نفرتی اینکروں کی جگہ ٹی وی اسٹوڈیو نہیں جیل کی کال کوٹھری ہے... سہیل انجم
این بی ڈی ایس اے نے نیوز 18 انڈیا، ٹائمز ناؤ نوبھارت اور آج تک کو حکم دیا ہے کہ وہ پچھلے دو سالوں میں نشر کیے گئے ایسے شوز کی ویڈیوز کو ہٹا دیں جو نفرت اور فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے والے ہیں۔
اس ملک کے انصاف و امن پسند شہریوں، سول سوسائٹی کے ارکان، انسانی حقوق کے کارکنوں، دانشوروں، سیاست دانوں اور حقیقی صحافیوں کی جانب سے ایک عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ گودی میڈیا کے ان اینکروں کے خلاف سخت کارراوئی کی جائے جو اپنے پروگراموں سے نفرت و تعصب کو ہوا دیتے ہیں اور ملک کے فرقہ وارانہ میل جول کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی بار بار ان اینکروں کے خلاف سخت تبصرے کیے ہیں اور ان کے پروگراموں کے لیے ان کی گوشمالی کی ہے۔ لیکن نہ تو حکومت کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی اور نہ ہی ٹیلی ویژن سے متعلق اداروں کی جانب سے کوئی ایکشن لیا جاتا۔
حکومت اس لیے خاموش رہتی ہے کہ ان کے پروگرام ملک کے عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے ان کی در پردہ حمایت کی جاتی ہے اور حکومت کے وزرا ان کو انٹرویو دیتے ہیں۔ جب بھی الیکٹرانک میڈیا کے ایسے پروگراموں کے خلاف کوئی آواز اٹھتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ سیلف ریگولیشن ہونا چاہیے۔ یعنی نیوز چینل خود اپنا احتساب کریں اور ایسے پروگرام نہ بنائیں اور نہ دکھائیں جو فرقہ وارانہ یکجہتی کے منافی ہوں۔ لیکن ظاہر ہے وہ کیوں خود احتسابی کریں گے۔ بلکہ ایسے پروگرام نہ بنانے والے اور ان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو نیوز چینل سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔
ایک بار نیوز 18 کے زہریلے اینکر امن چوپڑہ نے راجستھان کی کانگریس حکومت کے خلاف ایک بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا تھا جس پر ان کے خلاف راجستھان میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے وہاں کی پولیس نوئیڈا آئی۔ لیکن یوپی کی یوگی حکومت نے انھیں بچا لیا۔ یوپی پولیس نے ان کے خلاف ایک ہلکا پھلکا معاملہ درج کر کے حراست میں لے لیا اور اس طرح راجستھان کی پولیس کو بیرنگ لوٹنا پڑا تھا۔ اسی طرح کئی نفرتی اینکروں کی خلاف عدالت سے اپیل کی گئی لیکن عدالتوں نے ان کو ضمانت دے کر اور ان کو گرفتار نہ کرنے کا حکم صادر کر کے ان لوگوں کو بچا لیا۔ حکومت و عدالت کی ان کارروائیوں سے ان اینکروں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے اور انھوں نے اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف پروگرام بنا بنا کر ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی۔
اس سلسلے میں الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے ادارے ’نیوز براڈکاسٹنگ اینڈ ڈیجیٹل اسٹینڈرڈ اتھارٹی‘ کو بھی متعدد بار شکایات بھیجی گئیں لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں ایک سماجی کارکن اندرجیت گھورپڑے نے درجنوں شکایتیں ارسال کیں تب جا کر ان کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ ایکشن کوئی ایسا ایکشن نہیں ہے جو ان کو ایسے زہریلے پروگرام بنانے سے روک سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان اینکروں کی جگہ نیوز چینلوں کے اسٹوڈیو نہیں بلکہ جیل کی کال کوٹھریاں ہیں۔ ایسے لوگوں کو جب تک وہاں نہیں بھیجا جائے گا ان کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی اور نہ ہی دوسرے اینکر اور گودی صحافی رہ راست پر آئیں گے۔
جن اینکروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ ہیں امن چوپڑہ، سدھیر چودھری اور امیش دیوگن۔ نیوز براڈکاسٹنگ اینڈ ڈیجیٹل اسٹینڈرڈز اتھارٹی (این بی ڈی ایس اے) نے نیوز 18 انڈیا، ٹائمز ناؤ نوبھارت اور آج تک کو حکم دیا ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نفرت اور فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے کے لیے پچھلے دو سالوں میں نشر کیے گئے کئی شوز کی ویڈیوز کو ہٹا دیں۔ اس نے کچھ معاملات میں براڈکاسٹروں پر جرمانے بھی عائد کیے ہیں۔ 28 فروری کو ہونے والی اپنی میٹنگ میں ٹی وی نیوز براڈکاسٹروں کے ذریعہ قائم کردہ ریگولیٹری باڈی نے، جو کہ جسٹس اے کے سیکری کی سربراہی میں ہے، پچھلے دو سالوں میں نشر ہونے والے پروگراموں کے بارے میں شکایات کے حوالے سے سات فیصلے پاس کیے۔
نیوز 18 انڈیا کے معاملے میں 2022 میں نشر ہونے والے چار شوز کے لیے 50,000 روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا جس کو امن چوپڑہ اور امیش دیوگن نے پیش کیا تھا۔ شوز میں اینکروں نے کہا تھا کہ شردھا والکر کا 2022 میں ان کے ساتھی آفتاب پوناوالا کے ہاتھوں قتل کا تعلق لو جہاد سے تھا۔ اتھارٹی نے کہا کہ لو جہاد کی اصطلاح کو ڈھیلے ڈھالے طریقے سے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے اور مستقبل کی نشریات میں بہت زیادہ احتیاط کی جانی چاہئے کیونکہ اس سے ملک کے سیکولر تانے بانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ایک کمیونٹی کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے اور مذہبی عدم برداشت یا بدامنی پیدا ہو سکتی ہے۔ این بی ڈی ایس اے نے 31 مئی 2023 کو ہمانشو دیکشت کے پروگرام ’لو جہاد‘ کے لیے ٹائمز ناؤ نوبھارت پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ اس نے اپنے حکم میں کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نشریات کے آغاز میں ہی اینکر نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک مخصوص کمیونٹی کے مردوں نے اپنی مذہبی شناخت چھپا کر دوسری کمیونٹی کی خواتین کو لالچ دیا اور پھر ایسی خواتین کے خلاف تشدد یا قتل کا ارتکاب کیا۔
آج تک کے خلاف اپنے حکم میں این بی ڈی ایس اے نے چینل کو ہدایت دی کہ وہ 2023 میں رام نومی کے تہوار کے دوران تشدد پر سدھیر چودھری کے شو کی ویڈیو کو ہٹا دے کیونکہ اس نے کچھ شرپسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے پوری مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا ہے۔ اگر براڈکاسٹر اپنے تجزیے کو فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات تک محدود رکھتا تو براڈکاسٹ میں کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ تاہم اینکر نے اسے دوسرا رنگ دے کر ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ گزشتہ سال آج تک پر پیش کیے جانے والے ایک شو بلیک اینڈ وائٹ کے بارے میں، جس کو سدھیر چودھری پیش کرتے ہیں، سخت تبصرہ کیا گیا۔ اس میں امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ کے بیان پر وزیر عظم نریندر مودی کے جواب کے حوالے سے شر انگیزی کی گئی تھی۔ ٹکڑے ٹکڑے گینگ، پنجاب میں خالصتانی اور پاکستان حامی جیسی اصطلاحات کا استعمال کر کے پروگرم کو خطرناک بنایا گیا۔
اس چینل پر 75,000 روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا اور اس بات کو یقینی بنانے کا مشورہ دیا گیا کہ مستقبل کی نشریات میں متنازعہ مضامین کو غیر جانبداری اور معروضیت کے اصولوں پر سختی سے عمل کرتے ہوئے پیش کیا جائے۔ اس نے شو کی ویڈیو ہٹانے کی بھی ہدایت کی۔ انڈیا ٹوڈے گروپ کے ایک قانونی نمائندے نے کہا کہ اگرچہ ہم اس حکم سے مایوس ہوئے ہیں پھر بھی ہم ریگولیٹری باڈی کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور اس پر عمل کریں گے۔
یہ تو چند مثالیں تھیں جن کو متعلقہ ادارے نے اپنی رپورٹ میں جگہ دی ورنہ دیکھا جائے تو روزانہ ہی ان چینلوں پر نفرت انگیزی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے سنجیدہ افراد نے نیوز چینل دیکھنے بند کر دیے ہیں۔ حالانکہ یہ فیصلہ بہت تاخیر سے اٹھایا گیا اور ان پروگراموں سے سماج کو جو نقصان پہنچنے والا تھا وہ پہنچ گیا، پھر بھی اس کی ستائش کی جانی چاہیے کہ چلیے کچھ تو ایکشن لیا گیا۔ بہرحال ہم پھر یہی کہیں گے کہ ایسے اینکروں کے خلاف جب تک عملی طور پر سخت کارروائی نہیں ہو گی، یہ لوگ کوئی بھی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔