بھگوا بریگیڈ کے ارمانوں پر بلڈوزر چل گیا!

پچھلے کچھ سالوں میں ڈیڑھ لاکھ مکانات گرا دیے گئے، ان کا سب سے زیادہ نقصان ان خواتین، بچے اور بوڑھوں کو ہوتا ہے جنہوں نے کچھ نہیں کیا، ان کو در در بھٹکنا پڑتا ہے

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

user

نواب علی اختر

ملک کی مختلف ریاستوں میں ملزمین اور مجرمین کے خلاف کی جا رہی جابرانہ اور بے رحمانہ بلڈوزر کارروائی پر آخر کار عدالت عظمیٰ کو سخت موقف اختیار کرنا پڑا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامی مشینری کو کسی بھی شکل میں اور کسی بھی سطح پر قانونی عمل کو انجام دینے کی ذمہ داری سے بری نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ سالوں سے بلڈوزر کو جرائم کی علامت کے طور پر استعمال کرنے اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف ’عدم برداشت‘ کی پالیسی کا رجحان بڑھ رہا تھا جس کی وجہ سے کئی سوالات اٹھ رہے تھے۔ حالانکہ یہ رجحان اتر پردیش سے شروع ہوا مگر دھیرے دھیرے بی جے پی زیر حکمرانی ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش، ہریانہ میں بھی اس کا استعمال شروع ہو گیا تھا جس سے عوام میں ہیجان پیدا ہو گیا تھا۔

حالانکہ ایسی کارروائی کے حق میں ہر جگہ یہ دلیل دی جا رہی تھی کہ سرکاری بلڈوزر صرف غیر قانونی تعمیرات کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن جس طرح سے کسی جرم میں نام آنے کے بعد یہ کارروائی کی جاتی تھی ، اس سے صاف تھا کہ معاملہ صرف غیر قانونی تعمیرات کا نہیں ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے تازہ ترین موقف کی باریکیاں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ عدالت نے سب سے پہلے تو یہ واضح کیا کہ کسی کا گھر اس بنیاد پر نہیں گرایا جا سکتا کہ وہ کسی بھی مقدمے میں ملزم ہے۔ اگر کسی پر جرم ثابت ہو جائے تب بھی اس کا گھر نہیں گرایا جا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ انہدام کے لیے قانون میں جو گنجائش فراہم کی گئی ہے اس کے مطابق اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

درحقیقت سب سے بڑا سوال قانونی طریقہ کار پر عمل کرنے اور ہر فرد کے حقوق کا تحفظ ہے۔ اسی لیے سپریم کورٹ نے الگ الگ کیسز کے میرٹ میں جانے کے بجائے اس بات کو یقینی بنانا زیادہ ضروری سمجھا کہ منمانے طریقے سے بلڈوزر کارروائی نہ کی جا سکے۔ پورے ملک کے لیے ایک گائیڈ لائن بنانے کا فیصلہ اس لحاظ سے اہم ہے۔ قانون کا خوف ہونا چاہیے اگرچہ جرائم پیشہ عناصر میں ایک حد تک خوف پیدا کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن شہریوں میں پولیس انتظامیہ کا خوف پیدا ہونے کی صورت حال کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ خوف ہو بھی تو قانون کا ہونا چاہیے، سرکاری مشینری کا نہیں۔ سپریم کورٹ کے متوازن نقطہ نظر نے اس کیس میں تمام فریقین کے لیے قانونی حدود کا خاکہ پیش کرنے کی قابل ستائش کوشش کی ہے۔

عدالت عظمیٰ کا یہ اقدام سارے ملک کے لیے ایک مثال ہوگا اور اس کے ذریعہ غیر قانونی طور پر کی جانے والی انہدامی کارروائیاں رکیں گی اور اگر کچھ تعمیرات غیر قانونی بھی ہیں اور ان سے عوامی نقل و حمل متاثر ہوتا ہے تو ان کے انہدام کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ عدالت کا اقدام ملک کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد کے لیے راحت کا باعث ہوگا اور اس کے نتیجہ میں عہدیدار اور حکام کی جانب سے من مانے انداز میں کارروائیوں کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے سخت موقف نے یقینی طور پر بھگوا بریگیڈ کے ارمانوں پر بلڈوزر چلا دیا ہے کیونکہ وزارت اعلیٰ جیسے عہدے پر بیٹھا شخص مسلم دشمنی میں اندھے ہو چکے انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے لیے ہی ایسی کارروائی کی اجازت دیتا تھا۔


یاد ہوگا کہ جس وقت سے اترپردیش میں بلڈوزر کارروائی شروع ہوئی تھی اس کے بعد سے کئی ریاستوں میں یہ سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ حد تو یہ ہو گئی کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ’بلڈوزر بابا‘ تک کہا جانے لگا تھا اور لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران بلڈوزروں کو عوامی ریلیوں اور جلسوں میں پیش کرتے ہوئے اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ تک اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کارروائیاں در اصل مخصوص گوشوں کو نشانہ بنانے اور پھر اس کے ذریعہ ووٹ بٹورنے کے لیے شروع کی گئی تھیں جس کے لیے قانون کے محافظ ہی قانون کے دشمن بن گئے۔ اس ساری کارروائی میں قانونی گنجائش کا راستہ اختیار نہیں کیا گیا اور من مانے طریقے سے یہ کارروائی ہوتی رہی۔

مدھیہ پردیش ہو یا راجستھان ہو یا پھر ہریانہ یا کوئی اور ریاست ہو سبھی جگہ ایسی کارروائیاں کی گئی تھیں۔ یہ الزامات بھی کسی حد تک صحیح تھے کہ بلڈوزر کے ذریعہ مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کے پس پردہ سیاسی محرکات بھی رہے تھے۔ اس کا ثبوت راجستھان ہے ۔ ریاست کی راجدھانی جے پور کے ایک اسکول میں دو بچوں کا جھگڑا ہوا جس میں غیر مسلم بچے کے ہاتھ سے خون بہنے لگے۔ اس کے بعد مسلم بچے کے والد کا گھر گرا دیا گیا جب کہ اس مکان کا مالک راشد خاں معمولی رکشہ ڈرائیور ہے، بڑی مشکل سے پیسے بچا کراس نے گھر خریدا تھا، اسی طرح یوپی کے قنوج میں ایک غریب نائی کی دکان زمیں دوز کر دی گئی، صرف اس وجہ سے کہ ایک ویڈیو آئی کہ وہ سر پر مالش کرتے ہوئے ہاتھ میں تھوک لگا رہا ہے۔

ان واقعات کی موجودگی میں کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمانوں سے چڑھنے والی بی جے پی اور اس کی حکومت والی ریاستوں میں انتظامیہ کی تقریباً تمام کارروائیاں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر مرکوز ہوتی ہیں حالانکہ اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا مگر ایک گروہ ہے جسے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اور اس گروہ کی مثال وہی ہے کہ پڑوس کی دیوار گرنا چاہئے خواہ اس کی ماں اس میں دب کر مر ہی کیوں نہ جائے۔ تو جس سماج میں ایسی ذہنیت کے لوگ پائے جائیں گے وہاں انسانیت تو جیتے جی مر جائے گی۔ مگر اس سے اقتدار کی حوس کے شکار نیتاوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ انہیں تو بس کرسی چاہئے اس کے لیے چاہے آئین کی قربانی دینا پڑے یا قانون کا مذاق بنانا پڑے۔

ایسے ہی تنگ نظر نیتاوں کے ذریعہ انتہا پسند گروہ کو خوش کرنے کے لیے شروع کیا گیا غیر قانونی عمل ملک میں باضابطہ روایت بنتا نظر آ رہا تھا کیونکہ ایسے لوگوں کا ماننا تھا کہ اس سے ان کا ووٹ بینک مضبوط ہوگا لیکن لوک سبھا انتخابات 2024 نے صاف کر دیا کہ یہ جمہوری ملک پیار اور محبت کرنے والوں کا ہے یہاں نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اس کا ثبوت عوام نے نفرت کے خلاف محبت کی دکان کھولنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھا کر دے دیا۔ اس صورتحال سے لیڈروں کو سبق لینا چاہئے اور یہی عقلمندی بھی ہے کیونکہ موجودہ وقت میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ پریشان ہے اور جب عوام پریشان ہوتے ہیں تو بغاوت سر اُٹھاتی ہے اور تب ملک کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے لہٰذا ملک کو مزید نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے لیڈروں کو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔


اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی مقاصد کے تحت یہ سب کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومتیں ہی قانونی راستہ اختیار نہ کریں اور من مانے انداز میں عہدیدار کام کرنے لگ جائیں تو یہ شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں کہ عہدیدار اور حکام قانون کا احترام کرنے کی بجائے سیاسی اشاروں کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ اب جبکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ اس طرح کی انہدامی کارروائیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی اور ایسی کارروائی کے لیے عدالت سے ہی رہنما خطوط جاری کئے جائیں گے تو حکومتوں اور عہدیداروں کو بھی اپنے اقدامات پر نظرثانی کرنا چاہئے۔ انہیں بھی عدالتی احکام اور رہنما خطوط کے مطابق اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے۔ من مانی سے گریز کرنا چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔