جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس نے کئی سوال کھڑے کر دئے

جمعیۃ کے اجلاس میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی شرکت دیکھنے میں آئی، جو موجودہ حالات میں مناسب نہیں ہے۔ اس اجتماع نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ملک کے مفاد میں ایسے اجتماعات سے گریز کرنا چاہیے

<div class="paragraphs"><p>جمعیۃ علماء ہند کے تحفظ آئینِ ہند کنونشن کا منظر / آئی اے این ایس</p></div>

جمعیۃ علماء ہند کے تحفظ آئینِ ہند کنونشن کا منظر / آئی اے این ایس

user

قومی آواز تجزیہ

جمعیۃ علماء ہند کا آئین بچاؤ کنونشن دہلی کے اندرا گاندھی انڈور اسٹیڈیم میں منعقد ہوا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ یہ جمعیۃ کے لیے عام بات تھی لیکن موجودہ ملکی حالات میں ایک غیر معمولی بات سمجھی جا رہی ہے۔ جمعیۃ نے بھی شاید گزشتہ دس سالوں میں اتنا بڑا کنونشن منعقد نہیں کیا تھا، کیونکہ اس دوران مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر اجتماع منعقد کرنا مشکل تصور کیا جاتا تھا۔ مرکزی حکومت میں کچھ سالوں کے لیے مسلمانوں کے دو وزراء تھے، جن کی تعداد بعد میں صفر ہو گئی، تو مسلم تنظیموں کے لیے اپنی بات مرکزی حکومت تک پہنچانا مشکل ہو گیا۔ ایسے میں مسلم تنظیمیں اجتماعات سے گریز کرتی رہی ہیں۔

اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں، دلتوں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار کیا، جس سے برسرِ اقتدار جماعت (بی جے پی) کے چار سو پار کے نعرے کو ناکام بنایا گیا اور حزب اختلاف کو لوک سبھا میں قابلِ عزت نشستیں حاصل ہوئیں۔ انتخابی نتائج سے بی جے پی کو واضح اکثریت نہیں ملی اور اسے چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار جیسے اتحادیوں پر انحصار کرنا پڑا۔ اس کے نتائج یہ بھی ہوئے کہ مسلم تنظیموں کو یا تو حکومت نے استعمال کیا، یا ان تنظیموں کے دل سے ڈر نکل گیا اور انہوں نے اجتماعات منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔


مسلمان ہندوستانی ہیں اور زبردست محب وطن ہیں، لیکن گزشتہ دس سالوں کے دوران ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ جیسے نعروں کے باوجود، انہیں محسوس ہوا کہ انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ تفریق برتی جا رہی ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ جن طبقات نے حزب اختلاف کو ووٹ دیا، انہوں نے جمہوریت کا دفاع کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان طبقات کی تنظیموں نے اب کھل کر میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایسا قومی مفاد میں ہے تو اسے فطری بات کہا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی اور وجہ ہے تو پھر یہ قابلِ تشویش ہے۔

<div class="paragraphs"><p>جمعیۃ علماء ہند کے تحفظ آئینِ ہند کنونشن کا منظر / آئی اے این ایس</p></div>

جمعیۃ علماء ہند کے تحفظ آئینِ ہند کنونشن کا منظر / آئی اے این ایس

IANS

جمعیۃ علماء ہند وہ واحد تنظیم ہے جو مسلمانوں کو بڑی تعداد میں اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دہلی کے انڈور اسٹیڈیم میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کا اجتماع ہوا اور پورے علاقے میں لوگ جمع تھے۔ اگر یہ اجتماع مسلمانوں کو قوت دکھانے کے لیے کیا گیا ہے تو موجودہ ملکی ماحول اس کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ اس طرح کے اجتماعات سے فرقہ پرست طاقتوں کو نفرت پھیلانے کا موقع مل سکتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم تنظیموں کی قوت کا مظاہرہ دراصل فرقہ پرست طاقتوں کی مضبوطی کا سبب بنتا ہے؟


وجہ کچھ بھی ہو، جمعیۃ علماء ہند کے اس کنونشن نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایسی قومی سطح کی تنظیموں کو ملک کے مفاد میں ایسے اجتماعات سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ ان تنظیموں نے گزشتہ دس سالوں میں ڈر اور خوف کی وجہ سے، جسے وہ ’مصلحت‘ کہتے ہیں، ایسے اجتماعات سے پرہیز کیا ہے اور کچھ فیصلے احتجاج کیے بغیر قبول بھی کیے ہیں، جبکہ دس سال پہلے یہ ممکن نہیں تھا۔ ملک کے مفاد میں نفرت کے پھیلاؤ کو روکنا ضروری ہے اور اس کے لیے ایسے اجتماعات سے گریز کرنا ضروری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔