حکومت نے ایوان کا اعتماد تو جیت لیا لیکن کیا عوام کا اعتماد بھی جیت پائے گی؟

لوگوں کو امید تھی کہ تیسرا دن وزیر اعظم کے نام ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حکمراں جماعت نے تحریک عدم اعتماد کو شکست دے کر تکنیکی اعتبار سے ایوان کا اعتماد جیت لیا لیکن کیا وہ عام کا اعتماد جیت پائے گی؟

<div class="paragraphs"><p>یو این آئی</p></div>

یو این آئی

user

سید خرم رضا

حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر صرف ایک تبدیلی کے ساتھ ویسے ہی ہوا جیسا امید کی جا رہی تھی۔ حزب اختلاف نے اس تحریک کے ذریعہ وزیراعظم کو منی پور پر بولنے پر مجبور تو کر دیا لیکن وہ کیا بولیں گے اس کا حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ وزیراعظم نے جو کچھ بولا اور جن کے لئے بولا ان تک وہ پیغام  پہنچ گیا ساتھ میں حزب اختلاف نے بھی جم کر منی پور پر بات کی اور ملک کے عوام کو اس مدے کی سنجیدگی سے رو برو کرایا ۔تحریک پر ہوئی بحث سے اس کی ستح سے تو مایوسی سب کو ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے معاشرے کا یہی حال ہو چکا ہے جس کے لئے سوشل میڈیا، ایس ایم  ایس کی زبان  ، عوام میں وقت کی قلت  اور بازار کا حاوی ہونا  ان چند عوامل میں  ہیں  جو اس کے لئے ذمہ دار ہیں۔ 

جس انداز سے گورو گگوئی نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی اس نے ان کا سیاسی قد بڑھا دیا۔ انہوں نے  تحریک پیش کرتے ہوئے جن تین سوالات کو اٹھایا اس نے حزب اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ کے حملے کی سمت طے کر دی۔ تحریک پیش کرتے ہوئے انہوں نے حکومت سے پوچھا  کہ وزیر اعظم اتنے دن سے منی پور پر کیوں خاموش ہیں، اتنے تشدد کے بعد بھی منی پور کے وزیر اعلی کو کیوں نہیں ہٹایا گیا اور اتنے خراب حالات ہونے کے با وجود وزیر اعظم منی پور کیوں نہیں گئے؟  امید کی جا رہی تھی کہ وزیر اعظم اپنے جواب میں ان تینوں سوالوں کے جواب دے دیں گے لیکن انہوں نے حزب اختلاف کی پچ پر بیٹنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بہرحال تحریک کا پہلا دن گورو گگوئی کے نام رہا جبکہ حکمراں جماعت کی جانب سے نشی کانت دوبے پہلے خطیب کے طور پر تحریک پر بولے اور ان کے خطاب سے انداز ہو گیا کہ حکمراں جماعت کے رہنما کس لائن پر بولنے والے ہیں۔


اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکمراں جماعت نے اس موقع  کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے کام کاج اور انڈیا اتحاد کے اختلافات پر جم کر تقریر کی لیکن حزب اختلاف کی جانب سے مقررین نے جن میں کاکولی دستیدار، کنیموزی، مہوا موئترا، سوگت رائے، فاروق عبد اللہ نے انتہائی موثر انداز میں اپنی بات رکھی۔ اس کے باوجود کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اپنی مختصر تقریر میں جس انداز میں اپنی بات کہہ دی اس کا پیغام بہت دور تک گیا۔ راہل گاندھی نے جہاں ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں ان کے خود کے تکبر کو حکومت کے تکبر سے جوڑا، پھر جس جذباتی انداز میں منی پور کے اپنے دورے کے دوران خواتین سے ہوئی گفتگو کا ذکر کیا  اور آخر میں راون اورلنکا کی شکست کے لئے راون کے تکبر کو ذمہ دار ٹھہرایا اس نے ان  کو عوام سے جڑنے میں اور حکمراں جماعت کو بیک فٹ پر جانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسرے دن جب راہل گاندھی نے مختصر خطاب کیا اس دن شام کو وزیر داخلہ امت شاہ نے دو گھنٹے سے زیادہ  لیکن اچھا بولتے ہوئے سامعین کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے وہ سب باتیں اپنے انداز میں کہیں جو باتیں حکمراں جماعت کے دیگر رہنما کہہ رہے تھے اس لئے اس کا اثر صرف ان لوگوں کو ہی دکھا جو ان کے پہلے سے مداح ہیں۔ دوسرا دن پوری طرح سے راہل گاندھی کے نام رہا۔

تحریک کے تیسرے اور آخری دن سب کی نگاہیں اور کان وزیراعظم کی تقریر کا انتظار کر رہے تھے اور بہت سے مبصرین کو یہ امید تھی کہ وزیر اعظم راہل گاندھی اور انڈیا اتحاد کو دیسی زبان میں دھو دیں گے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں جب تقریبا پچاس مرتبہ کانگریس کا ذکر کیا اور تقریبا نو مرتبہ انڈیا اتحاد کا ذکر کیا اور اس کے مقابلے تقربا 135 منٹ کے اپنے خطاب میں پانچ منٹ منی پور کو دئے تو اس نے عوام کو بہت مایوس کیا۔ اپنے خطاب میں منی پور کے مسئلہ پر بولتے پوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’جلد منی پور میں امن کا سورج طلوع ہوگا، ہم سب مل جل کر منی پور کا مسئلہ حل کریں گے، حکومت منی پور کے عوام کے ساتھ ہے  اور امت شاہ نے کل حکومت کے ذریعہ اٹھائے گئے اقدام کا تفصیل سے ذکر  کر دیا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی اس وقت کہا جب ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد انڈیا اتحاد کے ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔


وزیر اعظم نے  جس انداز میں اندرا گاندھی پر الزامات لگائے اس نے ان کی اپنی کارکردگی پر سوال کھڑے کر دئے ہیں کیونکہ موجودہ نسل میں اندرا گاندھی کافی مقبول ہیں ۔ ایسا ممکن ہے کہ ان کے حامیوں کی ایک جماعت اندرا گاندھی پر لگائے گئے الزام سے ان سے دور ہو جائے۔ لوگوں کو یہ امید تھی کہ تیسرا دن وزیر اعظم کے نام ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حکمراں جماعت نے عدم اعتماد کی تحریک کو شکست دے کر تکنیکی اعتبار سے ایوان میں اعتماد جیت لیا لیکن عوام کا اعتماد جیتنے پر سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ وزیر اعظم نے راہل گاندھی کے راون کے تکبر والے بیان کو لے کر کانگریس پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن کہیں نہ کہیں ان کے اس جملے نے راہل کی تشہیر کر دی۔ عدم اعتماد کی تحریک نہ کامیاب ہونی تھی، نہ نیت تھی اور نہ ہوئی لیکن اس تحریک کے ذریعہ سیاسی پارٹیوں نے 2024 کے عام انتخابات کے لئے اپنی سمت ظاہر کر دی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔