مسلم قیادت کو یو سی سی پر رسولؐ کی مکی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت

مسلمان اور مسلم قیادت دونوں کے لیے موجودہ سیاسی صورت حال میں اس سنت رسولؐ پر عمل کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ہندوستانی مسلمان، فائل تصویر / Getty Images&nbsp;</p></div>

ہندوستانی مسلمان، فائل تصویر / Getty Images

user

ظفر آغا

مسلم قوم کی ایک اہم کمزوری یہ ہے کہ وہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتی۔ حد تو یہ ہے کہ جن غلطیوں کے سبب قوم نہایت نقصان کا شکار ہو چکی ہوتی ہے، وہی غلطی پھر دوہرانے سے نہیں گریز کرتی۔ کم از کم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ تقریباً پوری قوم پر عیاں تھا کہ خواہ وہ شاہ بانو والے معاملے میں یا پھر بابری مسجد تنازعہ میں مسلم قیادت کی جو حکمت عملی رہی اس سے پوری ہندوستانی مسلم ملت کو شدید نقصان اٹھانا پڑا، جبکہ اس کا فائدہ سنگھ اور بی جے پی کو ہوا۔ راقم الحروف بہت تفصیل سے یہ سمجھاتا رہا ہے کہ بی جے پی کی سیاست محض اس بات پر منحصر اور کامیاب ہوتی ہے کہ وہ ہندو سماج میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ بات تب ہی ممکن ہے جبکہ عام ہندو مسلمانوں کو ہندو دشمن سمجھنے لگے۔ تین طلاق معاملہ رہا ہو یا پھر بابری مسجد تنازعہ، ان دونوں ہی معاملات پر بی جے پی ہندوؤں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئی۔ اس کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ ان دونوں معاملات پر مسلم قیادت کی جو حکمت عملی رہی اس سے بی جے پی نے پورا فائدہ اٹھایا۔

راقم اکثر و بیشتر ان دونوں معاملات پر مسلم حکمت عملی کی غلطی کی وضاحت کرتا رہا ہے اور یہ بھی بتاتا رہا ہے کہ اس سے بی جے پی کو کیسے فائدہ پہنچا۔

شاہ بانو ایشو اور بابری مسجد تحفظ دونوں معاملات میں مسلم قیادت نے سنگھ اور بی جے پی کے ساتھ تکرار کا راستہ اختیار کیا۔ عدالت سے سڑکوں تک مسلمان نے شد و مد کے ساتھ بی جے پی تحریک کا مقابلہ کیا۔ نعرۂ تکبیر اللہ اکبر جیسے نعروں کے ساتھ ہزاروں لوگ سڑکوں پر اترتے رہے۔ شاہ بانو معاملے پر دہلی بوٹ کلب پر لاکھوں کا مسلم احتجاج ہوا۔ دوسری بات مسلم حکمت عملی کی یہ تھی کہ مسلم قیادت نے سیاسی جماعتوں پر مسلم ووٹ بینک کا دباؤ ڈالا۔ شاہ بانو معاملے پر جس طرح مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی پر دباؤ ڈالا اور وہ شاہ بانو معاملے پر پارلیمنٹ کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کرنے کے لیے خصوصی مسلم خواتین بل لانے پر مجبور ہوئے، اسی طرح لالو یادو و ملائم سنگھ جیسے قائد بابری مسجد معاملے پر مسلم ووٹ بینک کی لالچ میں بابری مسجد معاملے پر کھل کر مسلم وکالت کرتے رہے اور مسلم قائدین ان کی کھل کر حمایت کرتے رہے۔ ان دونوں باتوں سے بی جے پی کو وہ سیاسی فائدہ پہنچا جس کا کسی کو اندازہ نہیں ہو سکا۔


جب مسلمان سڑکوں پر جمع ہونے شروع ہوئے تو سنگھ اور بی جے پی نے اس کو ہندو مخالفت کا رنگ دے دیا۔ شاہ بانو ایشو کو تین طلاق کا ایشو بتا کر ہندو قوم میں یہ بھرم ڈال دیا کہ مسلمان تو تین طلاق کے بعد طلاق دے کر چار سے بھی زیادہ شادیاں کرتا ہے اور ایک شخص درجنوں اولادیں پیدا کرتا ہے۔ ہندو کے دلوں میں یہ بھرم پیدا کیا گیا کہ ایک دن وہ آئے گا کہ ہندو خود ہندوستان میں آبادی کے اعتبار سے اقلیت ہو جائے گی اور پھر ہندوستان بھی دوسرا پاکستان بن جائے گا۔ اسی طرح رام مندر معاملے میں مسلمانوں نے رام مندر کی جتنی مخالفت کی اتنی ہی بی جے پی نے مسلمانوں کو رام دشمن یعنی ہندو دشمن کی امیج دے دی۔ ساتھ ہی سیکولر قیادت نے مسلمانوں کی جتنی حمایت کی اتنی ہی ہندوؤں میں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ بی جے پی کے علاوہ اس ملک میں دوسری کوئی ’ہندو دوست‘ سیاسی جماعت نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ سب کو معلوم ہے۔ سنہ 1984 میں دو لوک سبھا ممبران والی بی جے پی جماعت اب اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔

مسلم قیادت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ پچھلے تقریباً تین دہائیوں میں اس سے جو دو غلطیاں ہوئی ہیں وہ اب دوبارہ نہیں ہونی چاہئیں۔ اولاً مسلمان کے لیے سڑکوں اور احتجاج کی سیاست سخت نقصان دہ ہے۔ دوئم، شرعی معاملات میں سیاسی جماعتوں کو مسلم مفاد کے لیے اکٹھا کرنا بھی ہندو رد عمل پیدا کرتا ہے اور بی جے پی کو اس سے سیاسی فائدہ ہوتا ہے۔ پہلی غلطی کا احساس تو مسلم قیادت کو ہوا۔ یہی سبب ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کے ایشو پر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے خود اپنی جانب سے موقف اپنایا ہے کہ اس معاملے میں اکیلے سڑکوں پر نہیں اترے گا۔ تب ہی تو مسلمانوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ سڑکوں پر احتجاج سے گریز کریں۔ یہ دانشمندی کی دلیل ہے۔ لیکن دوسری جانب بورڈ نے سیاسی جماعتوں خصوصاً کانگریس پارٹی پر یہ دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی بنا لی ہے کہ وہ اس پر یو سی سی قانون کے سلسلے میں کھل کر مسلم موقف کی حمایت کریں۔ اس سلسلے میں ابھی چند روز قبل مسلم پرسنل لاء بورڈ کا یہ بیان آیا ہے کہ کانگریس پارٹی یو سی سی معاملے پر اپنا موقف واضح کرے۔ یعنی بورڈ یہ چاہتا ہے کہ کانگریس اور سیکولر جماعتیں ایک بار پھر سے مسلم حمایت میں یکجا ہو جائیں۔ اس سے پھر مودی اور بی جے پی کو ’ہندو رکشک‘ (محافظ) کا رنگ دے کر سنہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ، اور اس سے قبل راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ اسمبلی چناؤ میں سیاسی فائدہ اٹھائیں گے۔


یہ حکمت عملی خطرناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اکیسویں صدی میں عورت-مرد کے برابری کے حقوق کے سلسلے میں کسی بھی سیکولر پارٹی کے لیے یو سی سی کی کھلی مخالفت کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے مسلم قیادت کو یو سی سی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کے سیاسی بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے وہی ہوگا جو بی جے پی چاہتی ہے۔ راقم الحروف اکثر یہ بھی لکھتا رہا ہے کہ فی الحال ہندوستانی مسلمان کے لیے صبر کی حکمت عملی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں رسول کریمؐ نے مکی دور میں جو حکمت عملی اپنائی تھی وہی موجودہ حالات میں سب سے بہتر ہے۔ رسولؐ نے اعلان نبوت کے بعد دس برسوں تک دعوت اسلام کا سلسلہ تو جاری رکھا، لیکن خود ان پر جس قدر مظالم ہوئے اس سلسلے میں اف تک نہیں کی۔ حد یہ ہے کہ ان پر کوڑا تک پھینکا گیا، لیکن جب کوڑا پھینکنے والی علیل ہو گئی تو وہ اس کی عیادت کو پہنچ گئے۔ مسلمان اور مسلم قیادت دونوں کے لیے موجودہ سیاسی صورت حال میں اس سنت رسولؐ پر عمل کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔