جدوجہد آزادی کی گم نام مجاہدہ، بیگم سلطانہ حیات.. بھارت چھوڑو تحریک کی سالگرہ کے موقع پر

سلطانہ ہر اجلاس میں شریک ہوتیں اور جھنڈا اونچا رہے ہمارا نغمہ گا کر لوگوں کے جوش و جنون اور حوصلے میں اضافہ کر دیتیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے میرٹھ کی تاریخی جامع مسجد میں مجمع سے بھی خطاب کیا تھا

<div class="paragraphs"><p>بھارت چھوڑو تحریک کی علامتی تصویر</p></div>

بھارت چھوڑو تحریک کی علامتی تصویر

user

شاہد صدیقی علیگ

بیگم سلطانہ حیات دلّی کے ایک محب الوطن خاندان کی چشم و چراغ تھیں، جو برسوں سے ملک و قوم کی فلاح و بہبودی اور خدمت میں مصروف تھا۔ ان کے پردادا قاضی ضیا الدین 1857 سے قبل دلّی کے شہر قاضی تھے تو ان کے دادا قاضی نجم الدین ایک مدت تک ضلع میرٹھ اور شہر کانگریس کے صدر رہے، جنہوں نے میرٹھ کوتوالی کے نزد واقع اپنی دولت کدہ نجم الدین ہاؤس کے ایک حصّہ کو کانگریس اور تحریک خلافت کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ ان کے والد قاضی بشیر الدین نے دلّی کانگریس کمیٹی کے سکریٹری کی ذمہ داری انجام دی تھی۔ ان کے گھر کانگریس کے اعلیٰ رہنماؤں موتی لعل نہرو، علی برادران، مولانا آزاد، جواہر لعل نہرو اور سیف الدین کچلو وغیرہ کی آمد و رفت رہتی تھی۔

چنانچہ ایسے سیاسی ماحول کا اثر سلطانہ حیات پر پڑنا لازمی تھا لہٰذا ان کا جھکاؤ کم عمری میں ہی تحریک آزادی کی جانب ہو گیا اور وہ جلد ہی کانگریس کی ایک فعال اور سرگرم رکن بن گئیں۔ سلطانہ ہر اجلاس میں شریک ہوتیں اور جھنڈا اونچا رہے ہمارا نغمہ گا کر لوگوں کے جوش و جنون اور حوصلے میں اضافہ کر دیتیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے میرٹھ کی تاریخی جامع مسجد میں مجمع سے بھی خطاب کیا تھا۔ بیگم سلطانہ نے بھارت ’چھوڑو تحریک‘ کے دوران انگریز انتظامیہ کو پریشان کرنے کی غرض سے خواتین کی ایک انجمن تشکیل دی۔ جس میں بلاتفریق مذہب و ملت دختران شامل تھیں۔ اس میں ایک فرسٹ ایڈ کا سیل بھی قائم تھا، جس کا مقصد انگریزی ظلم و ستم کے شکار لوگوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کرنا تھا۔


تنظیم کی ارکان لڑکیوں نے انگریز حکام کو دق کرنے کے لیے بیرنگ خطوط ڈالے، جو ایک طرح سے برطانوی مظالم کا جواب تھا۔ مزید برآں سلطانہ حیات نے اپنے دادا کی مدد سے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث خواتین کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے انہیں خنجر تقسیم کیے۔ انگریز انتظامیہ نے ان کی انقلابی سرگرمیوں کو دیکھ کر گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کر دیا تھا، تاہم بعض وجوہات کی بنا پر محروس نہیں کیا جا سکا۔

اس دور کے سیاسی حالات کی کہانی بیگم سلطانہ نے یوں بیان کی تھی، ”ہمارے گھر سے بدیسی کپڑوں کی دوکانوں کی پکٹنگ کرنے کے لیے خواتین کی ٹولیاں جاتی تھیں تو میں بہت چھوٹی تھی اور جب بڑی ہو گئی تو پتہ چلا کہ مسلمان لڑکیوں کا تو ذکر ہی کیا، ہندو لڑکیاں بھی کسی طرح کی ستیہ گرہ میں حصّہ نہیں لے سکتی تھیں۔ بس گھروں میں رہ کر جو کچھ بھی ہو سکتا تھا وہ کیا گیا۔‘‘

سلطانہ بیگم نے 1941 میں سیواگرام آشرم میں جا کر خدمت انجام دی۔ 1946 میں ان کی شادی ایک قومی رہنما حیات اللہ انصاری سے ہوئی۔ آزادی کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اردو زبان کی بقا کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ساڑھے بیس لاکھ پر مشتمل دستخطی میمورنڈم سرکار کو ارسال کیا۔ جس کے نتیجے میں صوبہ یوپی میں اردو زبان دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل کر پائی۔ 1952 میں لکھنو میں بزم خواتین قائم کی جس کی شاخیں آج تناور درخت میں تبدیل ہو گئیں۔

بیگم سلطانہ بی اے کے علاوہ صحافت کی رموز و نکات سے بھی واقف تھیں۔ 6 جون 1994 کو دار فانی سے کوچ کر گئیں، جن کو فرنگی محل کے پشتینی قبرستان میں حیات اللہ انصاری کے برابر میں دفن کیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔