عظیم گمنام مجاہدہ آزادی: بیگم زہرہ انصاری
ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے زہرہ انصاری کی تعلیم کا اعلیٰ انتظام کیا، لہٰذا زہرہ کو اردو، فارسی اور ہندی میں مہارت کے علاوہ بچپن سے ہی سماجی علوم، ملک کی تاریخ اور سیاست سے گہری واقفیت ہو گئی تھی
انڈین نیشنل کانگریس کے قومی صدر عظیم مجاہد آزادی ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے وطن عزیز کے لیے جو بے لوث خدمات انجام دیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف جو مشعل جلائی تھی، ان کے بعد اس کو متبنیٰ دختر اور بھانجی زہرہ انصاری نے بھی روشن رکھا۔
ڈاکٹر صاحب اپنی گود لی ہوئی بیٹی زہرہ انصاری پر جان چھڑکتے تھے۔ جنہوں نے ان کی تعلیم کا اعلیٰ انتظام کیا، لہٰذا زہرہ کو اردو، فارسی اور ہندی میں مہارت کے علاوہ بچپن سے ہی سماجی علوم، ملک کی تاریخ اور سیاست سے گہری واقفیت ہو گئی تھی۔
فیاض ڈاکٹر انصاری کے وسیع و عریض بنگلے ’دارالسلام‘ میں کانگریس کے اعلیٰ رہنما ، مندوبین ،علمائے کرام اور مختلف مقامات سے لوگوں کے آنے کا تانتا بندھا رہتا تھا۔جن کی میزبانی مخیر اور مہمان نواز بیگم شمس النسا ہمیشہ خندہ پیشانی سے کرتی تھیں اور زہرہ انصاری ان کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔
زہرہ انصاری بچپن سے ہی مہاتما گاندھی کی شخصیت سے متاثر تھیں، جوا پنی والدہ کے ساتھ کانگریس کے اجلاسوں میں برابر شریک ہوتی تھیں۔ مہاتما گاندھی زہر ہ انصاری کو پیاری بیٹی اور استاد بی کہتے تھے۔ جس کا اظہار 3/اکتوبر 1932ءکو لکھے خط میں یوں کرتے ہیں:
”پیاری بیٹی زہرہ! تمہیں اب میری استاد بننا بھی قبول کر لینا چاہئے کیونکہ تمہارے خطوط سے میں اپنے سبق کا کام بھی لیتا ہوں۔ چند ہی افراد مجھے اردو میں خطوط بھیجتے ہیں، لیکن تمہاری جیسی خوبصورت تحریر کسی کی نہیں، اس لیے تمہارے خطوط بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ میری طرف سے ڈھیروں دعائیں۔“
ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے زہرہ کی شادی اپنی بہن قمر النسا کے فرزند ڈاکٹر شوکت اللہ انصاری سے کی، جوا پنے ماموں کی طرح ہی ایک محب الوطن شخصیت کے مالک تھے ۔شادی کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کے کندھے سے کندھا ملا کر پورا ساتھ دیا۔ عیش و عشرت میں پلی بڑھی زہرہ انصاری نے متعدد مرتبہ ستیہ گرہ میں شامل ہو کر گرفتاری دینے اور قید خانہ جانے کی مہاتما گاندھی سے خواہش ظاہر کی ، مگر انہوں نے صبر سے کام لینے اور انتظار کرنے کو کہا۔ زہرہ انصاری کچھ عرصے وردھا سیوا گرام آشرم میں بھی مقیم رہی تھیں۔
1946ءمیں پارلیمانی انتخاب کا عمل شروع ہوا جو کانگریسی قوم پرست رہنماؤں کے لیے سخت امتحان تھا۔ مسلم لیگ کی انتخابی مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے فنڈ درکار تھا، لیکن پارٹی کا خزانہ خالی تھا ،چنانچہ ان کے شوہر نے بیگم زہر ہ انصاری کو وراثت ملے بنگلے دارالسلام کو پارٹی فنڈ کے لیے فروخت کر نے کا فیصلہ کیا اور مسلم لیگ کے خلاف قوم پرست لیڈران کی جیت یقینی بنانے کے لیے جگتیں بھڑا دیں ۔زہرہ انصاری اور شوکت اللہ انصاری دونوں میاں بیوی نے تقسیم ہند کی پرزور مخالفت کی۔
آزادی کے بعد بیگم زہرہ انصاری نے سادہ زندگی گزاری اور 28 جولائی 1988 کو برطانیہ میں آخری سانس لی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔