مسلمان ممالک کی ’لبرل‘ پالیسیاں، اللہ خیر کرے!
2021 میں ولی عہد نے سعودی عرب میں کچھ آزادانہ اصول نافذ کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں غیر مسلمانوں کے لیے داخلے کی اجازت نہ دینے والے بورڈز کو ہٹا دیا تھا
حکومت ہند میں اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ وی مرلی دھرن نے اپنے2 روزہ سعودی عرب کے دورے کے دوران ریاض کی انتظامیہ کے ساتھ ایک اہم حج معاہدے پر دستخط کیے اور وفد کے ساتھ اسلام کے مقدس شہر مدینہ منورہ کا دورہ کیا۔ مدینہ شہر میں 2021 تک غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع تھا۔ مدینہ میں ہی مسجد نبوی ہے جو اسلام کی دوسری بڑی مسجد ہے ۔ اسمرتی ایرانی ہندوستانی وفد کے ساتھ اس مسجد کے قریب گئیں اور وہاں تصویر بھی کھینچوائی۔ اسمرتی ایرانی کے ساتھ ایک خاتون ہندوستانی افسر نروپما کوٹرو بھی تھیں۔ شاید یہ پہلا موقع ہے جب کسی غیر مسلم وفد کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔
محترمہ ایرانی کے دورے کو لے کر سوشل میڈیا پر کافی ہنگامہ ہے کیونکہ شہر رسول میں سعودی حکام نے اسمرتی ایرانی کا بڑی گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا اور انہیں مسجد نبوی، مسجد قبا اور جبل احد کا دورہ بھی کرایا جو مسلمانوں کو پسند نہیں آرہا ہے ۔ہمیں نہیں معلوم کہ اس دورے کے پیچھے وزیر موصوفہ کی اپنی ذاتی خواہش تھی یا سعودی حکام کی خود کو لبرل دکھانے کی ایک اور کوشش؟ بہر حال اس واقعہ سے اتنا اندازہ ہو گیا ہے کہ سعودی حکام آنے والے دنوں میں یہ تماشا مکہ مکرمہ میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ ویسے ا سمرتی ایرانی کو ایک بات کا کریڈٹ ضرور دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی مسلمانوں اور اسلام سے دشمنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جہاں اور جب جب موقع ملا ہے کھل کر اپنی ذہنیت کا اظہار کیا ہے۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ 1926 میں حجاز مقدس پر آل سعود کا مکمل اور مضبوط قبضہ ہوا۔ 1927 میں برطانوی حکومت نے آل سعود کی حکومت کو منظوری دے دی، تب سے لیکر اسمرتی ایرانی کے دورے سے پہلے تک سعودی حکمرانوں نے بھی حرم مکہ کی طرح حرم مدینہ میں بھی غیر مسلموں کے داخل ہونے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اپنی اسی پالیسی کے تحت حدود حرم پر باضابطہ اعلانیہ بورڈ لگائے جاتے رہے جس میں حرم مدینہ کے راستوں پرصرف مسلمین (only Muslims) کے بورڈ لگائے گئے اور غیر مسلموں کو دوسری جانب ڈائی ورٹ کرنے کیلئے غیر المسلمین ( for non Muslims) کے سائن بورڈ آویزاں کیے جاتے تھے۔
اب 98 سال کے طویل وقفے کے بعد اچانک ہی مدینۃ الرسول میں غیر مسلموں کو عزت و احترام کے ساتھ بلانا کیا ظاہر کرتا ہے؟ یہاں یہ بات بھی نوٹ کیے جانے لائق ہے کہ جس وفد کو بصد اعزاز مسجد نبویؒ تک لایا گیا اس وفد کے نمائندہ ارکان ایک سے زیادہ خداوں پر ایمان رکھتے ہیں جسے اسلام میں شرک مانا جاتا ہے اور سعودی، سلفی اس قدر شرک بیزار بنتے ہیں کہ ’یا رسول اللہ‘ کہنا بھی ان کے نزدیک شرک ہے اس قدر شرک بیزاری کے باوجود اہل شرک سے اتنی محبت کیوں اور کس لیے؟
اپنی ہی پالیسی میں اس قدر تضاد اور ایسا بدلاو آخر کیوں اور کس مقصد کے تحت کیا گیا۔ اگر یہ بدلاو مذہبی نقطہ نگاہ سے کیا گیا ہے تو سعودی، سلفی علما اس بات کی تفصیل بیان کریں جس کی بنیاد پر آل سعود نے اپنی 98 سالہ پالیسی میں تبدیلی کی ہے اور وہ وجوہات بھی بیان کریں جن کی بنیاد پر یہ پالیسی بدلی گئی ہے۔ اس لئے کہ دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت سعودی عرب کواپنا ’امام‘ مانتی ہے اوروہاں سے آنے والی ہربات اسلام کا حصہ مان لی جاتی ہے لہٰذا ایسے لوگوں کے شبہات کو دور کرنا بھی سعودی عرب کا فرض اولین ہے۔
مدینہ منورہ کے اس پورے دورے کے دوران اسمرتی ایرانی ہندوستان کے روایتی لباس ساڑی میں نظر آئیں جس کو بڑے ’فخر‘ کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔ اسمرتی ایرانی کے ساتھ ایک خاتون ہندوستانی افسر نروپما کوٹرو بھی تھیں اور انہوں نے بھی ساڑی پہن رکھی تھی۔ اس تصویر کے ساتھ 2016 کی سابق وزیر خارجہ آنجہانی سشما سوراج کے دورہ ایران کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے جس میں وہ ایران کے سابق صدر حسن روحانی سے ملاقات کے دوران سر سے پاوں تک ڈھکی ہوئی ہیں۔ محترمہ سوراج اور روحانی کی تصویر پر اپنے تبصرے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایران اور ہندوستان کے دیرینہ تہذیبی اور ثقافتی روابط کا ثبوت ہے۔
اسمرتی ایرانی کا دورہ سعودی عرب سفر اس لیے بھی توجہ کا مرکزرہا ہے کیونکہ اسلامی ملک ہونے کے ناطے سعودی عرب میں خواتین کے لیے حجاب لازمی ہے اور یہاں کئی مقدس مقامات ہیں جہاں غیر مسلموں کے جانے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ تین سال پہلے تک مکہ اور مدینہ میں تمام غیر مسلموں کے داخلے پر پابندی تھی۔ مگر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2021 میں ’صرف غیر مسلموں‘ کو مدینہ شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔ 2021 میں ولی عہد نے سعودی عرب میں کچھ آزادانہ اصول نافذ کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے لیے داخلے کی اجازت نہ دینے والے بورڈز کو ہٹا دیا تھا۔
واضح رہے کہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر اب کم ہو رہے ہیں جو اس کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہ فکر سعودی شہزادے کو پریشان کر رہی ہے۔ دوسری جانب ہمسایہ ملک متحدہ عرب امارات دبئی جیسا شہر قائم کرکے پوری دنیا کا ’مال‘ بن چکا ہے جہاں بڑی بڑی کمپنیاں کاروبار کے لیے دفاتر کھول رہی ہیں۔ یہی نہیں دبئی میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے یو اے ای کا تیل پر انحصار کم ہو رہا ہے۔ دبئی کی کامیابی کو دیکھ کر سعودی شہزادہ اب اپنے اسلامی ملک میں بھی اسے دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کو کھول رہے ہیں تاکہ دنیا بھر سے سیاح اورتماش بین آئیں اور آمدنی میں اضافہ ہو۔
اتنا نہیں بلکہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے اسلامی قوانین کو بھی نرم کر دیا ہے جو اب تک مملکت میں رائج تھے۔ اس کے تحت حال ہی میں سعودی عرب میں ایک بڑے فیشن شو کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں دنیا بھر سے ماڈلز حصہ لینے پہنچی ہیں۔ اس کے تحت سال 2021 میں سعودی اتھارٹی نے مدینہ شہر جانے والی سڑک سے ’صرف مسلمان‘ کا بورڈ ہٹا دیا تھا۔ فی الحال مکہ میں مسلمانوں کو ہی جانے کی اجازت ہے۔ غیر مسلموں کو مدینہ میں داخلے کی اجازت دینے کو سعودی شہزادے کی جانب سے اسلام کا خود ساختہ ’ لبرل‘ چہرہ پیش کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان ممالک کی حکومتوں کی پالیسیاں اب مزید ’لبرل‘ ہو چکی ہیں اور عملاً مسلم امہ جیسی کوئی چیز اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتا اسلاموفوبیا جہاں عام مسلمانوں کی زندگی مشکل بنا رہا ہے وہیں مسلمان ممالک کی جانب سے مسلمان مخالف قوتوں کے لیے نرم گوشہ اور گرم جوشی کیا گل کھلائے گی، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر کی 7 تاریخ فلسطینیوں کے لیے قیامت خیز ثابت ہوئی اور اسرائیلی حملوں نے بستیوں کی بستیاں مکینوں سمیت تباہ کردیں، لیکن عالمی ضمیر تو چھوڑیئے، مسلم امہ نام کی چیز بھی ڈھونڈے سے نہیں ملی۔ قتل وغارت گری اپنی جگہ لیکن زندگی تو چلتی رہتی ہے ناں! شاید اسی وجہ سے سعودی عرب میں فلمی میلے اور ثقافتی پروگرامز پوری آب و تاب کے ساتھ منعقد کرنا مجبوری ٹھہرے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔