شیرنی صفت تیستا سیتلواڑ کو میرا سلام… ظفر آغا
اس مشکل میں بھی تمھاری جرأت ہی تمھارا ساتھ دے گی۔ ان حالات میں اور تو بس کیا کہوں، بس یہی دعا ہے کہ تم جو دوسروں کو انصاف دلوانے کے لیے جیل پہنچ گئی، ویسے ہی تم کو بھی جلد ہی انصاف ملے
تیستا جیل میں، زبیر جیل میں، عمر خالد جیل میں! کس کس کو روئیے، کس کس کا ماتم کیجیے۔ جس نے بھی حکومت وقت کے خلاف آواز اٹھائی وہ سب سلاخوں کے پیچھے۔ یوں تو ہر انصاف پسند کی جیل تکلیف دہ ہے، لیکن تیستا کا غم میرے لیے بہت پریشان کن ہے۔ تیستا سے میرے ذاتی تعلقات سنہ 1993 سے تھے۔ ارے، اس کے گھر پر جب گجرات پولیس پہنچی تو اس سے کوئی ایک گھنٹے پہلے میری فون پر بات ہوئی۔ میں نے تیستا کو فون کیا، اس نے فوراً ہی فون اٹھایا۔ میں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیرت ظاہر کی اور کہا کہ کیا ذکیہ جعفری اب گرفتار ہوں گی۔ وہ بولی کہ ان کو تو گرفتار نہیں کریں گے۔ پھر خود ہی کہا مجھے لگتا ہے کہ میں گرفتار ہو جاؤں گی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ اس کو نہیں بخشا جائے گا۔ لیکن اس کی آواز میں کوئی خوف نہیں تھی۔ شیرنی صفت بہادر تیستا آخر وقت تک بے خوف تھی۔ بس اس فون کال کے مشکل سے گھنٹے بھر بعد پولیس اس کے ممبئی والے مکان میں گھس چکی تھی۔ باقی باتوں سے آپ باخبر ہیں کہ پہلے اس کو ممبئی کے تھانے لے جایا گیا، پھر اسی رات گجرات پولیس تیستا کو احمد آباد لے گئی جہاں وہ سری کمار اور سنجیوبھٹ کے خلاف پولیس ریمانڈ میں ہے۔ ایک بات طے ہے کہ عمر خالد اور شرجیل امام کی طرح تیستا، سنجیو بھٹ اور سری کمار نہ جانے کب تک سلاخوں کے پیچھے بند رہیں۔ جو حالات ہیں اس کے پس منظر میں ان میں سے کسی کو ضمانت بھی مل پانا ناممکن ہے اور رہائی کا کیا سوال جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہی کہہ دیا کہ تیستا نے گجرات فساد کے بعد وزیر اعظم کو بدنام کرنے کی سازش رچی۔ سپریم کورٹ نے کھل کر یہ بھی کہا کہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ بھلا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد رہائی کی کیا گنجائش۔ بس بقول فیض احمد فیض:
تم ہی مدعی، تم ہی وکیل، تم ہی منصف
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی مانگیں
جی ہاں، اس نئے ہندوستان کے سپریم کورٹ کا چلن بھی کچھ نیا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ سپریم ہے اور اس کا ہر فیصلہ بھی سپریم۔ اس لیے ہر کسی کو سپریم کورٹ کا فیصلہ منظور ہے۔ لیکن تیستا سے پرانی رغبت کے سبب دل دکھتا ہے۔ میں سنہ 1993 میں پہلی بار تیستا سے دہلی میں ملا تھا۔ یہ ذکر ہے بابری مسجد ڈھائے جانے کے کچھ مہینوں بعد کا۔ ہوا یہ کہ مسجد گرانے کے بعد دہلی میں مسلم انٹلکچوئل فارم نام سے ایک گروپ قائم ہوا۔ اس گروپ نے سارے ہندوستان سے مسلم اور سیکولر افراد کو اس وقت کے حالات پر غور و فکر کے لیے مدعو کیا۔ میں اس وقت انڈیا ٹوڈے سے منسلک تھا۔ تیستا، اس کے شوہر جاوید آنند، جاوید اختر اور شبانہ اعظمی ممبئی سے مسلم مذاکرے میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ ظاہر ہے کہ میں اس مذاکرے میں پیش پیش تھا۔ اس گروپ سے جڑا ہوا بھی تھا۔
میں تیستا کے شوہر جاوید آنند سے پہلے سے واقف تھا۔ جاوید بھی صحافی تھے۔ میں اور وہ کچھ پہلے آبزرور اخبار سے منسلک تھے۔ وہ ممبئی میں تھا اور میں دہلی میں تھا۔ لیکن ہم دونوں ایک دوسرے سے واقف تھے۔ خیر، مسلمانوں کے ہر معاملے کی طرح اس مذاکرے میں بھی کافی ہنگامہ آرائی رہی۔ جب مرحوم شہاب الدین بولنے کھڑے ہوئے تو لوگ ان پر برس پڑے۔ ان کا تعلق بابری مسجد تحفظ کے لیے بننے والے گروپ سے تھا۔ عام طور پر مسلمان بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے قائدین سے بہت ناراض تھا۔ قائدین ملت قوم کو بابری مسجد بچانے کے لیے اپنی جانیں بھی دینے کی باتیں کرتے رہے تھے، لیکن جب مسجد گری اور پورے ہندوستان میں بھڑکے دنگوں میں ہزاروں مسلمان مارے گئے تو بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے لیڈران کا ایک بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ اس سے مسلمان ان تمام لیڈران کے خلاف غصے سے کھول گیا۔ یہی سبب تھا کہ جب شہاب الدین صاحب بولنے کھڑے ہوئے تھے تو لوگوں کا غصہ ایک دم بھڑک اٹھا۔ میں نے اسٹیج پر جا کر کسی طرح حالات کنٹرول کیے۔
جب میں اسٹیج سے نیچے آیا تو جاوید آنند میرے پاس آئے اور پروگرام ختم ہوتے ہی تیستا، جاوید آنند، جاوید اختر اور شبانہ اعظمی پاس ہی ایک چائے خانے میں بیٹھ گئے۔ ممبئی کے فساد بھی ہو چکے۔ ہم سب ممبئی فساد اور بابری مسجد کے بارے میں محو گفتگو تھے۔ جاوید نے مجھ سے تیستا کا تعارف کروایا۔ تیستا کا نام سنتے ہی میں چونک پڑا۔ دراصل اس وقت تیستا بھی ایک صحافی ہی تھی۔ اس نے ممبئی فساد پر شاندار رپورٹنگ کی تھی۔ اس وقت کی نوجوان تیستا نے بالا صاحب ٹھاکرے جیسے لیڈر کی پرواہ کیے بغیر اپنی رپورٹ میں ممبئی فساد کے دوران ممبئی پولیس کی طرح شیو سینکوں کی فساد میں ملی بھگت ایکسپوز کی تھی۔ تیستا کو کوئی ڈر نہ بالا صاحب ٹھاکرے کا تھا اور نہ ہی ممبئی پولیس کا۔ ہم دونوں آپس میں ملتے ہی دوست ہو گئے۔ اور یہ تعلقات اس وقت سے اس کے گرفتار ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے تک قائم تھا۔ میں نے وہ فون بحیثیت ایک دوست تیستا کی خیریت معلوم کرنے کے لیے کیا تھا۔ خیریت تو کیا، تھوڑی دیر میں پتہ چلا کہ گجرات پولیس اس کو اٹھا لے گئی۔
ممبئی فساد کے بعد جلد ہی تیستا اور جاوید آنند دونوں نے اپنی نوکریاں چھوڑ کر این جی او قائم کیا۔ ساتھ ہی فرقہ واریت کے خلاف اپنی ایک میگزین کمیونلزم کمبیٹ شروع کی۔ جب سنہ 2002 میں گجرات میں دنگے بھڑک اٹھے تو تیستا فوراً وہاں پہنچ گئی اور ممبئی فساد کی طرح اس نے گجرات نسل کشی اپنی رپورٹ کے ذریعہ سارے ہندوستان تک پہنچائی۔ آج بھی اس کی وہ رپورٹ کمیونلزم کمبیٹ میں محفوظ ہے۔ اور تاریخ میں جب جب گجرات دنگوں پر ریسرچ ہوگی تو تیستا کی وہ تحریر ضرور کوٹ ہوگی۔ دنگوں کے بعد تیستا عدالت کے ذریعہ کس طرح گجرات میں لوگوں کو انصاف ملے اس کے لیے لڑتی رہی۔ اس نے بہتوں کو انصاف دلوایا بھی۔ لیکن ذکیہ جعفری کے لیے انصاف کی آخری گہار لگائی تو خود تیستا جیل پہنچ گئی۔ اب دیکھیے تیستا کو کب انصاف ملتا ہے خدا جانے! لیکن جس طرح تیستا گجرات دنگوں میں متاثرین کے لیے لڑتی رہی، اب مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ بھی تیستا کی ہر پریشانی میں اس کا ساتھ دیں۔
شیرنی صفت تیستا تم کو میرا سلام۔ اس مشکل میں بھی تمھاری جرأت ہی تمھارا ساتھ دے گی۔ ان حالات میں اور تو بس کیا کہوں، بس یہی دعا ہے کہ تم جو دوسروں کو انصاف دلوانے کے لیے جیل پہنچ گئی، ویسے ہی تم کو بھی جلد ہی انصاف ملے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Jul 2022, 10:11 AM