’انڈیا‘ اتحاد کے بڑھتے قدم

کانگریس کا سماجوادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے ساتھ نشستوں پر اتحاد اور مغربی بنگال اور مہاراشٹرا میں عنقریب اتحاد کے امکانات جس طرح روشن ہوئے ہیں اسے اس اتحاد کی کامیابی ہی قرار دیا جائے گا

<div class="paragraphs"><p>انڈیا اتحاد کے لیڈران کی فائل تصویر / ویپن/قومی آواز</p></div>

انڈیا اتحاد کے لیڈران کی فائل تصویر / ویپن/قومی آواز

user

سہیل انجم

یہ خبر ملک کے ایک بہت بڑے حلقے کے لیے یقیناً مسرت و شادمانی کی ہے کہ بی جے پی کی فسطائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا ”انڈیا“ کے نام سے جو اتحاد قام ہوا تھا وہ رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھتا نظر آرہا ہے۔ جب بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی دعوت پر، جو کہ اب ایک بار پھر بی جے پی کی گود میں بیٹھ گئے ہیں، بی جے پی کو ہرانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا پٹنہ میں اجلاس منعقد ہوا تھا اور پھر اس کے بعد بنگلور اور ممبئی میں اس کے اجلاس ہوئے تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اتحاد ایک بہت بڑی شکل لینے والا اور اس کے بطن سے ملک میں ایک بڑا سیاسی انقلاب جنم لینے والا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ رکاوٹیں کھڑی ہوتی گئیں یا کی جاتی گئیں اور بلآخر نتیش کمار اپنی فطرت کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ وشواس گھات کرکے ایک بار پھر این ڈی اے میں چلے گئے۔ ان کے اس قدم سے اپوزیشن اتحاد کو یقیناً ایک زبردست دھچکہ لگا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب یہ اتحاد اس سے نبردآزما نہیں ہو پائے گا۔

اسی درمیان سماجوادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے برگشتہ قسم کے بیانات آنے لگے تھے اور کانگریس پر اتحاد کے تئیں غیر سنجیدگی کا الزام عاید کیا جانے لگا تھا۔ لیکن داد دینی پڑے گی کانگریس کے رہنماؤں اور بالخصوص اعلیٰ رہنماؤں جیسے کہ سونیا گاندھی، ملک ارجن کھڑگے، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی وغیرہ کو کہ ان کی جانب سے ان برعکس بیانات پر کوئی برعکس ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ بلکہ ان کی جانب سے مصالحانہ بیانات ہی آتے رہے۔ انھوں نے جس سنجیدگی اور ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا اس نے حالات کو سنبھالنے میں بڑی مدد دی جس کی وجہ سے دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں کے بیانات کی تلخی کم ہوئی اور آخر کار دہلی، اترپردیش، ہریانہ، چنڈی گڑھ، گجرات اور گوا وغیرہ میں انڈیا اتحاد نے کامیابی کے پرچم گاڑ دیے۔


کانگریس کا سماجوادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی کے ساتھ نشستوں پر اتحاد اور مغربی بنگال اور مہاراشٹرا میں عنقریب اتحاد کے امکانات جس طرح روشن ہوئے ہیں اسے اس اتحاد کی کامیابی ہی قرار دیا جائے گا۔ حالانکہ اس سے قبل مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اتحاد نہ کرنے یا کانگریس کو بہت کم سیٹیں دینے کی بات کرتی رہی ہیں۔ لیکن اب ایسی خبریں ہیں کہ وہاں جلد ہی اتحاد کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اسی طرح اترپردیش میں بھی مخالفانہ ہواؤں کے باوجود اکھلیش یادو سے اتحاد ہو گیا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر یوپی کی بعض اور جماعتیں اس اتحاد میں شامل ہو جائیں گی۔ سابق وزیر اعلیٰ اور بی ایس پی رہنما مایاوتی بھی اتحاد میں شمولیت چاہتی ہیں لیکن وہ حکومت کی ایجنسیوں سے خائف ہیں اسی لیے ابھی کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتیں۔

بہار میں اگر چہ نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ چلے گئے ہیں لیکن وہاں انڈیا اتحاد اب بھی بہت مضبوط ہے۔ اس میں کانگریس اور آر جے ڈی کے علاوہ بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ اور پھر پوری ریاست میں عوام کے درمیان نتیش کمار کے خلاف زبردست جذبات ہیں۔ اس کا اندازہ آر جے ڈی رہنما اور سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کے جلسوں میں امڈی بھیڑ سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہاں کے عوام کا کہنا ہے کہ نتیش نے ان کی پشت میں خنجر گھونپا ہے۔ جبکہ بحیثیت نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی نے بہت اچھا کام کیا تھا۔ بے روزگاروں کو نوکریاں دی تھیں اور عوام کے بہت سے مطالبات منظور کیے تھے۔ وہاں کے لوگ نتیش کمار کو سبق سکھانے کے موڈ میں ہیں۔


مہاراشٹرا میں بھی نشستوں پر اتحاد کا پورا امکان ہے۔ راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں شرد پوار اور اودھو ٹھاکرے کے ساتھ بذریعہ فون ایک گھنٹے تک بات کی اور نشستوں پر اتحاد کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔ ادھر این ڈی اے میں جو چھوٹی چھوٹی جماعتیں شامل ہیں وہ وہاں خوش نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کو اپنے اثرات کے تناسب میں جتنی سیٹیں ملنی چاہئیں بی جے پی اتنی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ وہاں سے کچھ چھوٹی جماعتیں باہر آجائیں۔ حالانکہ اس کا امکان کم ہے۔ کیونکہ بی جے پی اپنے مخالفین کو ای ڈی کی کارروائیوں کا خوف دلا کر اپنے خیمے میں باندھے ہوئے ہے۔ اگر حکومت یہ سلسلہ بند کر دے تو بہت سی جماعتیں این ڈی اے سے نکل جائیں گی۔ ادھر جنوبی ریاستوں میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے۔ اسے وہاں زیادہ سپورٹ نہیں مل رہی ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت اپوزیشن لیڈروں کے خلاف سرکاری ایجنسیوں کا استعمال بند کر دے، انہیں جیل میں ڈالنے کا سلسلہ روک دے۔ جن کو جیلوں میں بند کر رکھا ہے ان کو رہا کر دے اور الیکشن کے لیے صاف ستھرا اور دباؤ سے پاک ماحول بنائے تو ملک کا سیاسی نقشہ پلٹ جائے گا۔ دراصل عوام کا بہت بڑا طبقہ اس حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے کلیدی منصبوں پر بی جے پی کے لوگوں کو بٹھا رکھا ہے جو اس کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں معاونت کر رہے ہیں۔ اگر وہ لوگ وہاں سے ہٹ جائیں تو ماحول بدل جائے گا۔


دراصل بی جے پی کے فسطائی نظریات کو اگر کوئی پارٹی شکست دے سکتی ہے تو وہ کانگریس ہی ہے۔ وہی ایک ایسی جماعت ہے جو اسے اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ بی جے پی اور کانگریس کی پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بی جے پی کا نظریہ آر ایس ایس کا نظریہ ہے جو اس ملک کے بنیادی مزاج کے منافی ہے۔ جبکہ کانگریس کا سیکورلزم کا نظریہ یہاں کے عوام کے مزاج کے مطابق ہے۔ عوام کے ایک بڑے طبقے کے اذہان کو اگر چہ خراب کر دیا گیا ہے لیکن اب بھی صاف ستھرے ذہن کے لوگوں کی کمی نہیں ہے بلکہ وہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے لوگ بھی کانگریس کو ہی برسراقتدار دیکھنا چاہتے ہیں۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی اس بات کو محسوس کرتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اس کا راستہ اگر کوئی پارٹی روک سکتی ہے تو وہ کانگریس ہی ہے۔ اسی لیے بی جے پی کے بیشتر لیڈران کانگریس کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اور کانگریس میں کیڑے نکال کر اپنے ہمنوا ووٹروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک مسئلہ ای وی ایم کا بھی ہے۔ اس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج چل رہا ہے اور یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپر سے الیکشن کرائے جائیں۔ ان کا خیال ہے کہ ای وی ایم میں گڑبڑی کی بنیاد پر بی جے پی پھر اقتدار میں آسکتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ حکومت بیلٹ پیپر سے الیکشن کرائے گی۔ بہرحال بی جے پی کے لوگ اور خاص طور پر وزیر اعظم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ 2024 کے الیکشن میں بھی برسراقتدار آئیں گے، کوئی ضروری نہیں کہ یہ دعویٰ پورا ہی ہو۔ دیکھیے الیکشن کے آتے آتے ملک کا سیاسی ماحول کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔