اپوزیشن کی بقا کے لیے ’انڈیا اتحاد‘ کا وجود ضروری ہے... سہیل انجم

اگر حزب اختلاف کی جماعتیں چاہتی ہیں کہ وہ زندہ رہیں اور بی جے پی کی سازشوں اور چالوں سے محفوظ رہیں تو انھیں چاہیے کہ ’انڈیا‘ نام کا جو اتحاد قائم کیا گیا ہے اسے نہ صرف زندہ کریں بلکہ مضبوط بھی کریں

<div class="paragraphs"><p>انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے لیڈران / فائل تصویر / قومی آواز/ویپن</p></div>

انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے لیڈران / فائل تصویر / قومی آواز/ویپن

user

سہیل انجم

ہریانہ اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ حکمراں جماعت بی جے پی کو ایک ہی صورت میں ہرایا جا سکتا ہے اور وہ صورت ہے اپوزیشن کا اتحاد۔ اگر اپوزیشن اسی طرح بکھرا رہا تو پھر بی جے پی کو ہرانا ناممکن بنا رہے گا۔ اس تلخ حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد خود اس کی بقا کے لیے بھی ضروری ہے۔ یعنی اگر حزب اختلاف کی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ وہ زندہ رہیں اور بی جے پی کی سازشوں اور چالوں سے محفوظ رہیں تو انھیں چاہیے کہ ’انڈیا‘ نام کا جو اتحاد قائم کیا گیا تھا اسے نہ صرف زندہ کریں بلکہ اس کو اور مضبوط کریں۔ اس کے لیے اگر اس کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت ہو تو وہ بھی کریں اور اپنی اناوں کی قربانی دیں، اپنی ضد چھوڑیں اور اپنے اندر ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔

جب دو درجن سے زائد اپوزیشن جماعتوں نے انڈیا اتحاد قائم کیا تھا تو بی جے پی میں ایک کھلبلی مچ گئی تھی۔ اس کو اپنا زوال بالکل سامنے نظر آنے لگا تھا۔ اسی لیے اس نے ہر وہ حربہ اختیار کیا جس سے اس اتحاد کو توڑا جا سکے۔ اور وہ اس میں کامیاب ہو گئی۔ اس کا آغاز اس نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو توڑ کر اور اپنے این ڈی اے اتحاد میں ملا کر کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے ای ڈی اور سی بی آئی وغیرہ کی مدد سے دوسروں کے حوصلے پست کیے۔ البتہ وہ کانگریس کا حوصلہ پست کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ پارلیمانی انتخابات میں کانگریس نے جھک کر بعض اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا جس کا نتیجہ اس شکل میں برآمد ہوا کہ بی جے پی تن تنہا اکثریت سے دور ہو گئی۔


لیکن ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں انڈیا اتحاد نظر نہیں آیا۔ کانگریس کے ساتھ عام آدمی پارٹی کی انتخابی مفاہمت نہیں ہو سکی۔ سماجوادی پارٹی کے ساتھ تو مفاہمت تھی لیکن وہ برائے نام تھی۔ ویسے بھی ہریانہ میں سماجوادی کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس نے سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کو اہیروال خطے میں انتخابی مہم پر بھیجا ہوتا تو وہاں جس طرح کانگریس کو کم ووٹ ملے وہ صورت حال پیدا نہیں ہوتی۔ عام آدمی پارٹی نے اگر چہ کوئی سیٹ حاصل نہیں کی لیکن اسے پورے دو فیصد سے کچھ زائد ووٹ ملے ہیں۔ اگر یہ ووٹ کانگریس کو ملتے یا دونوں مل کر لڑتے تو بی جے پی کو چند سیٹوں پر نقصان ہوتا۔

اپوزیشن پارٹیوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اسے اگر بھول بھی جائیں تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کی پشت پر دنیا کی سب سے طاقتور تنظیم آر ایس ایس کا ہاتھ ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں اگر چہ آر ایس ایس کے کارکنوں نے مودی وغیرہ کی ضد میں زیادہ جوش خروش کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن ہریانہ میں انھوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ لیکن آر ایس ایس نے یہ کام خاموشی سے کیا۔ بی جے پی اس وقت حکومت میں ہے اس لیے اس کے پاس طاقت بہت ہے۔ اس کے پاس وسائل کی بھی کمی نہیں ہے۔ الیکٹورل بانڈز اور دیگر ذرائع سے اس نے بہت پیسے بنا لیے ہیں۔ اس کا خزانہ اس قدر بھرا ہوا ہے کہ دل کھول کر خرچ کیا جاتا ہے۔ جہاں ایک پیسے کی ضرورت ہوتی وہاں دس پیسے حرچ کیے جاتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی بات یہ کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے تمام سرکاری محکموں میں اپنے آدمی فٹ کر رکھے ہیں جو اس کے لیے نہ صرف مخلص ہیں بلکہ جو اپوزیشن کو بڑے پیمانے پر نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔


کانگریس نے ای وی ایم میں گڑبڑ کا الزام لگایا ہے۔ اس نے سات اسمبلی حلقوں سے متعلق شواہد الیکشن کمیشن میں پیش کیے لیکن کمیشن نے ہمیشہ کے مانند اس الزام کو مسترد کر دیا۔ اپوزیشن پارٹیوں کا یہ الزام ہے کہ چیف الیکشن کمشنر بالکل اس طرح کام کرتے ہیں جیسے کہ وہ آزاد اور خود مختار ادارے کے مالک نہیں بلکہ بی جے پی کے ایجنٹ ہیں۔ لہٰذا وہ بھلا اپوزیشن کی باتیں کیوں سنیں گے۔ ابھی تک الیکشن کمشنروں کے تقرر میں چیف جسٹس آف انڈیا کی بھی شمولیت رہتی تھی لیکن اس حکومت نے قانون میں تبدیلی کرکے ان کی شمولیت کو ختم کر دیا ہے۔ اب الیکشن کمشنروں کے تقرر میں حکومت کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ اس میں حزب اختلاف کا رول برائے نام ہے۔ لہٰذا حکومت جس کو الیکشن کمشنر مقرر کرے گی وہ اس کے ساتھ وفاداری کرے گا۔ اس لیے الیکشن کمیشن سے کسی غیر جانبداری کی توقع فضول ہے۔

ہریانہ میں کانگریس کی جیت کے قوی امکانات تھے۔ تمام ایکزٹ پولز میں اسی کی جیت بتائی جا رہی تھی بلکہ یہ تک کہا جا رہا تھا کہ اس کی آندھی چل رہی ہے۔ لیکن بی جے پی نے اندر اندر ایسی چال چلی کہ ساری پیشین گوئیاں فیل ہو گئیں اور کانگریس جیتتے جیتتے ہار گئی اور بی جے پی ہارتے ہارتے جیت گئی۔ اب جبکہ کانگریس کی کارکردگی توقع کے برعکس رہی، اس کی جو بھی وجہ رہی ہو، تو انڈیا اتحاد میں شامل جماعتوں نے آستیں چڑھا لیں۔ انھوں نے کانگریس پر الزام تراشیوں کے تیر چلانے شروع کر دیے۔ خواہ وہ اکھلیش یادو ہوں یا سنجے راوت، پرینکا چترویدی ہوں یا کوئی اور اپوزیشن رہنما۔ حالانکہ ایسے موقع پر انھیں کانگریس کا ساتھ دینا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے تھا کہ اگر ہریانہ میں بی جے پی اپنی چالوں سے کامیاب ہو گئی تو کوئی بات نہیں ہم اگلے انتخابات میں یعنی مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسے ہرائیں گے۔ ان جماعتوں کو چاہیے تھا کہ وہ بی جے پی کے خلاف کھل کر بولتے تاکہ انڈیا اتحاد کو مضبوطی حاصل ہوتی۔ لیکن انھوں نے اس کے برعکس کانگریس کو کوسنا شروع کر دیا جو کسی بھی طرح اتحاد کے جذبے کے مطابق نہیں ہے۔


اپوزیشن پارٹیو ںکو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کو اپنے وجود کی لڑائی لڑنی ہے اور یہ لڑائی اسی صورت میں لڑی جا سکتی ہے جب متحد ہوا جائے۔ جب ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کر چلا جائے۔ اس وقت صرف اپوزیشن جماعتوں کا وجود ہی خطرے میں نہیں ہے بلکہ ملک کا آئین بھی خطرے میں ہے۔ آئینی اداروں کا وجود بھی خطرے میں ہے۔ جمہوریت بھی خطرے میں ہے اور سیکولرزم کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اگر آئین، جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے متحد نہ ہو سکیں تو کوئی بات نہیں لیکن اپنے وجود کی بقا کے لیے تو انھیں متحد ہونا ہی چاہیے۔ اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انڈیا اتحاد کو مضبوط کیا جائے۔ اپنی اناوں کے خول سے باہر آیا جائے اور تھوڑا جھک کر تھوڑا نرم گرم کرکے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ دن دور نہیں جب ملکی سیاست سے اپوزیشن جماعتوں کا صفایا ہو جائے گا اور پھر اس ملک میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔