مذہبی شدت پسندی کا جواب دوری نہیں قربت بڑھانے میں ہے... سید خرم رضا
فرقہ وارانہ کشیدگی کو دور کرنے کے لئے ہر سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس لڑائی میں وقت ضرور لگے گا لیکن جیت اصلاحات اور مثبت سوچ کی ہی ہوگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایک مرتبہ پھر سر چڑھ کر بولے گی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پہلے کورونا وبا اور پھر روس و یوکرین جنگ نے پوری دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا اور جس کی وجہ سے پوری دنیا بڑھتی مہنگائی سے چیخ اٹھی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے روز مرہ کے استعمال کی ہر اشیا کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔ حکومتیں اور عوام جیسے تیسے اس مہنگائی سے لڑ رہے ہیں اور دیر سویر اس کا کوئی حل بھی نکل بھی آئے گا، لیکن ہندوستان میں جو فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ رہی ہے اس کو لے کر ہر ذی شعور شخص پریشان ہے اور اس کو اس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔
اقلیتیں بالخصوص مسلمانوں نے جس خاموشی اور برداشت کا مظاہر ہ کیا ہوا ہے اس سے ایسا ظاہر ہو تا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں ملک کی گنگا-جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، جبکہ یہ ذمہ داری ملک کے اکثریتی طبقہ کی ہوتی ہے، کیونکہ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ چھوٹے بھائی کو صحیح راستے پر چلانے کے لئے بڑے بھائی کو اپنے کردار اور عمل کے ذریعہ مثال پیش کرنی چاہئے۔ اب جب پورے ملک کے ماحول میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا زہر پھیل رہا ہے اس میں جو بھی اس زہر کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا وہی بڑا اور سمجھدار کہلائے گا۔
صرف خاموشی اور برداشت کافی نہیں ہے بلکہ اکثریتی طبقہ کے ساتھ مل کر قومی سطح پر اصلاحات کرنا اور اقلیتی طبقہ کے اندر جو خامیاں ہیں ان کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے۔ اکثریتی طبقہ کے ساتھ مل کر اصلاحات کرنے سے مراد یہ ہے کہ شرپسند عناصر اور سیاست کی وجہ سے دونوں طبقوں میں جو خلیج بڑھ رہی ہے اس کو روکنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ اکثریتی طبقہ سے روابط بڑھائے جائیں اور اچھے کردار سے ان کے دلوں کو جیتا جائے اسی سے شر پسند عناصر کو شکست ہو سکتی ہے۔ اکثریتی طبقہ کے ساتھ کاروباری لین دین بڑھایا جائے اور ان سے معاملات صاف اور اچھے رکھے جائیں۔
اندرونی اصلاحات کے لئے بہت ہی مناسب ماحول ہے کیونکہ ایسے ماحول میں مثبت بحث مباحثہ کی گنجائش پیدا ہوتی ہے کیونکہ سب حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم کی ہمیشہ اہمیت اور ضرورت رہے گی، لیکن تعلیم کے معاملہ میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے اور سر سید والی جدید تعلیم کی ضرورت ہے اس لئے مدارس کے نصاب میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے اور افسران کے بچوں کے ذریعہ انگریزی میڈیم اسکولوں کے بچوں میں کوئی بڑا فرق نظر نہ آئے۔ تعلیم کی اہمیت اور اصلاحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے بھی ہر ذی شعور شخص اتفاق کرے گا کہ آج کے دور میں ترقی کا سب سے بڑا ہتھیار معیشت ہے یعنی معاشی طور پر مضبو ط ہونا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ کاروبار میں کامیابی حاصل کی جائے۔ اگر اقلیتی طبقہ معاشی طور پر مستحکم ہوگا تو وہ اکثریتی طبقہ کی ضرورت بھی بن جائے گا اور روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔
پورا ملک جس چیز سے پریشان ہے وہ ہے فرقہ وارانہ شدت پسندی اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اقلیتی طبقہ اپنی جانب سے کسی قسم کی مذہبی شدت پسندی کا مظاہرہ نہ کرے، بلکہ خود کو زیادہ آزاد خیال کے طور پر پیش کرے تاکہ اکثریتی طبقہ کی مذہبی شدت پسندی بھی کم ہو، کیونکہ شدت پسندی جواب نہ ملنے کی صورت میں دیر سے ہی صحیح اپنی موت مر جاتی ہے۔ اس کے لئے وہ مسجد تعمیر پر توجہ دینے کے بجائے کاروبار شروع کر نے اور بڑھانے پر توجہ دیں۔ مسجدوں کی تزئین کاری میں پیسہ کم خرچ کریں اور کاروبار بڑھانے پر زیادہ، تاکہ تمام لوگوں کے لئے روزگار فراہم کیا جا سکے۔ گھروں میں کاروباری گفتگو میں اضافہ ہونا چاہئے۔
خواتین کا اس میں بہت اہم رول ہے کیونکہ اگر وہ چاہیں کہ پورا ماحول تبدیل ہو جائے تو انہیں اپنے کپڑوں اور فیشن سے توجہ ہٹاکر اپنے گھر والوں کے ساتھ کاروبار کے فروغ کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقلیتی طبقہ کی آدھی آبادی یعنی خواتین کا کردار بڑھنا چاہئے اور ان کو اپنے شوہر اور بیٹے کے لئے معاون بننا چاہئے۔ بڑھتی مذہبی شدت پسندی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو دور کرنے کے لئے ہر سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس لڑائی میں وقت ضرور لگے گا لیکن جیت اصلاحات اور مثبت سوچ کی ہی ہوگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایک مرتبہ پھر سر چڑھ کر بولے گی۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ مذہبی شدت پسندی کا جواب دوری نہیں قربت بڑھانے میں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔