وہ حقیقی پیغام جو ’بھارت جوڑو یاترا‘ دے رہی ہے...اوے شکلا
راہل گاندھی جو کر رہے ہیں، اس کی اور ویسی ہمت آج ملک کے کسی لیڈر میں نہیں، وہ جو ہیں، لوگوں کے سامنے ہیں، اب عوام کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کہاں ہے
ایک سیاسی پارٹی کے طور پر بی جے پی تمام برائیوں کا جماؤڑا ہو سکتی ہے، لیکن وہ بے وقوف تو قطعی نہیں ہے۔ اور فی الحال اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ 2024 کے لوک سبھا یا پھر حالیہ اسمبلی انتخابات کے لیے راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کوئی اچھی خبر نہیں۔ بی جے پی نے جس طرح سے پدیاترا کو ٹی-شرٹ اور جوتے تک محدود کرنے کی کوشش کی، جس طرح سے اس نے اس کا ’بھارت توڑو یاترا‘ اور ’کانگریس جوڑو یاترا‘ کہہ کر مذاق بنایا، اس سے بھگوا خیمہ کی گھبراہٹ ہی دکھائی دیتی ہے۔ پھر بھی، یہ ہتھکنڈے کام کرتے نہیں دکھائی دے رہے۔ اسی وجہ سے بی جے پی پریشانی اور مایوسی میں ہے۔
گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران بی جے پی نے راہل گاندھی کی شبیہ ناسمجھ اور سیاست کے لیے ’مسفٹ‘، پارٹ ٹائم لیڈر کی بنانے کی کوششوں میں کافی وقت اور سینکڑوں کروڑ روپے خرچ کیے۔ جھوٹ کی اس زراعت سے بی جے پی ووٹ کی فصل کاٹتی رہی۔ لیکن راہل گاندھی کے پاس اس حملہ کا مقابلہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا، کیونکہ بی جے پی نے پریکٹیکل پورے پرنٹ اور ٹیلی ویژن میڈیا کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ راہل گاندھی کے پاس لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا کوئی مضبوط ذریعہ نہیں بچا تھا۔ وہ نہ تو لوگوں کو اپنی پالیسیوں کے بارے میں بتا سکتے تھے اور نہ ہی یہ ظاہر کر سکتے تھے کہ بھگوا پارٹی نے انھیں جس طرح ظاہر کیا ہے، وہ اس سے بالکل الگ انسان ہیں۔
راہل میں کچھ خاص نہیں ہوتا تو انھوں نے بھی مایاوتی، نوین پٹنایک، جگن ریڈی اور چندربابو نائیڈو کی طرح ہار مان لی ہوتی۔ لیکن وہ اس کا حل تلاش کرنے کے لیے ماضی میں گئے۔ انھوں نے ہندوستان کی جدوجہد کے سب سے طاقتور اسلحوں میں سے ایک پد یاترا پر جانے کا فیصلہ کیا۔ پدیاترا کا استعمال مہاتما گاندھی کے بعد 60 کی دہائی میں ونوبا بھاوے نے اپنے ’بھو دان آندولن‘ کے دوران اور پھر حال کے دنوں میں چندرشیکھر اور جئے پرکاش نارائن نے کیا تھا۔
ہندوستان میں اور ہندو مذہب میں بھی پدیاترا کے لیے ہمیشہ سے بہت احترام رہا ہے، کیونکہ یہ قربانی، پچھتاوا اور تپسیا کی علامت ہے۔ یہ تیرتھ یاترا سَنتوں اور مظلوم کے خلاف عدم تشدد پر مبنی جدوجہد سے جڑی ہے۔ اس لیے راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ سینکڑوں سال پرانی روایت، جنگ آزادی کی یادوں اور ہندو مذہب کے ضروری عناصر میں سے ایک پر مبنی ہے۔ حیرانی کی بات نہیں کہ بی جے پی فکرمند ہے۔
’شہنشاہ‘ کبھی بھی اپنے شاہی پنکھوں اور سجاوٹ کے بغیر سامنے نہیں آتا۔ ان کے بغیر دیکھے جانے سے وہ ڈرتا ہے اور لوگوں سے دوری بنائے رکھتا ہے۔ وہ دور اسٹیج، ایل سی ڈی اسکرین اور ہولوگرام پر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اور عوام کے درمیان کی جگہ کو ٹی وی کیمروں، ٹیلی پرامپٹر اور ٹرکوں پر بھر بھر کر لائے گئے حامیوں نے گھیر رکھا ہے۔ اپنی اس شکل میں شہنشاہ وہ نہیں کر سکتا جو راہل گاندھی اپنی یاترا کے ذریعہ کر رہے ہیں۔ راہل بھیڑ کے درمیان چلے جاتے ہیں، ان سے بات کرتے ہیں، ان سے ہاتھ ملاتے ہیں، انھیں تھپکتے ہیں، چھوٹی لڑکی کی سینڈل کے فیتے باندھتے ہیں، قبائلی خواتین کے ساتھ رقص کرتے ہیں۔
بی جے پی کو شاید اس بات کی فکر ہے کہ یہ یاترا شہنشاہ اور راہل گاندھی کے درمیان کے فرق کو بڑی ہی وضاحت کے ساتھ ظاہر کر دے گی۔ ووٹروں کو راہل گاندھی کی ان خوبیوں کو دیکھنے کا موقع ملے گا جنھیں ’درباری‘ میڈیا نے اب تک چھپایا ہے۔ ان کی سادگی اور ایمانداری، کسی بھی طرح کے دکھاوے سے دور، ان کی ہمدردی، لوگوں کے ساتھ بالکل سہل انداز میں بات چیت، دھوکہ سے بھری آج کی سیاست سے دور ایک سچی، اخلاقی شخصیت۔ مجھے لگتا ہے کہ یہی اصلی پیغام ہے جو ’بھارت جوڑو یاترا‘ دینا چاہتی ہے۔ لوگوں کو یقیناً ہی مہنگائی، بے روزگاری، کرونی پونجی واد، چینی دراندازی، سماجی جھگڑے بڑے مسائل رہیں گے جن کی بات راہل گاندھی ہمیشہ کرتے رہے ہیں۔ یہ پالیسی کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یاترا میں ہر روز 50000 سے 70000 لوگ شریک ہو رہے ہیں اور یہ تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہی رہا تو 150 دن میں راہل گاندھی تقریباً 6 سے 7 کروڑ لوگوں کے ساتھ نجی طور سے جڑ چکے ہوں گے۔ یہ ایسا امکان ہے جو بی جے پی اور کچھ غیر دور اندیش حزب مخالف لیڈروں کو بھی نئے سرے سے سوچنے کو مجبور کرے گا۔
اس میں ذرا بھی اندیشہ نہیں کہ بی جے پی کے ’وار روم‘ میں پوری سنجیدگی سے بات چیت شروع ہو چکی ہوگی کہ کیسے راہل کی اس یاترا کا مقابلہ کیا جائے۔ سمبت پاترا اور اسمرتی ایرانی جیسے لوگ اس کام میں مصروف بھی ہو گئے ہیں۔ اس ٹول کٹ میں جائز و ناجائز سبھی طرح کی ’ترکیب‘ کا استعمال کیا جائے گا اور ان میں پد یاترا کے لیے پولیس کی اجازت سے انکار، دفعہ 144 لگانا، قصداً بھڑکائے گئے تشدد، منظم احتجاجی مظاہرہ یا پھر کچھ پرانے معاملے کو پھر سے کھولا جا سکتا ہے تاکہ راہل گاندھی کو دہلی بلایا جا سکے اور انھیں مارچ چھوڑنے کے لیے مجبور کیا جا سکے۔
راہل گاندھی اور ان کی ٹیم کا اصلی امتحان تب شروع ہوگا جب پد یاترا کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، ہریانہ اور اتر پردیش جیسے بی جے پی حکمراں علاقے میں گھسے گی۔ تب دو طرح سے امتحان ہوگا۔ ایک، عام لوگوں کی حمایت۔ اور دوسرا، بی جے پی اور حکومت کا رخ۔ یہاں بی جے پی کے علاوہ ان اپوزیشن پارٹیوں کی بھی مخالفت ہوگی جن کا اہم ووٹ ان کے ووٹ فیصد سے زیادہ ہے اور وہ نہیں چاہیں گے کہ 2024 کے پہلے راہل ان کے حالات کو بگاڑ دیں۔ اروند کیجریوال اور ممتا بنرجی نے تو اس کی شروعات کر ہی دی ہے۔
کچھ لوگ مذاقیہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ اس یاترا کا مقصد کیا ہے؟ اس کا سب سے اچھا جواب خود راہل گاندھی نے دیا جب ایک صحافی سے انھوں نے کہا کہ ’’بھارت جوڑو یاترا کا پیغام لوگوں کے لیے منکسر المزاجی، ہمدردی اور احترام ہے۔ ہم کسی کو گالی نہیں دے رہے، کسی کو دھمکی نہیں دے رہے۔ ہم نرمی کے ساتھ چل رہے ہیں۔‘‘
اس بات سے انکار نہیں کہ راہل گاندھی آج وہ کر رہے ہیں جس کی ملک کے کسی بھی اور لیڈر میں ہمت نہیں ہے۔ بالکل لوگوں کے درمیان چلے جائیں، بغیر کسی تام جھام کے اور ان کے ساتھ پانچ ماہ تک رہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پانچ ماہ بعد ہندوستان کو خود کو ثابت کرنا ہوگا اور بتانا ہوگا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔
(اوے شکلا ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔