پورے ملک میں آزادیٔ وطن کی شمع روشن کی۔ دارلعلوم کے ایسے پہلے سپوت مولانا محمود حسن شیخ الہند تھے جو دیوبند کے رہنے والے تھے۔ یہ دبلے پتلے اور قدرے پستہ قد تھے لیکن ان کے حوصلے پہاڑ کی طرح مضبوط تھے جس میں وطن کی آزادی کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ مادر وطن کی آزادی کے لئے انہوں نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ صوبہ جات متحدہ کا انگریز گورنر مسٹن کہا کرتا تھا:

’’اگر شیخ الہند کو جلا کر راکھ کر دیا جائے تو ان کی راکھ کے اندر سے بھی انگریز دشمنی کی بو آئے گی۔‘‘


انھوں نے ’ریشمی رومال‘ کی تحریک چلا کر انگریزوں کو حیران کر دیا، انگریزوں کو آخر تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اس تحریک کے پیچھے اصل دماغ کس کا ہے۔ انگریز حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور دوسرے علماء کو اس تحریک کا سربراہ سمجھتے رہے لیکن شیخ الہندؒ کا جو دماغ تھا وہ انگریز جیسی ذہین قوم کی سمجھ سے بالاتر تھا اور انہوں نے سینکڑوں ایسے جیالے اور جید علماء پیدا کئے جنہوں نے انگریز حکومت کی ناک میں دم کر دیا تھا۔ شیخ الہندؒ کے ساتھ مالٹا میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ بھی اسیر تھے جوان کے خاص شاگر اور خاص خادم کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے شیخ الہندؒ کی خاطر جیل جانا ضروری سمجھا اور شیخ الہندؒ کی خدمت کے لیے جیل کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔

شیخ الہندؒ آگے چل کر دارالعلوم کے سب سے بڑے استاذ بنے، ساتھ ہی انھوں نے آزادیٔ ہند کے لئے اپنے شاگردوں کی ایک ٹیم اور جماعت تیار کر کے باضابطہ تحریکِ آزادی شروع کی۔ تاریخ میں یہ تحریک ’تحریک ریشمی رومال‘ کے نام سے مشہور ہے۔ شیخ الہندؒ نے اس تحریک میں رنگ و روغن بھرنے کے لئے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیجا۔ دوسری طرف شیخ الہندؒ خود خلافتِ اسلامیہ سے تعاون حاصل کرنے کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ شیخ الہندؒ کی یہ تحریک اگر کامیاب ہو گئی ہوتی تو ہندوستان کب کا آزاد ہو گیا ہوتا۔ لیکن قدرت ابھی اور قربانیاں چاہتی تھی۔ شریفِ مکہ کی غداری کی وجہ سے ریشمی خطوط (ریشمی رومال تحریک کے خطوط) پکڑے گئے اور حجاز مقدس ہی سے آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد آپ کو مالٹا بھیج دیا گیا۔ شیخ الہندؒ جب مالٹا سے رہا ہو کر آئے تو سارا منظر نامہ بدل چکا تھا۔ اس لئے انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور جمعیۃ علماء ہند کو مشورہ دیا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دے اور تشدد کو چھوڑ کر عدم تشدد کا نعرہ لگائے۔ شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد خاص رفیق مالٹا حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور دوسرے شاگرد حضرت مفتی کفایت اللہؒ وغیرہ نے ان کے نقش قدم پر چل کر تحریکِ آزادی کو آگے بڑھایا۔


یہ ایک سوال ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی ضرورت کیوں پڑی اور شیخ الہندؒ نے اس کو کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مشورہ کیوں دیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدوجہد آزادی میں کوئی ایسی مشترکہ تحریک نہیں تھی، جس کے بینر تلے مسلک و مذہب کی قید سے آزاد ہو کر محض ایک ہندستانی ہونے کی بنیاد پر یہ لڑائی لڑی جائے۔ ملک کا یہی نقشہ تھا کہ 23 نومبر 1919 میں بمقام دہلی ’خلافت کانفرنس‘ ہوئی، جس میں ملک کے کونے کونے سے علمائے کرام تشریف لائے۔ ایک جگہ سر جوڑ کر بیٹھے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ حضرت شیخ الہندؒ کی مالٹا کی جیل سے رہائی کی اطلاعات آ رہی ہیں اس لئے ایک ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہئے جس پر حضرت شیخ الہندؒ ہندوستان آ کر مکمل آزادیٔ وطن کی تحریک کو چلا سکیں۔ چنانچہ اسی وقت فیصلہ لیا اور امرتسر میں ہندوستان کے ممتاز علماء نے جمع ہو کر 1919 میں ’جمعیۃ علماء‘ کی بنیاد رکھی اور مفتی کفایت اللہؒ کو عارضی صدر بنایا گیا۔ حضرت شیخ الہندؒ 1920 میں مالٹا سے ہندوستان تشریف لائے اور اسی سال دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا سالانہ جلسہ ہوا جس میں ان کو جمعیۃ علماء ہند کا مستقل صدر بنایا گیا۔ آپ نے اپنے خطبۂ صدارت میں خاص طور پر علماء کو جھنجوڑا اور فرمایا کہ اسلام ایک کامل و مکمل مذہب ہے اور تمام اجتماعی اور انفرادی شعبوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ جو لوگ مدرسوں میں سبق پڑھا کر اپنے حجروں میں بیٹھے رہنے کو اسلام کے حقوق کی ادائیگی کے لئے کافی سمجھتے ہیں وہ لوگ اسلام کے پاک و صاف دامن پر داغ لگا رہے ہیں۔ اس اجلاس کے 12 روز کے بعد حضرت شیخ الہندؒ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت شیخ الہندؒ کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے حالات کے مزاج کو سمجھتے ہوئے فراست ایمانی پر مبنی ایک حکمت عملی اختیار کی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے پھیلتے زہریلے اثرات کو روکنے کے لیے برادران وطن پر مشتمل تنظیم کانگریس سے اتحاد کر کے، ملک کی مکمل آزادی کے لئے فرقہ و مذہب کی قید سے آزاد ہو کر آزادی کی جدوجہد شروع کر دی۔

آزادیٔ ملک کی خاطر جیل کی صعوبتیں:

حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے آزادی کے حوالے سے اپنے استاذ کی کڑھن اور بے چینی کو جذب کر لیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے سینہ اور دل کے اندر استعماری قوتوں کے خلاف جو آگ سمائی ہوئی تھی اس کو اور تیز تر کر دیا اور جہاد آزادی کے لئے سینہ سپر ہو گئے۔ شیخ الہندؒ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد حضرت مدنیؒ مکمل طور پر ملک کو آزادی دلانے میں لگ گئے۔ اپنے اُستاذ کی فکر کو آگے بڑھانا حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے اپنی 80 سالہ زندگی میں کم و بیش 9 سال انگریز کی جیل میں گزارے ہیں۔ یعنی یوں سمجھئے کہ ہر آٹھ دن کے اندر آپ کا ایک دن جیل میں گزرا ہے، اور اس کے اندر قید تنہائی بھی ہوئی۔ صعوبتیں اور مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کس جیل میں آپ کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی؟ تو فرمایا کہ سابرمتی جیل گجرات کے اندر قید بڑی بامشقت تھی۔

(مضمون نگار مولانا ارشد مدنی جمعیۃ علماء ہند کے صدر ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔