ہندوستان کو دوسرا پاکستان بننے سے روکنا ہی اپوزیشن پارٹیوں کا اولین فریضہ

یاد رکھیے کہ سنہ 2024 کا لوک سبھا چناؤ آخری چناؤ ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہندوستان میں چناؤ ہونے ہی بند ہو جائیں گے لیکن وہ چناؤ ویسے ہی ہوں گے جیسا کہ ابھی چنڈی گڑھ میئر چناؤ میں ہوا

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر / بشکریہ ایکس</p></div>

فائل تصویر / بشکریہ ایکس

user

ظفر آغا

جمہوری نظام میں اگر حزب اختلاف کارگر و سرگرم نہ ہو تو جمہوریت آمریت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمارے پڑوسی پاکستان کی ہے۔ ان دنوں وہاں کی دو سب سے بڑی اپوزیشن پارٹیاں فوج کی انگلیوں پر ناچ رہی ہیں اور ملک فوجی نظام کی سازشوں سے پریشان ہے۔ اس سے ملتا جلتا حال ہندوستان کا ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کی کم و بیش تمام اپوزیشن پارٹیاں مرکزی حکومت کے دباؤ میں ہیں۔ ان میں سے اکثر وہی کرنے پر مجبور ہیں جو مودی سرکار ان سے چاہتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تر جمہوری ادارے حکومت کی مرضی پر ہی چل رہے ہیں۔ ای ڈی کی مثال لے لیجیے۔ کبھی کانگریس پارٹی کی اعلیٰ قیادت سونیا گاندھی، راہل گاندھی تو کبھی عآپ پارٹی کے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال تو کبھی جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے تو جیل میں ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حزب اختلاف کی سب سے اہم پارٹی کانگریس کو کنگال کرنے کا بھی کام شروع ہو چکا ہے۔ ابھی حال میں کانگریس پارٹی کے تمام بینک اکاؤنٹ میں جمع رقم کو فریز کر دیا گیا۔ اب پارٹی چناؤ کے لیے پیسہ لائے تو لائے کہاں سے۔

الغرض حزب اختلاف مشکل ترین حالات سے دو چار ہے۔ اس ماحول میں آخر اپوزیشن کیسے کارگر ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سابق کانگریس صدر راہل گاندھی نے جو حکمت عملی اپنائی ہے وہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس حکمت عملی کے دو تین اہم جز ہیں۔ اولاً عوام سے اپنا رابطہ قائم کرنا۔ دوئم، اس رابطہ کے دوران وہ کام کرنا جو آئینی حدود میں ہوں۔ سوئم تمام تر سرکاری دباؤ میں بھی خود اور عوام دونوں کو پرامن بنائے رہنا۔ یہ حکمت عملی نہ صرف عوامی ہجوم اکٹھا کر رہی ہے بلکہ اس طرح عوام کی سیاسی سوجھ بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ راہل گاندھی اپنی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ میں عوام کے درمیان محض تقاریر ہی نہیں کرتے، بلکہ وہ ان سے سوال و جواب کرتے ہیں اور اس درمیان بہت کچھ سمجھا بھی دیتے ہیں۔ اب اس کا فوکس سماجی انصاف ہو گیا ہے۔ اس کے ذریعہ نہ صرف وہ بی جے پی کی عوام دشمنی کے ساتھ ساتھ اس کی عوام کو دھوکہ دینے کی حکمت عملی بھی ظاہر کر دیتے ہیں۔ ابھی ان کی یاترا اتر پردیش میں ہے۔ راہل گاندھی یاترا میں شامل ہونے والوں سے پہلے سوال کرتے ہیں۔ مثلاً چند روز قبل انھوں نے اکٹھا مجمع سے پوچھا کہ ابھی یوپی میں پولیس بھرتی امتحان کا جو پرچہ تھا وہ کیسے لیک ہو گیا؟ نوجوانوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر انھوں نے مجمع میں سے ایک نوجوان کو بلایا اور اس سے پوچھا بھائی یہ کیسے ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ سمجھ سے پرے ہے۔ وہ شدید غصے میں تھا او راس نے بتایا کہ وہ دو تین سال سے اپنا آبائی وطن چھوڑ کر الٰہ آباد میں پڑا ہے۔ کوچنگ پر اب تک ہزاروں روپے خرچ کر چکا ہے۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے۔ تب راہل گاندھی نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کس درجے کا ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ پچھڑی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد راہل گاندھی نے اس کو سمجھایا کہ بھائی ان سرکاری نوکریوں کے نام پر حکومت نہ صرف لاکھوں روپے لیتی ہے بلکہ وہ ہزاروں غریبوں کو دھوکہ بھی دے رہی ہے۔


جہاں تک اپوزیشن اتحاد کا سوال ہے، تو اپوزیشن پارٹیوں پر حکومت کا زبردست دباؤ ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو توڑا جا رہا ہے۔ لیکن اس دباؤ سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں تازہ مثال کانگریس پارٹی اور سماجوادی پارٹی کا اتر پردیش میں ساتھ آنا ہے۔ اتر پردیش میں ان دونوں پارٹیوں کے درمیان اگلا چناؤ مل کر لڑنے کے لیے معاہدہ ہو گیا ہے۔ کیا اتر پردیش میں ان دونوں پارٹیوں پر حکومت کا دباؤ نہیں تھا۔ ایسا سوچنا بھی بے کار ہے۔ لیکن وہ اپنے راستے پر بڑھتے رہے اور بالآخر اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

ظاہر ہے کہ ان تمام مسائل کا کوئی سیدھا حل تو ہے نہیں۔ حالات سے کیسے نپٹا جائے یہ دیکھنا ہوگا۔ اولین تو جیسا کہ بارہا کہا جا رہا ہے، حزب اختلاف کو زیادہ سے زیادہ آپسی اتحاد پیدا ’انڈیا بلاک‘ کو مضبوط بنانا ہوگا۔ پھر بھی اگر پوری طرح اتحاد نہ ہو سکے تو نااتفاقی والے سیٹوں کو ایک دوسرے کے لیے چھوڑ دیں تاکہ ان سیٹوں پر متحدہ اپوزیشن نمائندہ کا الیکشن بہتر ہو جائے۔ پھر ان پارٹیوں کے الیکشن اخراجات کا مسئلہ ہے تو اس کے بھی حل تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں دو طریقے ہیں جن کا استعمال کر کافی حد تک راحت مل سکتی ہے۔ اول، ایسی جگہوں پر وہاں کا نمائندہ ووٹر سے یہ اپیل کرے کہ وہ اس کی مدد کرے۔ چندہ یا عوام خود اپنا پیسہ لگا کر اپوزیشن کی مدد کریں۔ دوئم، ان دنوں کراؤڈ فنڈنگ بھی ایک راستہ ہو سکتا ہے۔


یاد رکھیے کہ سنہ 2024 کا لوک سبھا چناؤ آخری چناؤ ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہندوستان میں چناؤ ہونے ہی بند ہو جائیں گے، لیکن وہ چناؤ ویسے ہی ہوں گے جیسا کہ ابھی چنڈی گڑھ میئر چناؤ میں ہوا۔ چنڈی گڑھ میں عآپ اور کانگریس کا متحدہ امیدوار کھڑا ہوا تھا، لیکن الیکشن عملے نے کھلی دھاندلی سے چناؤ میں عآپ اور کانگریس کے مشترکہ امیدوار کو ہروا دیا۔ موجودہ حالات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ہندوستان ان دنوں انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ جمہوری نظام اور آئین پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ملک کو دوسرا پاکستان بننے سے روکنا ہی اپوزیشن پارٹیوں کا اولین فرض ہے۔ مودی مخالف ووٹر اور اپوزیشن پارٹیاں مل کر ہندوستان کی جمہوریت اور آئین کو بچا سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم بھی آنے والے دنوں میں پاکستان کی صف میں نظر آئیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔