نگرانی راج: نئے قانون کا مسودہ، طاق پر رازداری... ورندا بھنڈاری

مودی حکومت برطانوی دور کے ٹیلی کمیونیکیشن قانون کو تبدیلی کرنے جا رہی ہے۔ اس کے لیے نئے قانون کا مسودہ جاری کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بل حکومت کو لوگوں کی ذاتی زندگی میں تاک جھانک کا حق فراہم کرتا ہے۔

Getty Images
Getty Images
user

ورندا بھنڈاری

سوشل میڈیا پر حکومت کی ٹیڑھی نظر تو رہی ہے لیکن اب اسے 'راستے' پر لانے کے لیے قانونی بنیاد تیار کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کیا ہے۔ 28 اکتوبر کو حکومت نے آئی ٹی انٹرمیڈیری ترمیمی رولز، کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جس کے تحت شکایت ایپلٹ کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور اس کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ٹوئٹر، فیس بک جیسی سوشل میڈیا کمپنیوں کو کسی بھی مواد کو ہٹانے کے لیے براہ راست ہدایت دے سکے۔

حکومت نے کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا کا محاصرہ شروع کیا تھا۔ اس سلسلے میں چند ماہ قبل انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (سرٹ-ان) کی جانب سے نئی رہنما ہدایات جاری کی گئی تھیں، جس میں ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کے لیے تمام صارفین کے ذاتی ڈیٹا کا ریکارڈ رکھنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹیلی کام بل 2022 کا مسودہ بھی کافی تبدیلیاں لانے والا ہے۔


مجموعی طور پر ان قوانین کا اثر یہ ہوگا کہ حکومت کو سنسر شپ اور نگرانی کے بے لگام اختیارات حاصل ہوں گے اور واٹس ایپ، سگنل، فیس ٹائم وغیرہ جیسے پلیٹ فارمز پر نجی بات چیت تب تک نجی رہ سکے گی جب تک حکومت چاہے گی۔ اس کے علاوہ حکومت کو منمانی اور غیر منصفانہ وجوہات کی بنا پر انٹرنیٹ بند کرنے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر منمانی سنسر شپ نافذ کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔ اس طرح، یہ قوانین حکومت اور اس کی مختلف ایجنسیوں کو تمام ٹیلی کام سروسز پر 'عارضی قبضہ' کر لینے کے اہل بناتے ہیں، خواہ وہ جی میل، واٹس ایپ اور نیٹ فلکس ہو یا جیو۔ ظاہر ہے کہ اس طرح بڑھتی ہوئی سنسر شپ اور نگرانی آزادی اظہار اور رازداری کو بری طرح متاثر کرے گی۔

خطرناک مسودہ

اس حکومت نے جتنے بھی قوانین بنائے ہیں ان کے مقابلے ٹیلی کام بل کا مسودہ شاید سب سے خطرناک ہے۔ فی الحال اس مسودے پر عوامی رائے طلب کی جا رہی ہے اور صرف امید ہی کی جا سکتی ہے کہ اسے قانون کی شکل نہیں دی جائے گی۔ لیکن ٹیلی کام بل کے مسودے کے بارے میں فکر کیوں کرنی چاہئے، خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ ابھی قانون بنا بھی نہیں ہے؟


اس کی ایک بہت ہی معقول وجہ ہے۔ ٹیلی کام بل کے دائرہ کار میں تین بڑے قوانین شامل کیے گئے ہیں: انڈین ٹیلی گراف ایکٹ، 1885؛ انڈین وائرلیس ٹیلی گرافی ایکٹ، 1933؛ اور دی ٹیلی گراف وائرز (غیر قانونی تحفظ) ایکٹ، 1950۔ یہ تینوں قوانین پورے ٹیلی کام سیکٹر پر حکومت کرتے ہیں۔ ان ایکٹ کی دفعات کو مضبوط بنانے کے پیچھے حکومت کا مقصد ایک قانونی ڈھانچہ بنانا ہے جو '21ویں صدی کے حقائق کے مطابق' ہو۔

بل کے وضاحتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ 'ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر کے لیے موجودہ ریگولیٹری فریم ورک انڈین ٹیلی گراف ایکٹ، 1885 پر مبنی ہے۔' ٹیلی کمیونیکیشن کی نوعیت اس کے استعمال اور ٹیکنالوجیز 'ٹیلیگراف' کے دور سے کافی حد تک بدل گئی ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ 'اب ہم نئی ٹیکنالوجیز جیسے 4G اور 5G کے دور میں ہیں ملک کو اس شعبے کے لیے ایک جامع قانونی فریم ورک کی ضرورت ہے، جو 21ویں صدی کی ٹیلی کمیونیکیشن کی نوعیت اور ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔‘


اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم ٹیلی کمیونیکیشن کے ایک نئے دور میں ہیں۔ ہندوستان میں آج 1.17 بلین صارفین کا ٹیلی کام ایکو سسٹم ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر 40 ملین افراد کو ملازمت دیتا ہے اور ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں تقریباً 8 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔ ٹیلی کام بل انسٹنٹ میسجنگ ایپس اور نیٹ ورک سروس فراہم کرنے والے پلیٹ فارمز سے لے کر او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور اسمارٹ واچز/اسمارٹ ٹی وی تک تمام مواصلاتی خدمات کو کنٹرول کرے گا۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بل کے ذریعے شہری کی پرائیویسی کے حق، اظہار رائے کی آزادی اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز بالخصوص انٹرنیٹ پر مساوی رسائی کا تحفظ کیا جاتا، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اس کے برعکس ہوا ہے۔ موجودہ ٹیلی کام بل حکومت کو آمرانہ اختیارات دیتا ہے اور مواصلات کے آئینی اور جمہوری اصولوں کو مجروح کرتے ہوئے تجارتی مواقع کو فروغ دیتا ہے۔

کیا تشویش ہے؟

ٹیلی کام بل نے پہلی نظر میں درج ذیل خدشات کو جنم دیا ہے: سب سے پہلے، 'ٹیلی کام' اور 'ٹیلی کام سروسز' کی وسیع تر تعریفوں کے نتیجے میں متعدد او ٹی ٹی پلیٹ فارمز، جیسے واٹس ایپ، سگنل، زوم وغیرہ ٹیلی کام بل کے دائرہ کار میں آ گئے ہیں۔ جب آپ بل کے دائرہ کار کے ساتھ اس حقیقت پر بھی غور کرتے ہیں تو روایتی طور پر او ٹی ٹی پلیٹ فارم اور میسنجر سروسز حکومت کے ضابطے کے تحت نہیں تھیں۔


اگر بل قانون بن جاتا ہے تو تمام نشریاتی خدمات، ای میل، وائس میل، موبائل سروسز، انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ سروسز، مشین ٹو مشین کمیونیکیشن سروسز، انٹرنیٹ پر مبنی کمیونیکیشن پلیٹ فارمز، انسٹنٹ میسجنگ ایپس، انٹرنیٹ ایپلی کیشنز کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیو/کال ایپلی کیشن سبھی اس کے دائرہ کار میں آجائے گا۔

لائسنس راج واپس آگیا

دوسرا، موجودہ بل مرکزی حکومت کو ’ٹیلی کمیونیکیشن سروسز فراہم کرانے‘ اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز فراہم کرنے یا ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک چلانے کے لیے ’لائسنس‘ دینے کا ’ استحقاق‘ دیتا ہے۔ مزید براں، ٹیلی کام بل کی شق 4(1) اور 4(7) میں کہا گیا ہے کہ لائسنس کی فراہمی ان شرائط و ضوابط سے مشروط ہوگی جن میں ان افراد کی شناخت بھی شامل ہے جنہیں یہ خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔ جب ہم 'ٹیلی کام سروسز' کی وسیع تر تعریف کے ساتھ اس شق پر غور کرتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ ہم اس بدنام زمانہ لائسنس راج میں واپس آ گئے ہیں۔ اس لائسنسنگ نظام سے اختراع پر اثر پڑے گا جس سے جی میل، ٹوئٹر، واٹس ایپ، سگنل، ٹاٹا اسکائی، جیسی کمپنیاں متاثر ہوں گی۔ ان کمپنیوں کو ہندوستان میں کام کرنے کے لیے لائسنس کے لئے درخواست دینا ہوگی۔


اس کے علاوہ براڈکاسٹر بھی حکومتی ضابطے کے تحت ہو سکتے ہیں اور اس سے ان کی آزادی کو مزید کم کر سکتے ہیں۔ اگر حکومت کے پاس لائسنس دینے یا واپس لینے کا اختیار ہے تو وہ ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والوں اور ان کے درمیان موجود دیگر ایجنسیوں کو بھی کنٹرول کر سکے گی۔ یہ کوئی ہوا ہوائی بات نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی شکایات پہلے ہی ملک کے کچھ حصوں سے آچکی ہیں۔ زیادہ تر ایپس (جو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں یا سرورز سے منسلک ہیں) کو بھی کام کرنے کے لئے لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ گوگل پے سے لے کر زومیٹو اور لوڈو کنگ سے ایئر بی این بی تک ہر چیز کا احاطہ کیا جائے گا۔

رازداری کا بحران

اس کے علاوہ بل کے مسودے میں تمام ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والوں کے لیے یہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی خدمات حاصل کرنے والے ہر فرد کی شناخت کریں۔ یہ خاص طور پر اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب ہندوستان میں ڈیٹا کے تحفظ کا کوئی قانون نہیں ہے۔ چونکہ ڈرافٹ میں لفظ 'شناخت' کی تعریف نہیں کی گئی ہے، تو ایسے میں کیا ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والوں کو اپنے صارفین کی شناختی معلومات جیسے آدھار نمبر، فون نمبر، پتہ، آبادیاتی تفصیلات وغیرہ کو جمع کرنا ہوگا؟ مثال کے طور پر اگر ایل جی بی ٹی کیو آئی اے کمیونٹی کے لیے ڈیزائن کردہ ڈیٹنگ ایپ (جو 'ٹیلی کام سروس' ایک فوری پیغام رسانی پلیٹ فارم کے دائرے میں آتی ہے) ہندوستان میں کام کرنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو اسے اپنے تمام صارفین کی شناخت کرنے کی ضرورت ہوگی اور اسے ظاہر بھی کرنا پڑے گا۔ الغرض اس کے ذریعے حکومت لوگوں کے جنسی رویے پر بھی نظر رکھ سکتی ہے۔


ٹیلی کام بل کے مسودے میں ایسے صارفین پر بھاری جرمانے کا بھی بندوبست کیا گیا ہے جو بغیر لائسنس کے ایجنسی کی خدمات استعمال کرتے ہیں اور اگر کمپنی کسی بھی دفعات کی خلاف ورزی کا مرتکب پائی جاتی ہے۔ کمپنی کے اہلکار بھی ذاتی طور پر جوابدہ ہوں گے۔

حکومتی نگرانی

تیسرا، ٹیلی کام بل ان قدیم اور برطانوی قانون (انڈین ٹیلی گراف ایکٹ، 1885) سے ملتا جلتا ہے، جسے یہ بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مسودے میں زیادہ تر اصطلاحات وہی ہیں جو ٹیلی گراف ایکٹ میں استعمال کی گئی ہیں۔ شق 24(1) حکومت کو غیر مجاز ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک یا آلات پر قبضہ کرنے کا اختیار دیتی ہے اور بل کی شق 24(2) حکومت کو الیکٹرانک نگرانی کے احکامات جاری کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ یہ نہ صرف ٹیلی گراف ایکٹ کے سیکشن 5 کی کاپی ہے بلکہ اس کا دائرہ بھی وسیع کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیلی گراف ایکٹ حکومت کو ملک کے نگرانی کے فریم ورک کے اندر ٹیلی گراف/ٹیلی فون کے ذریعے پیغامات کو روکنے کا اختیار دیتا ہے، جبکہ ٹیلی کام بل ایک قدم آگے جاتے ہوئے 'ٹیلی کام سروسز یا ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک' یا 'ٹیلی کام نیٹ ورکس' اور ٹیلی کمیونیکیشن آلات ‘ کو بھی اس کے دائرے میں لاتا ہے۔


جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، ان شرائط کی وسیع تعریف میں اوور دی ٹاپ (او ٹی ٹی) خدمات شامل ہیں۔ اس لیے واٹس ایپ، سگنل، جِتسی جیسے پلیٹ فارمز پر کمیونیکیشن، جو کالز اور پیغامات کے لیے اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن پیش کرتے ہیں تاکہ مضبوط پرائیویسی اور سیکورٹی کو ممکن بنایا جا سکے۔

دراصل، سگنل جو ایک آزاد، اوپن سورس، اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ میسجنگ سروس ہے اور جس کا استعمال کمزور گروپوں، غیر مطمئن افراد، پناہ گزینوں، کارکنوں، وکلاء اور صحافیوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے، نے کہا ہے کہ اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کے معاملہ میں بھارت میں سمجھوتہ کرنے سے بہتر ہوگا کہ ہندوستان چھوڑ دیا جائے۔ ایسے خدشات ہیں کہ سگنل جیسی کمپنیاں، جو تجارتی فائدے پر پرائیویسی اور سیکورٹی کو ترجیح دیتی ہیں، ٹیلی کام بل کے مطلع ہونے پر ہندوستان چھوڑ دیں گی۔ ظاہر ہے ہندوستانیوں کو اپنی پرائیویسی اور سیکورٹی کو بالائے طاق رکھ کر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔


یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ شق 24(1) حکومت کو 'ٹیلی کام آلات' کے عارضی قبضے میں لینے کی اجازت دیتی ہے اور اس میں فون، ٹیبلیٹ، گھڑیاں، ٹی وی، لیپ ٹاپ شامل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح، حکومت کسی بھی عوامی ہنگامی صورت حال یا عوامی تحفظ کے مفاد میں ہمارے ذاتی سامان کی جانچ پڑتال اور ضبط کرنے کے لیے خود کو مزید طاقتور بنا رہی ہے۔ چونکہ عوامی ہنگامی صورتحال اور عوامی تحفظ کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، اس لیے تلاشی اور ضبطی حکومت کی صوابدید پر ہوگی۔ اگر اس طاقت کو بے لگام چھوڑ دیا گیا تو یہ بل نگرانی کی ایک غیر ذمہ دارانہ، مبہم اور غیر آئینی مشق کا آلہ بن جائے گا۔

بے لگام طاقت کا استعمال

گویا یہ کافی نہیں ہے، بل کی شق 24 اور 25 حکومت کو ٹیلی کام خدمات کو معطل کرنے، ان میں خلل ڈالنے کے وسیع صوابدیدی اختیارات دیتی ہیں لیکن اس کے لیے کوئی چیک اینڈ بیلنس کا بندوبست نہیں کرتی ہیں۔ یہ اختیارات—ٹیلی کمیونیکیشن سروسز تک رسائی کی معطلی سے لے کر ٹیلی کمیونیکیشن آلات کے مینوفیکچررز، درآمد کنندگان اور تقسیم کاروں کے لیے معیارات کے اجراء تک—قومی سلامتی کی آڑ میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ شق 25 میں ایک ذیلی شق بھی ہے جو مرکزی حکومت کو 'جو کچھ بھی مرکزی حکومت قومی سلامتی کے مفاد میں مناسب سمجھے' کرنے کا اختیار دیتی ہے۔


اس کا حل کیا ہے؟

'عوامی تحفظ'، 'ایمرجنسی' جیسی مبہم، غیر متعینہ اصطلاحات پر نظر ثانی کرنے کے علاوہ عدالتی نگرانی کی عدم موجودگی اور نگرانی کے اختیارات کے حوالے سے جوابدہی کی کمی کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اگر اسے ایگزیکٹو کی تشریح پر چھوڑ دیا جائے تو اس کے نتیجے میں فون کی بے لگام ٹیپنگ، انٹرنیٹ سروس کی معطلی جیسے اقدامات ہو سکتے ہیں۔

ٹیلی کام بل ہندوستان کے لیے ایک مثالی قانونی مسودہ تیار کرنے کا ایک ایسا موقع ہے۔ جو ایک متحرک ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کو فروغ دیتا ہے، تکنیکی جدت کو فروغ دیتا ہے، اور آزادی اظہار اور رازداری کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ بل حکومت کی نگرانی میں سہولت فراہم کرے گا، اینکرپشن جیسے حفاظتی اقدامات سے سمجھوتہ کرے گا اور ہمارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرے گا۔


موجودہ ٹیکنالوجی، جمہوریت اور انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے، 2022 کا ٹیلی کمیونیکیشن بل اس طرح تیار کیا جانا چاہیے تھا جس سے 1885 کے قانون میں اصلاحات کی جاتی اور محفوظ مواصلات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نگرانی کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ اس کے لیے حکومت کو نظرثانی شدہ مسودہ تیار کرنا چاہیے۔

تاہم، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ حکومت کو ملک میں نگرانی اور سیکورٹی کے پورے طریقہ کار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فوری طور پر ایک قومی ڈیٹا پروٹیکشن قانون لانے کی ضرورت ہے جو، خاص طور پر حکومتی کارروائی سے ہندوستانیوں کی پرائیویسی کی حفاظت کر سکے۔ اسے درمیان میں کام کرنے والی ایجنسیوں کے ضابطے میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ حتمی شکل دی جانی چاہیے، خاص طور پر میسنجر سروسز، اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہندوستانیوں کی رازداری کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہمیں بیوروکریسی کے اقدامات کی عدالتی انکوائری کا بندوبست کرتے ہوئے اپنے مانیٹرنگ میکنزم کو بھی بہتر بنانا چاہیے۔


یہ تجاویز بہت مشکل لگ سکتی ہیں لیکن ایک بات یاد رکھیں، اگر ہندوستان کو تکنیکی دور میں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنے پرائیویسی پروٹیکشن سسٹم کو بہتر کرنا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔